خصوصی رپورٹ۔۔
ابلاغ عامہ معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ ڈرامے پر قدغن لگانا، معاشرے کے تلخ حقائق سے دانستہ چشم پوشی اور آزادی اظہار پر پابندی کے مترادف ہے۔معاشرے کے تلخ حقائق اور حساس موضوعات جیسے انسانی اسمگلنگ، طوائف، قحبہ خانے، بچوں کے ساتھ زیادتی پر بنائے جانے والی ٹی وی ون کی مشہور ڈرامہ سیریل دل نا امید تو نہیں، جسے پاکستان ٹیلی ویزن پر بھی ساتھ ساتھ نشر کیا جارہا ہے کو ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر اظہار وجوہ کا نوٹس جاری کرنا آزادی اظہار پر قدغن کے مترادف ہے۔مذکورہ ادارے کی جانب سے ٹی وی ون کو ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ ڈرامہ نشر کرنے سے قبل یا تو باقاعدہ سنسر کیا جائے یا اس پر بچوں کے لئے ممنوع کی ہدایات واضح طور پر دکھائی جائے۔ یہ ڈرامہ کشف فائونڈیشن کے اشتراک سے پیش کیا جارہا ہے جو کہ ایک فلاحی تنظیم ہے جو غربت کے خاتمے، خواتین کے حقوق اور معاشرتی مسائل کے حل کےلئے کام کررہی ہے۔
اس ڈرامے میں ورکنگ خواتین کو درپیش مسائل اور معاشرے کے امیر طبقے کی جانب سے رواں رکھی جانے والی تلخ حقائق کو دکھایا جارہا ہے۔ ڈرامے کی مرکزی ہیروئن سنبل کا کردار معروف اداکارہ یمنی زیدی بطور ایک طوائف نبھا رہی ہیں جس کہانی میں ایک طوائف کال گرل کو درپیش مسائل اور سختیوں کو بتدریج دکھایا جارہا ہے۔ ڈرامے میں طوائف کو پیشے کے دوران معاشرے نامور اور باااثر گاہکوں کے ظلم کے خلاف جدوجہد کرتے دکھایا جارہا ہے۔ڈرامے کی کہانی دوسری طرف دو بچوں جمشید اور اللہ رکھی کے گرد گھومتی ہے جس میں ایک معصوم بچہ استاد کے ظلم اور غریب کے ہاتھوں تنگ آکر گھر سے فرار ہوکر شہر میں بردہ فروشوں کے ہتھے چڑھ گیا۔ جبکہ ایک لڑکی ناقابل ادائیگی سودی قرض کے وبال میں جکڑی ہوئی ہے۔ ڈرامے کی کہانی یہ سچائی بھی واضح کرتا ہے کہ غربت کے ہاتھوں تنگ افراد کس طرح جرائم کی دنیا کے باسی بن جاتے ہیں۔کرکٹ کھیلنے کی شوقین ایک نوجوان بچی کو صرف اس وجہ سے اسکول چھوڑنا پڑا کہ محلہ کا ایک نام نہاد مولوی علاقے میں مخلوط تعلیم اور کھیل کی سرگرمیوں خلاف تھا۔ جبکہ اسکول کی پرنسپل اس کی حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ وہ کس طرح اپنی لگن سے قومی سطح پر نام پیدا کرسکتی ہے۔ ڈرامے کے یہ تینوں کردارمعاشرے کے تلخ حقائق کو اجاگر کرتے ہیں جس میں کوئی نئی بات نہیں۔
معاشرتی مسائل، بردہ فروشی، جبری مشقت، سودی قرضے ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں اس ڈرامے میں انہی مسائل پر بات کی گئی ہے۔ بچے غربت اور ماحول سے فرار ہوکر کس طرح غلط ہاتھوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ خواتین کا مستقبل نام نہاد مولویوں کے ہاتھ کس طرح برباد ہوتا ہے۔
