خصوصی رپورٹ۔۔
’ابھی میں آفس پہنچا ہی تھا کہ پتا چلا کہ آج کوئی بڑا اعلان ہونے والا ہے۔ تھوڑی دیر میں بتایا گیا کہ ٹیلن نیوز ’ریٹنگز کی نذر‘ ہو گیا ہے۔ تو اس طرح ہم لوگ بیٹھے بٹھائے سڑک پر آ گئے اور اب میری سب سے بڑی فکر یہی ہے کہ دوسری نوکری ان حالات میں کہاں ملے گی؟یہ میسج ٹیلن نیوز کے ایک رپورٹر نے تب شئیر کیا تھا جب ان سے ان کا ادارہ بند ہونے کے بارے میں سوال پوچھا گیا۔اگرچہ اب یہ چینل دوبارہ بحال ہو گیا ہے اور اس کے کنٹرولر نیوز اویس حمید نے بی بی سی کو بتایا کے’اتوار کی شام عملے کو اطلاع کر دی گئی تھی اور پیر کی شام سات بجے سے چینل کی نشریات دوبارہ بحال کر دی گئی ہے۔چند روز پہلے نجی ٹی وی چینل ٹیلن نیوز کی جانب سے ایک پوسٹ فیس بُک اور مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لگائی گئی تھی جس میں ٹیلن ادارے نے بتایا کہ ان کا ادارہ مزید نشریات چلانے کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ ان کے چینل کی ریٹنگ کم ہونے کی وجہ سے انھیں غیر مستحکم معاشی صورتحال کا سامنا ہے اور اس وجہ سے انھیں اپنا ادارہ ہی بند کرنا پڑ رہا ہے۔
ماضی میں بھی پاکستان کے مختلف میڈیا چینلزز ملک میں ریٹنگ کے غیر مصدقہ نظام کو انڈسٹری کے زوال کا ذمہ دار قرار دیتے رہے ہیں۔مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ریٹنگ سسٹم کیا ہے؟ کسی ٹی وی چینل کی ریٹنگ کا اس کے بزنس ماڈل یا آمدن سے کیا تعلق ہوتا ہے؟ اور کیا کسی نیوز چینل کو صرف ریٹنگ کی بنیاد پر بند کیا جاسکتا ہے؟
ٹی وی ریٹنگ پوائنٹس (ٹی آر پی) ایک ایسا نظام ہے جس سے ناظرین کے ٹی وی دیکھنے کے معمول یعنی کس چینل کو کتنا دیکھا گیا، کتنی دیر دیکھا گیا، دن کے کن اوقات میں دیکھا اور دن میں کتنے گھنٹے کون سا ٹی وی چینل دیکھا گیا، ماپا جاتا ہے۔اس عمل کو ٹی آر پی کہا جاتا ہے اور اس کے ذریعے کسی بھی چینل کی ریٹنگ اخذ کی جاتی ہے۔مثال کے طور پر کون سے چینل کو کتنی دیر تک دیکھا جاتا ہے، کون سے پروگرام کو سب سے زیادہ ناظرین دیکھتے ہیں اور کتنے سیکنڈ میں کس چینل کو بدل کر کسی اور چینل پر چلے جاتے ہیں۔ ان تمام عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے کسی بھی چینل کو ریٹنگ سسٹم میں سب سے اوپر یا سب سے نیچے جگہ ملتی ہے۔پاکستان میں ٹی وی ریٹنگز مرتب کرنے والی متعدد کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور ان کمپنیوں میں ایک نمایاں نام میڈیا لاجک کا ہے۔ماضی میں میڈیا لاجک سے تعلق رکھنے والے بلال اکرام نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’نہ صرف پاکستان میں بلکہ دُنیا بھر میں ٹی وی ریٹنگز کو مرتب کرنے کے لیے برطانوی کمپنی کانتار میڈیا کا سسٹم استعمال کیا جاتا ہے۔