بول نیوز اس اونٹ کی طرح ہے جس کی کوئی “کل” سیدھی نہیں ہے۔ ۔ہر ڈپارٹمنٹ میں نااہل لوگ ہیڈ بن کر بیٹھے ہیں اور اپنے ماتحتوں کیلئے ذہنی عذاب ثابت ہورہے ہیں۔ پپو نے انکشاف کیا ہے کہ ایچ آر میں ایسی خاتون کو جگہ دی گئی ہے جو بطور اینکر انٹرویو میں فیل ہوچکی تھی۔۔ پپو کا مزید کہنا ہے کہ یہ محترمہ بطور خاتون وائس اوور آرٹسٹ ادارے میں آئیں، کچھ عرصے بعد جب اردو ویب سائٹ پر نیوزبلیٹن کا آغاز ہوا تو ڈیجیٹل پر نیوز پڑھنے لگیں، پھر جب ویب پر نیوزبلیٹن بند ہوا توانہیں اوپر نیوزروم میں بلایاگیا تاکہ بطور نیوزاینکر انہیں بول کی اسکرین پر جگہ دی جائے لیکن وہاں یہ بری طرح فیل ہوگئیں، جب کہ ان کے ساتھ کی دوسری خاتون اینکر نے بول کی اسکرین پر اپنی جگہ بنالی۔۔۔ پپو کا مزید کہناہے کہ یہ محترمہ جانے کس طرح ایچ آر میں جگہ پانے میں کامیاب ہوگئیں۔ جس کے بعد اب یہ اردو انگریزی ویب سائٹ والوں سے اپنے پرانے بدلے لے رہی ہیں۔محترمہ علی الاعلان کہتی پھررہی ہیں کہ وہ ناپسندیدہ لوگوں کی لسٹ بنارہی ہیں تاکہ انہیں نوکری سے نکالاجاسکے، المیہ یہ ہے کہ محترمہ کا ڈیوٹی کے دوران زیادہ وقت ایچ آر کے شعبے میں بیٹھنے اور وہاں کام نمٹانے کے بجائے اردو ویب سائٹ کا شعبہ ہوتا ہے جہاں کے آر اے کے ساتھ ان کی بہت گاڑی چھنتی ہے۔۔یہ محترمہ اردو ویب سائٹ ڈپارٹ میں بیٹھ کر وہاں کے ورکرز کی خفیہ وڈیو بنواتی ہیں، کہ کون یوٹیوب دیکھ رہا ہے ، کون کونسی ویب سائیٹ دیکھ رہا ہے۔۔حالانکہ محترمہ کو اتنا علم نہیں کہ بول نیوز میں آئی ٹی کا ایک شعبہ بھی ہے جو پورے بول میں ہر ورکر کی ساری آئی پیز وغیرہ دیکھ کر بتاسکتا ہے کہ کون کیا دیکھ رہا ہے؟ پپو نے اس امر پر بھی حیرت کا اظہار کیا کہ ایچ آر کی یہ خاتون جن کے ساتھ زیادہ ٹائم گزارتی ہیں وہ خود پہلے اس ادارے میں کمپوزر بھرتی ہوا تھا اور بالکل محترمہ کی طرح ہی پتہ نہیں کیسے اس اتنے اہم شعبے کا آر اے بن گیا جب کہ اس کا اپنا کوئی نیوز سے متعلق بیک گراؤنڈ ہے نہ وہ صحافی ہے۔۔پپو کے مطابق یہ سارے معاملات عامر ضیا صاحب کے علم میں اگر نہیں ہیں تو بطور ہیڈآف اردو انگلش ویب سائٹ وہ ان معاملات کا نوٹس لیں۔ اور اردو،انگریزی ویب سائٹ میں کام کرنے والوں کو ذہنی اذیت سے نجات دلائیں۔۔