ابلاغ عامہ معاشرے کا آئینہ ہوتا ہے۔ ادارے کی جانب سے ان مسائل پر بات کرنے پر قدغن لگانا، معاشرے کے تلخ حقائق سے دانستہ چشم پوشی اور آزادی اظہار پر پابندی کے مترادف ہے۔
حقوق نسواں اور بچوں کے حقوق کے بارے میں بات کرنے روکنا ناقابل فہم ہے اور اسے بچوں اور خواتین کے لئے ناقابل نشر سمجھنا، معاشرے کے حقائق سے دانستہ نظر اندازی ہے۔ اس طرح کے ڈرامے جو معاشرے کے تاریک پہلوئوں کو اجاگر اور سچائی بیان کرتے ہیں یہ نہ صرف تفریح پر مبنی ہوتے ہیں بلکہ یہ ایک صحت مند معاشرے کی تعمیر اور بامقصد کردار ادا کرتے ہیں۔اگر ہم معاشرے کی برائیوں کو اجاگر کرنے کے بجائے ان سے چشم پوشی کرتے ہیں کبھی بھی اس قابل نہیں ہوں گے کہ ان مسائل کے خاتمے کے لئے کوئی بامقصد منصوبہ بنا سکیں۔ معاشرے کی برائیوں کواجاگر کرتے ڈرامے قانون سازوں اور متعلقہ اداروں کو بھی معاشرے ابلاغی و نشریاتی کے پسے ہوئے طبقات کے لئے مستند قانون سازی میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
یہ عالمی سطح پر اداروں کا طے شدہ اصول ہے کہ تفریحی پروگراموں کے ساتھ ساتھ معاشرے کے تلخ پوشیدہ حقائق کو اجاگر کیا جائے کیونکہ خبری و نشریاتی ادارے اپنے حالات حاضرہ اور نیوز نشریات میں اس سنگینی کو نشر نہیں کرسکتے جو ایک تفریحی ڈرامے کے ذریعے کیا جاسکتا ہے۔مزید برآں معاشرے کی ان سچائیوں کے خلاف معاشرے میں ڈرامائی کرداروں اور معروف شہرہ آفاق اداکاروں کے ذریعے رائے عامہ ہموار کیا جاسکتا ہے۔ پاکستانی نشریاتی و ابلاغی تاریخ میں ڈراموں پر پابندی ایک عمومی بات ہے جیسے کہ ۔میرے پاس تم ہو۔ اور اڈاری ڈرامے بھی ایسی پابندیوں کا شکار رہے حالانکہ ان ڈراموں نے معاشرتی مسائل کو اجاگر کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا، مگر ضابطے کے نام پر ان ڈراموں پر پابندی بھی ایک سوالیہ نشان ہے؟
ٹی وی ون اور پاکستان ٹیلی ویزن پر نشر کیے جانے والے ڈرامے دل نہ امید تو نہیں کی روز بروز بڑھتی ہوئی عالمی مقبولیت اور ناظرین کی پسندیدگی اس بات کی غماز ہے کہ ناظرین کو اس طرح کے ڈراموں سے محروم نہ رکھا جائے جو معاشرتی مسائل اجاگر کرتے ہیں ۔ اور سنبل اور جمشید جیسے کردار جو معاشرے میں اپنے حقوق کی جدوجہد میں مصروف ہیں، ہم سے متقاضی ہیں کہ ان مسائل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہر شخص اپنا کردار کرے تاکہ معاشرے کی ان برائیوں کی روک تھام کی جا سکے۔(خصوصی رپورٹ)۔۔
Hashtags:
#TvOnePK #DilNaUmeedTouNahi #Pemra #YumnaZaidi #BondedLabor #AbusiveContent #Taboos #Immorality #Prostitution #ChildAbuse #HumanTrafficking #debtcycles #poverty #womenrights #Pseudo-islamic-scholar #YasraRizvi
