تحریر: سید عارف مصطفیٰ۔۔
دلوں کے تارسے چھیڑ دینے والا وہ محاورہ سنا ہےآپ نے،،،، اپنے بچے اور دوسرے کی بیوی زیادہ اچھے لگتے ہیں۔۔۔! بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی،،،! تاہم یہ اودھم پرور محاورا گھر میں زبان پہ لانے کا ہرگز نہیں،،، ورنہ دونوں ہی مواقع ہاتھ سے جائینگے۔۔۔ ِادھر آپ کے بچے اپکے نزدیک پھٹکنے نہیں دیئے جائینگے اور ُادھر آپ کسی کی بیوی کے قریب پھٹکنے کے قابل بھی نہیں رہنے دیئے جائیں گے۔۔۔ تاہم کئیوں کے مطابق “ایسا سوچنے میں کوئی مضائقہ نہیں ، کہ اسکے بنا زندگی میں بھی کوئی ذائقہ نہیں”۔۔۔ لیکن جو کرنا ہے ذرا بچ بچاکے کریں ، کیونکہ وہ جو آپکا طائر خیال ہے اسکےپر قینچنے کیلیئے آپکی زوجہ ہمیشہ زیادہ چوکس و مستعد ملے گی ۔۔۔ ویسے بھی برصغیر کی بیویاں تاریخی طور پہ شوہر کو اپنی ملکیت بلکہ اپنا سامان سمجھتی ہیں اور گھروں میں ، محفلوں میں ادھر ادھر اسی طور گھسیٹتی پھرتی ہیں،،،، بیگمات میں سے اکثر کا یہ خیال ہے کہ “اگر وہ اپنے شوہروں پہ اتنی کڑی نظر نہ رکھیں تو نا جانے کیا کرڈالےیہ مردؤا”۔۔۔ حالانکہ، اچھن میاں کے بقول “ہر دو کڑی نظروں کے درمیانی وقفے میں ہی وہ سب کچھ ہورہتا ہے کہ جسکی روک تھام کیلیئے اتنا کچھ کیا گیا ہوتا ہے۔۔۔،! ” اور اگر ولولوں کی نکاسی میں ذرا کمی رہ جائے تو حال یہ ہوتا ہے کہ گویا۔۔۔ کہیں دل رہ گیا تو کہیں آنکھیں۔۔۔
ویسے تو ہمارے خواجہ صاحب کے نزدیک “اکثر بیویوں کو دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ وہ کبھی لڑکی بھی رہی ہوں گی” تاہم بالتحقیق یہ ثابت ہے کہ ہر بیوی کبھی نا کبھی لڑکی ضرور رہی ہوتی ہے ،،،خوشبوؤں میں بسی ہوئی،،، ناز و ادا سے رچی ہوئی،،، اور انہی میں سے کچھ تو ایسی کہ جنہیں لوگ مڑمڑ کے دیکھتے رہے ہیں،،،اور گٹروں میں ڈوب ڈوب کر ابھرتے رہے ہیں ، کبھی ٹانگ ٹوٹی تو کبھی دل، لیکن ولولوں میں کمی نہ آئی ۔۔ لیکن یہی لڑکیاں جو شادی سے پہلے الگ الگ طرح کی ہوا کرتی ہیں، شادی کے بعد سب کی سب یا زیادہ تر ایک ہی طرح کی ہوجاتی ہیں، اور ان کے وجود میں چھپے کئی کردار کود کود کر باہر آتے جاتے ہیں ، کبھی لیکچرر تو کبھی دھوبن تو کبھی باورچن،،،لیکن ان سب سے زیادہ کرارا کردار یہ ۔۔۔ کہ۔۔۔ بیحد شکی، اور نکتہ چینی کی ماہر اور اس حوالے سے انکے پاس موضوعات کی کبھی کوئی کمی نہیں ہوتی۔۔۔ ۔۔۔ شوہر سلامت تو بدگمانی کے ہزار طریقے بھی سلامت،،، پھریہ کہ اگر شوہر کو اللھ رکھے تو وہ تادم مرگ شک کا مزہ ہربارنئے نئے ذائقوں میں کیوں نہ چکھے۔۔۔ بیگمات اپنے مائیکے سے جو مجرب مشورے جہیزکے ساتھ لاتی ہیں ان میں سے90 فیصدی کا محور یہی شک ہوتا ہے باقی 10 فیصد کا تعلق شوہر کا دل جیتنے جیسے امور وغیرہ وغیرہ اضافی امور سے ہواکرتا ہے۔۔۔ بیگمات کے نزدیکی شک دراصل فلاح انسانیت کا ایک دائم المیعاد پروجیکٹ ہے اور اسی لیئے اس پہ بارہ مہینے مخفی ترقیاتی کام جاری رہتا ہے لاپرواہ یا سادہ لوح کم نصیب شوہر بہت آسانی سے ، اس مقصد کے لیئے کھودے گئے خفیہ گڑھوں میں زارو قطار گرتے اور پھنستے دیکھے جاتے ہیں
اور یہ جو شک کی واردات ہے اسکا ارتکاب سلو پائزن کے عقیدے پہ ایمان رکھنے سے جڑا ہوا معلوم ہوتا ہے۔۔۔ شادی کےبعد شروع شروع میں تو شک بہت دھیرے دھیرے سے ظاہر کیا جاتا ہے،، ایسے ہی ذرا ہولے سے۔۔ دھیمے سے،، شوہر کے کندھے سے سر ٹکاکر بڑے رسان سے شوہرکےکوٹ یا قمیض کو چھوٹی چھوٹی سانسوں سے سونگھنے سے واردات کا آغاز ہوتا ہے۔۔۔۔ اگر وہاں کسی ایسی خوشبو کا سرغ لگے جو گھر میں موجود نہیں تو اسی مقام پہ ناک ٹہرا کر تھوڑے لمبے لمبے سانس لیئے جاتے ہیں۔۔۔ لیکن خوشبو کی تعریف کرتے ہوئے یہ ضرور دریافت کیا جاتا ہے کہ “ارے یہ کب لی؟ کہاں رکھی ہے،،،ذرامجھے بھی تو بھی تو دکھائیے،،،، ” اور پھر اسی طرح کبھی شوہر کے ساتھ ذرا لگ کر۔۔۔ یونہی بیٹھے بیٹھے۔۔۔ چپکے چپکےسے موبائل کو ہاتھ میں تھاما جاتا ہے ۔۔اسے تھوڑا سا الٹتے پلٹتےہوئے اسکے ِان باکس کے کوچوں میں گھوما جاتا ہے،،، پھر ذرا اور ہمت بندھتی ہے تو سینٹ باکس میں سونگھا جاتا ہے۔۔۔ بار بار نظر آنے والے نمبروں کو نوٹ بھی کرلیا جاتا ہے،،،اس دوران گاہے دُزدیدہ نگاہوں سے شوہر کے چہرے کےتاثرات اور بدن بولی کو بھی آنکا جاتا رہتا ہے۔۔ مزید تاب وتواں بڑھے تو بدگمانیوں کی مہم جوئی تیز تر ہوتی جاتی ہے اور شوہر کے ذرا ادھر ادھر ہوتے ہی ُان ‘مشکوک’ تکراری نمبروں پہ رانگ کال کی جاتی ہے اور اندازے کے چمقاق سے دوسری طرف نسوانیت کی پازیب کھوجی جاتی ہےاور پھر مستعدی سے اس کال کے ریکارڈ کو بھی نابود کردیا جاتا ہے،،، ضرورت اگر ایجاد کی ماں ہے تو شک اسکی نانی ہے۔۔۔ بجلی کے فیوز کو بھی نا سمجھنے والی یہ “الاندرونیاں” موبائل کے نظام کی تکنیکی باریکیوں کے باب میں گویا البیرونیاں ہیں۔۔۔