ان کے مطابق میڈیا لاجک نے پاکستان کے 20 سے زائد شہروں میں اپنے ریٹنگ میٹرز لگا رکھے ہیں اور یہ میٹرز دو افراد سے آٹھ افراد پر مشتمل کسی بھی خاندان کے گھر میں لگائے جاتے ہیں۔بلال اکرام کہتے ہیں کہ ’جہاں یہ میٹرز لگائے جاتے ہیں وہاں گھر کے ہر فرد کو ایک سائن یا سِمبل (پہچان کے لیے نشان) دے دیا جاتا ہے جو کہ میٹر پر ہی لگا ہوتا ہے۔ وہ جب ٹی وی دیکھنے بیٹھتے ہیں تو اپنا سائن پریس کردیتے ہیں تا کہ پتا رہے کہ کونسا شخص، کس وقت کون سا ٹی وی چینل یا کونسا پروگرام دیکھ رہا ہے۔یہ تمام ڈیٹا نمبرز کی شکل میں میٹرز سے ریٹنگز کمپنی کے پاس پہنچ رہا ہوتا ہے۔ اس ریٹنگ سسٹم کو چلانے کے لیے گھر کے افراد کو باقاعدہ تربیت دی جاتی ہے۔ایک سوال کے جواب میں بلال اکرام کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پیمرا اور پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) متفقہ طور پر رینٹنگ کی پیمائش کے لیے موجودہ نظام استعمال کرنے کے حق میں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں متعدد ریٹنگ کمپنیاں کام کر رہی ہیں لیکن وہ ’یہاں سیٹل نہیں ہو پاتیں۔ٹیلن ٹی وی چینل کی ریٹنگ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’جنوری اور فروری کے مہینوں میں یہ چینل ٹاپ 10 ٹی وی چینلز کی فہرست میں شامل رہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ صرف ریٹنگ کی کمی کسی ٹی وی چینل کے بند ہونے کی وجہ نہیں ہو سکتی۔
ٹی وی دیکھنا ایک عادت ہوتی ہے اور اُس عادت کو بدلنے میں وقت لگتا ہے۔ اگر لوگ جیو، اے آر وائی نیوز یا دیگر چینلز دیکھ رہے ہیں تو ان چینلز کی ایک پُرانی تاریخ ہے اور یہ چینلز برسوں سے کام کر رہے ہیں اور اسی لیے ان کو دیکھنا ناظرین کی عادت بن گئی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ وہ ٹی وی چینلز دیکھتے ہیں جن کا مواد یا کنٹینٹ انھیں اچھا لگتا ہے اور اگر ناظرین کو کسی چینل کا مواد اچھا نہیں لگ رہا تو وہ چینل تبدیل کر لیں گے۔ ایسے میں ریٹنگ کمپنیاں کیا کر سکتی ہیں؟ان کے نزدیک جب کوئی ٹی وی چل نہیں پاتا تو پھر ریٹنگ کے نظام کے خراب ہونے کے دعوے سامنے آتے ہیں۔
لیکن پاکستان میں ریٹنگ کے نظام پر برسوں سے سوال اُٹھائے جا رہے ہیں۔میڈیا لاجِک سنہ 2006 میں لانچ کیا گیا تھا، جہاں وہ پہلے صرف دو یا تین شہروں میں نیوز چینلز کا سروے کرکے ریٹنگ بتایا کرتا تھا مگر اب ریٹنگ کی پیمائش کے لیے تقریباً 20 شہروں سے ڈیٹا اکھٹا کیا جاتا ہے۔
