سینئر صحافی ،اینکرپرسن اور کالم نویس رؤف کلاسرا کا کہنا ہے کہ ٹی وی شوز نئی انٹرٹینمنٹ بن گئے۔آپ کو یاد ہوگا کہ جب ٹی وی چینل شروع ہوئے تو کیا کیا تماشے ہم لوگ سکرین پر کرتے تھے کہ ریٹنگ ملے گی۔ ریٹنگ ملے گی تو آپ کی ذاتی مشہوری ہوگی تو چینل کو بزنس ملے گا کہ اس کے شو زیادہ دیکھے جاتے ہیں۔ یوں اچھے اچھے خاندانی سیاستدان بھی چینل پر ایکسپوز ہوئے۔ لوگ یقین نہیں کرسکتے کہ اتنا معزز لگنے والا بندہ چھچھورا ہے۔ یہ لو گ مرغوں کی طرح لڑے تاکہ لوگ انہیں بہادر سمجھیں۔ لوگوں نے ڈرامے دیکھنا بند کر دیے اور ٹی وی شوز نئی انٹرٹینمنٹ بن گئے۔ دنیانیوزمیں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ ۔۔دھیرے دھیرے لوگ اس کھیل سے تنگ آگئے۔ ریٹنگز گرنے لگیں تو نیا تماشا ڈھونڈ لیا گیا اور یہ تھا سوشل میڈیا جو فری فار آل تھا۔ توجہ حاصل کرنے کا نیا ہتھیار ہاتھ آگیا۔ اخبار اور ٹی وی چینل پر اب بھی کوئی روکنے والا تھا۔ ایڈیٹر تھا‘ نیوز ایڈیٹر‘ سب ایڈیٹر‘ بیوروچیف تھے جو کسی بھی خبر کو شائع کرنے سے پہلے ہر زاویے سے اس کی تصدیق کرتے۔ بارہ گھنٹے کا وقت ہوتا تھا خبر چھپنے کا‘ لہٰذا احتیاط برتی جاتی۔ ایڈیٹر کا رعب تھا۔ رپورٹر کو علم تھا کہ نہ صرف اخبار کی عزت خطرے میں پڑے گی بلکہ اس کی اپنی خبر غلط نکل آئی تو اپنا مستقبل بھی تباہ ہو گا‘ وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا۔ یوں ایک پروفیشنل گرومنگ ہوتی تھی۔ پھر ٹی وی آیا تو وہاں کسی حد تک یہ پروفیشنل پابندیاں کم تھیں اور جس کے ہاتھ میں مائیک آگیا اس نے تباہی مچا دی۔ اب لائیو اس کو کون روک سکتا تھا؟ خیر ابھی ہمیں علم نہ تھا کہ سوشل میڈیا ایج ہمارا انتظار کررہا ہے جہاں اخبار‘ یوٹیوب یا ٹویٹر کے مالک بھی آپ خود ہیں‘ خود ایڈیٹر‘ خود نیوز ایڈیٹر اور سب ایڈیٹر یا بیوروچیف ہیں۔ اب آپ ہی باس ہیں‘ جو چاہیں لکھیں‘ پوسٹ کریں یا کلپ لگا دیں۔ اور پھر ہم نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ میرے جیسوں نے یوٹیوب اور ٹویٹر یا فیس بک پر تباہی مچا دی تو ویوز کے بدلے یوٹیوب پر ڈالرز ملنا شروع ہوگئے۔ پھر مقابلہ شروع ہوگیا کس کا ٹویٹ لاکھوں دفعہ ری ٹویٹ ہوتا ہے۔ کتنے لاکھ لائکس ملتے ہیں‘کتنے ملین فالورز فیس بک‘ انسٹا گرام یا ٹویٹر پر ملتے ہیں۔ اور یوں ڈالروں‘ ویوز‘ لائکس اور کمنٹس کی خواہش نے پورے معاشرے کو تباہ کر دیا۔ رہی سہی کسر ٹک ٹاک نے پوری کردی۔ ایسے ایسے اچھے گھرانوں کے وڈیو کلپس سامنے آنا شروع ہوئے کہ یقین نہیں آتا۔ میرے جیسا ماڈریٹ اور پروگریسو بندہ بھی منہ میں انگلیاں دبا کر رہ گیا۔