بیوی کو چالاک دیکھنا کسی مرد کو مطلوب نہیں اور اس میں مشرق و مغرب کی تخصیص نہیں۔۔۔ لیکن انکے نصیب میں زیادہ تر یہ ہونی ہوکے رہتی ہےاورپھر اسکی نیٹ پریکٹس ساری زندگی جاری رہتی ہے۔۔۔ نقص امن سے بچنے کیلیئے بڑے بڑے فلاسفر بھی اپنی زوجہ کے مقابل بدھومیاں بن جاتے ہیں اور ان سے حماقت کی داد پاتے ہیں،،،اپنی زوجہ کے پھیپھڑوں کو ترنگ اور مسرت کی خوشگوار ہوا سے بھرنے اور اس سے اطمینان کی سانسیں برآمد کرنے ۔۔ اور ایک خوشگوار اور بھرپور ازدواجی زندگی کیلیئے تھوڑا سا بدھو نظر آنا بہت ضروری، بلکہ لازمی ہے،، قیام امن اور رفع شر کیلیئے یہ بڑے کمال کا نسخہ ہے۔۔۔ برصغیر میں شادی کے بعد دونوں فریقین میں تھوڑا سا بدلاؤ آنےکو واجب بلکہ فرض سمجھ لیا گیا ہے۔۔ لیکن مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر اس کلیئے کے نتائج پوری سنگینی کے ساتھ صرف خواتین پہ ہی ہویدا کیوں ہوتے ہیں،، یہ گویا ایک آسمانی راز ہے۔۔۔۔ شاید ان چند رازوں میں سےایک کہ جنہیں نا سمجھ سکنا ہر مرد کی قسمت کا لازمی حصہ ہے
یہ بات بھی کتنی عجیب ہے کہ اچھی بھلی شوخ وشنگ لڑکیاں بھی بیوی بننے کے بعد صرف صحت ہی سے نہیں شرارت و شوخی کے لحاظ سے بھی یکسر مختلف ہوجاتی ہیں،،، ذیادہ تربیویاں شادی کے فوراً بعد خوفناک سنجیدگی کا غلاف بلکہ اپنے قد سے فروتر اک جھول سا جسے وہ متانت باور کراتی ہیں ، اوڑھ لیتی ہیں اور اپنے شوہروں کو جو کہ تبدیلیء ذات کی اتنی بڑی اور مکمل جست نہیں لگاپاتےکو ہر وقت ان کلمات ناملائم کی سان پہ چڑھائے رکھتی ہیں کہ “آپ تو ہر وقت بچہ بنے رہتے ہیں”،،، یا ” آخرآپ کب بڑے ہونگے”،،،،یہ اور اس قسم کے اور کئی غیرت ابھارُو کلمات سے ُاکسا کر اپنے ہی رنگ میں رنگ دینے کی یہ مہم ہمیشہ ہی جاری رہتی ہے ۔۔۔ اور ستم تو یہ ہے کہ شوہر کے کب بڑے ہونے کی یہ آشاؤں بھری لن ترانی اسکے بڑے میاں ہوجانے پہ بھی نہیں رکتی
چند ماہرین زن کا حسن ظن ہے کہ حسین لڑکیاں بیوی بننے کے بعد زیادہ عرصے تک ایسی طعنہ زنی جاری رکھنے میں زیادہ دلچسپی نہیں رکھتیں کیونکہ انکا غرور حسن انہیں زیادہ بولنے سے گریز کرنے پہ اکساتا ہے جو انکو خود بخود ذہین سمجھ لیئے جانےکی بھی آسان تدبیر ہےاور یہ نسخہ ان پہ ہمیشہ سے آشکار ہے۔۔۔ لیکن حسن زن کے حواکے سے ہمارے چغتائی صاحب کا ‘حسن ظن، خاصا مختلف ہے،، وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ “شادی کیلیئے بہت حسین لڑکی تلاش کرنا بیکار ہے،،، کیوں خواہ مخواہ کسی کو دائمی پچھتاوے کا دکھ دیا جائے اور وہ بھی ایسا دکھ کہ کبھی مدہم اور کبھی تیز سروں میں اسکا راگ ساری عمر سننے کو ملے۔۔۔۔” اور ویسے بھی 4-5 سال میں تو ہر طرح کی زوجہ کی شکل خربوزے اور تربوز جیسی ہوہی جاتی ہے۔۔۔ تاہم اس میں کہیں کہیں استثناء بھی ہے کیونکہ چند خواتین خربوزے اور تربوز جیسی نہیں بھی ہوجاتیں ، پپیتے اور کدو جیسی بھی دکھنے لگتی ہیں ۔۔
دنیا بھر میں تبدیلیوں کے حوالے سے جتنی بھی تحقیق کی جاتی ہے اسے وقت کا زیاں قرار دیتے ہوئے اچھن میاں کا فرمانا ہے کہ “انسانی زندگی میں جتنی غیر ارادی تبدیلی اک شادی کے سبب سے جنم لیتی ہے اتنی کسی بھی ارادی فعل سے جنم نہیں لے پاتی اور خواتین کے باب میں تو یہ گویا اک نیا جنم لینے کے جیسا ہے، انکے لیئے تو شادی درحقیقت اک پیغام انقلاب ہے”۔۔۔ ہم نے انکے اس قول کی جب عملی جانچ کی تو اسے خاصا صائب پایا ۔۔۔ یہ بھلا کس کا روزمرہ کا مشاہدہ نہیں کہ وہ نازنین جو شادی سے پہلے کبھی یہاں وہاں ہر جانب تتلی سی اڑی پھرتی تھی ، چند ہی برس میں ایک بے ڈھنگی سی چیل اور شکرا نما شےسی بن جاتی ہے، اور وہ عفیفہ جو کبھی اپنے ابا میاں کی چہاردیواری میں کفایت کے سو سو ڈھنگ تلاشتی و تراشتی تھی ، میاں کی چہاردیواری میں آتے ہی ۔۔ آنکھوں میں دم اور ہاتھوں میں جُنبش تلک اسکی جیبوں اور اعصاب پہ خوب خوب جھپٹا مارتی ہے۔۔۔ اور ۔۔۔ پلٹ کر جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا،،، لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ کی اس کیفیت میں شوہر بیچارے کو یہ پتا ہی نہیں چلتا ۔۔کہ اسکی زوجہ کب 20 سال سے 40 برس کی ہوگئی۔۔۔ اور ۔۔۔اور۔۔اس سے زیادہ کی ہونے پہ تووہ راضی ہی نہیں ہوتی۔۔(سیدعارف مصطفیٰ)۔۔
(سید عارف مصطفیٰ مزاح نگار بھی ہیں اور سیاسی تجزیہ کار بھی ۔۔۔ انکا کہنا ہے کہ ویسے تو بظاہر یہ دو الگ شعبے ہیں لیکن پاکستان میں یہ دونوں دراصل ایک ہی ہیں ۔۔۔ بزم ظرافت پاکستان کے صدر ہیں – انہوںنے ایم اے صحافت میں گولڈ میڈلسٹ ہونے اور ایل ایل بی ڈگری یافتہ ہونے کے باوجود دونوں کو کیریئر نہیں بنایا بس پہلے میرٹ پہ ایکسائز اینڈ سیلز ٹیکس ڈیارٹمینٹ کو بطور ایکسائز انسپیکٹر جوائن کیا تھا مگر پھر اسے چھوڑ کر ایک ملٹی نیشنل یو نیلیور مینجمنٹ کا حصہ بن گئے تھے، اب ایک ایڈ ورٹائزنگ ایجنسی سے منسلک ہیں اور میڈیا چینلوں کے لئے چٹُپٹی تجزیہ نگاری کرنے اور ظریفانہ اسکرپٹ لکھنے و مزاح کا ایک معیاری شو مرتب کرنےکے متمنی ہیں)۔۔