پاکستانی میڈیا انڈسٹری گذشتہ دو دہائیوں میں اُبھر کر سامنے آئی جس کے نتیجے میں کئی نیوز چینلز شروع ہوئے۔میڈیا لاجِک زیادہ تر کیبل پر دیکھے جانے والے نیوز چینلز کے ذریعے مختلف شہروں میں اپنا سروے مکمل کرتے ہیں۔ان کے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں اشتہارات ریٹنگ کی بنیاد پر ملتے ہیں۔ان کے ایک سروے کے مطابق اب ٹی وی دیکھنے والوں میں واضح کمی دیکھی گئی ہے (منفی 14 فیصد) جس کی ایک بڑی وجہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو سمجھا جاتا ہے، اس کے باوجود ٹی وی چینلز نے اشتہارات کی مد میں 75 ارب کمائے ہیں۔میڈیا لاجک نے اپنے ایک سروے میں واضح کیا ہے کہ ٹی وی چینلز زیادہ تر اشتہارات کے ذریعہ ریونیو کماتے ہیں۔ دیگر ریونیو کمانے کے ذرائع میں پروڈکشن ریونیو، سبسکرپشن ریونیو، اور صارف کا ڈیٹا بیچ کر ریونیو کمایا جاتا ہے۔لیکن اکثر ماہرین ان سروے اور ریٹنگ کو نہیں مانتے اور الزام لگاتے ہیں کہ یہ ’ایک مکمل فراڈ ہے۔اس کی ایک وجہ سنہ 2015 میں ہونے والے ایک واقعے سے جڑی ہے، جس میں ایک ٹی وی چینل کے مالک پر میڈیا لاجِک نے الزام عائد کیا تھا کہ انھوں نے پیسوں کے عوض اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھائی تھی۔ جس کے بعد سے زیادہ تر چینل اس بحث میں ہی نہیں پڑتے کہ ان کے چینل کی ریٹنگ کیا ہے۔میڈیا لاجِک کے سنہ 2023 کے اعداد و شمار کے مطابق 100 سے زیادہ شہروں اور قصبوں اور 3000 ہزار سے زیادہ گھروں میں اب بھی سب سے زیادہ دیکھے جانے والے چینلز میں جیو نیوز، اے آر وائی اور دنیا ٹی وی شامل ہیں جبکہ علاقائی چینل کی ریٹنگ پہلے قدرے کم ہوئی ہے اور چند علاقوں میں وہی رہی ہے جو پہلے تھی۔
پاکستان کے نجی میڈیا ہاؤس ’ہم نیوز‘ سے منسلک ایمن سید نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ پاکستان کے متعدد شہروں میں ریٹنگ کمپنیوں کی جانب سے ریٹنگ میٹرز لگائے گئے ہیں اور اس سسٹم میں ایک سِم کارڈ لگا ہوا ہوتا ہے جو ناظرین کے ٹی وی دیکھنے کے رجحان کا ڈیٹا محفوظ کر کے ریٹنگ کمپنیوں تک پہنچا رہا ہوتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ’اس ریٹنگ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ کون شخص کس وقت کونسا چینل یا کونسا پروگرام دیکھ رہا ہے۔ان کے مطابق یہ ڈیٹا مختلف ٹی وی چینلز اور ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے پاس جاتا ہے اور انھیں دیکھ کر بڑی اور چھوٹی تمام کاروباری کمپنیاں یہ فیصلہ کرتی ہیں کہ اُن کی پروڈکٹ کا اشتہار کس ٹی وی چینل پر کونسے وقت چلانا چاہیے۔یعنی کہ اس ریٹنگ کمپنیوں سے آنے والے ڈیٹا کو دیکھ کر یہ فیصلہ کر رہے ہوتے ہیں ان کی ٹارگٹ آڈیئنس کس وقت کونسا ٹی وی چینل یا کونسا پروگرام دیکھ رہے ہیں اور کس وقت وہ اپنا پیغام اُن لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔ایمن ریاض کہتے ہیں کہ ٹی وی چینلز پر کسی بھی ایک گھنٹے کے دوران 17 سے 20 منٹ کے اشتہارات چلائے جا سکتے ہیں۔لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ 50، 50 منٹ کے اشتہارات میں بھی جمع ہوجاتے ہیں اور پھر ٹی وی چینل کو تقریباً 30 منٹ کے اشتہار ڈراپ کرنا پڑتے ہیں۔ایسے میں اس گھنٹے میں جو 20 منٹ کے اشتہار چلنے ہوتے ہیں اُن کی قیمتیں بھی بڑھ جاتی ہیں۔ایمن ریاض کے مطابق نیوز چینلز کے مقابلے میں انٹرٹینمنٹ چینلز اشتہارات کی مد میں زیادہ پیسے کماتے ہیں کیونکہ ’نیوز چینلز لوگ پسند نا پسند کی بُنیاد پر تبدیل کرتے رہتے ہیں لیکن انٹرٹینمنٹ چینلز لوگ دیکھتے رہتے ہیں۔ان کے مطابق زیادہ ریٹنگ والے انٹرٹیمنٹ چینلز پر ایک منٹ کا اشتہار چلانے کی مد میں تقریباً تین سے پانچ لاکھ روپے وصول کیے جاتے ہیں۔ایمن ریاض کہتے ہیں کہ ریٹنگز کا چینل کی معاشی حالت پر اثر اس لیے پڑتا ہے کیونکہ ہمارے پاس جانچ پڑتال کا نظام درست نہیں۔پورے پاکستانی میڈیا کے پاس 36 فیصد ریونیو حکومت کی طرف سے آتا ہے جبکہ 66 فیصد آمدن کے لیے وہ کمرشل اداروں کے اشتہارات پر انحصار کر رہے ہوتے ہیں۔ان کے مطابق پاکستان میں کیبل آپریٹرز بہت طاقتور ہیں جو مختلف علاقوں میں اپنا سسٹم لگا کر بیٹھے ہوئے ہیں اور ’وہ ملک میں ڈائریکٹ ٹو ہوم (ڈی ایچ ایس) ڈیوائسز کے خلاف ہیں جن کے ذریعے ریٹنگ کو مرتب کرنے کا نظام بہتر ہو سکتا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ جب ٹی وی چینلز کے پاس بہتر رنٹنگز کا نظام ہوگا تو وہ ایڈورٹائزرز کو بتا سکیں گے کہ ان کی کاروباری پروڈکٹ کو کتنے مزید لوگ دیکھ رہے ہیں اور اس کے نتیجے میں ٹی وی چینلز کی آمدنی بھی بڑھے گی۔ایسا نہ ہونے کی صورت میں ٹی وی چینلز کے اخراجات تو بڑھ رہے ہیں لیکن اشتہارات کی مد میں آنے والا پیسہ اُس رفتار سے نہیں بڑھ رہا۔
جب یہ سوال پیمرا کے سابق چیئرپرسن ابصار عالم سے پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ریٹنگ کسی بھی چینل کے بند ہونے کی وجہ نہیں بن سکتی ’کیونکہ ایسے بہت سے چینلز ہیں جن کی ریٹنگز بہت کم ہے اور وہ اب بھی چل رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ایسے تو آج ٹی وی بھی ہے جس کی بہت کم ریٹنگ رہی ہے لیکن وہ اب بھی نشر ہورہا ہے۔ابصار عالم نے کہا کہ پاکستان میں ریٹنگ کے بارے میں پتا لگانے کے لیے کوئی ’مستند طریقہ اور ادارہ موجود نہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’اس نظام کو مونوپولائز کر لیا گیا ہے۔ کارٹلائزیشن شروع ہو گئی ہے جس کے نتیجے میں چند ایک ٹی وی چینل جو پرانے ہیں ان کو ٹی وی ریٹنگ سسٹم کا زیادہ فائدہ پہنچتا ہے اور کچھ ریٹنگ فراہم کرنے والے اداروں کے ان ٹی وی چینل میں خفیہ شئیرز بھی ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی اچھی ریٹنگ کا فائدہ انھیں ملتا ہے۔انھوں نے کہا کہ ’اس کا اثر نئے چینلوں پر پڑتا ہے جو نئے، نئے مارکیٹ میں آئے ہیں کیونکہ وہ ریٹنگ کی دوڑ میں ہوتے ہی نہیں تو ان کو اپنی جگہ بنانے میں خاصا وقت لگتا ہے اور بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔‘
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا سے دہائیوں سے منسلک صحافی و تجزیہ کارحامد میر بھی کہتے ہیں کہ ریٹنگ کو کسی چینل کے بند ہونے کی وجہ نہیں بتایا جاسکتا۔چینل صرف ریٹنگ پر ہی نہیں بلکہ اشتہارات کے نتیجے میں بھی چلتے ہیں اور یہ اشتہارات سرکاری اور غیر سرکاری یا پرائیوٹ کمپنیوں کے بھی ہوسکتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ کسی چینل کی ریٹنگ کسی بڑے اینکر کو اپنے پروگرام کا حصہ بنانے سے بھی بڑھتی ہے۔انھوں نے کہا کہ کسی بھی چینل کے بند ہونے کے پیچھے ایک بڑی وجہ بُری منصوبہ بندی، بزنس پلان اور ملازموں کو مسلسل تنخواہ دینے سے جڑی ہے۔نیوز چینل کے پاس صرف 80 لاکھ ماہانہ پر ایک اینکر کو ملازمت پر رکھنے کی ذمہ داری نہیں بلکہ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ وہ یہ تنخواہ کب تک دینے کی سکت رکھتا ہے؟دوسری جانب کسی بھی چینل کا ریوینیو ڈیپارٹمنٹ اپنے ادارے کی مکمل کارکردگی اس کو ملنے والے اشتہارات اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اس کی مقبولیت سے اخذ کرتا ہے اور یہ تمام تر بات گھوم پھر کر چینل پر نشر ہونے والے پروگرام سے جُڑ جاتی ہے۔میڈیا لاجِک کے مطابق اس وقت پاکستان کے شہروں میں 97 فیصد خبریں کیبل کے ذریعے دیکھی جاتی ہیں۔
ابصار عالم نے کہا کہ ’ٹی وی ریٹنگ کے علاوہ کسی نیوز چینل کی مقبولیت اس بات سے بھی اخذ کی جاتی ہے کہ اس کے کون سے پروگرام ناظرین کے درمیان بحث کا حصہ ہیں؟ کہاں کہاں شیئر کیے جارہے ہیں؟ سوشل میڈیا پر اسے کتنا شیئر کیا جارہا ہے؟ تو اگر آپ کا پروگرام زیرِ بحث ہی نہیں تو اس کا اثر آپ کے چینل کی ریٹنگ پر پڑتا ہے۔
حامد میر نے کہا کہ ’کچھ لوگوں کا ریکارڈ چینل کھولنے اور بند کرنے کے حوالے سے بہت بُرا ہے اور زیادہ تر صحافی بغیر معلومات حاصل کیے اپنی ملازمت ختم کرکے وہاں چلے جاتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ ’چینل کھول لینا آسان ہوتا ہے کیونکہ اس وقت مختلف ذرائع یا بزنس کے ذریعے پیسے لگائے جاتے ہیں لیکن اس کے بعد اسے مسلسل بہتر کرنے کے لیے اس سے زیادہ پلاننگ لگتی ہے۔ جیسے کہ اشتہارات کہاں سے اور کتنے آئیں گے۔ابصار عالم نے کہا کہ ’ایک نیوز چینل کو لائسنس دینے سے پہلے کم از کم اس کے تین سال کے معاشی پلان کے بارے میں معلومات طلب کرنی چاہیے تا کہ پھر جب انھیں لائسنس ملے تو اس کی بنیاد پر صحافی اپنے لیے بہتر فیصلہ کرسکیں۔انھوں نے کہا کہ ’منصوبہ بندی اس بات کے گِرد ہونی چاہیے کہ چینل کا نیوز ایجنڈا کیا ہے؟ جن لوگوں کو ملازمت پر رکھا گیا ہے ان کو تنخواہ دینے کی سکت ہے یا نہیں؟ اگر کسی وجہ سے چینل بند کرنا پڑے تو آگے کا عمل کیا ہوگا؟ اگر کسی بھی چینل کا مالک ان سوالات کے جواب دے پائے تو پھر ہی انھیں چینل کھولنے کا لائسنس دیا جانا چاہیے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)۔۔