تحریر: یاسر پیرزادہ۔۔
مجھے آج کل ’ناسٹلجیا‘ کادورہ پڑا ہوا ہے ، اپنے لڑکپن کی باتیں یاد آرہی ہیں ،اسکول، کالج اور پی ٹی وی کے ڈرامے ذہن میں آرہے ہیں ۔جب بھی وقت ملتا ہے میں یو ٹیوب پر کوئی نہ کوئی پرانا ڈرامہ نکال کر دیکھنا شروع کردیتاہوں ، یہ یوٹیوب بھی کیا چیز ہے ، آپ کی انگلی کے اشارے پر چلتا ہےبلکہ اگر آپ اشارہ نہ بھی کریں تو یہ از خود نوٹس لے کر آپ کے مزاج کے مطابق چیزیں دکھانا شروع کردیتا ہے ۔ اِس یو ٹیوب نے میرے موڈ کا بھی اندازہ کر لیا ہے اِس لیے دھڑا دھڑ پی ٹی وی کے ڈرامے دکھا رہا ہے ۔اب تک میں ’اندھیرا اجالا ‘کی کئی قسطیں دوبارہ دیکھ چکا ہوں۔کیا شاندار ڈرامہ تھا، یونس جاوید اِس کے لکھاری تھے اور راشد ڈار ہدایتکار۔ ہر قسط میں یونس جاوید ایک نئی کہانی لکھتے تھے ، اُس میں نئے کردار ہوتے ، نئی سیچویشن ہوتی ،وہ کہانی کسی نہ کسی جُرم کے گرد گھومتی اور پھر پولیس اُس جُرم کی تفتیش کرکے مجرم کو کیفر کردار تک پہنچاتی ۔میں آج جب یہ ڈرامہ دیکھتا ہوں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں کیسے کیسے شاندار اداکار ہوا کرتے تھے ،ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا، خیام سرحدی، عابد علی ، فردوس جمال ، قوی خان، عرفان کھوسٹ ، جمیل فخری، محبوب عالم، اورنگزیب لغاری ، خورشید شاہد، فخری احمد، سلمان احمد، وسیم عباس، ثمینہ احمد،خالدہ ریاست، ثروت عتیق،منور سعید،شجاعت ہاشمی،سہیل احمد،عظمی ٰ گیلانی ، روحی بانو، علی اعجاز، عارفہ صدیقی، محمود اسلم، اشرف خان، توقیر ناصر۔۔۔کہاں تک گنواؤں۔یہ سب تو اے کلاس ایکٹر تھے، بی کلاس ایکٹر بھی کچھ کم نہیں تھے ، جیسے کہ ایم شریف، سی ایم منیر، ایوب خان، عابد بٹ، پرویز رضا،طلعت صدیقی، محسن رضوی،منیر نادر،خالد معین، نگہت بٹ،نذیر حسینی،جیون سلطان، عصمت طاہرہ…اِن اداکاروں کو بی کلاس میں رکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ یہ اے کلاس والوں سے کمتر تھے، انہیں فقط وہ اسٹارڈم نہیں ملا جو اے کلاس اداکاروں کو ملاتھا۔ اِن میں سے کچھ لوگ تو فوت ہوچکے ہیں ،کچھ حیات ہیں اور اب بھی اداکاری کے جوہر دکھا رہے ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو گمنامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں حالانکہ اپنے زمانے میں یہ جہاں سے گزرتے تھے لوگ اِن کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے جمع ہوجاتے تھے ۔یونس جاوید صاحب بھی اللہ کے فضل سے حیات ہیں مگر اُن کی بینائی کافی کمزور ہوچکی ہے، آج کل اپنی آنکھوں کا علاج کروا رہے ہیں ، میری اُن سے بات ہوئی تھی، کافی تکلیف میں تھے ، خدا انہیں صحت دے۔جس اعلیٰ پائے کے کھیل یونس جاوید نے لکھے اُس پائے کا ڈرامہ تخلیق کرنے کے لیے مغرب میں لکھاریوں کی پوری ٹیم سر جوڑ کر بیٹھتی ہے لیکن اپنے ہاں یہ کام اکیلے یونس جاوید نے کیا۔
اسّی اور نوّے کی دہائی میں پی ٹی وی کے شاندار ڈراموں کی ایک طویل فہرست ہے، اِن سب ڈراموں کے نام یہاں لکھنا ممکن نہیں ،اِن سب ڈراموں کے نام ہمیں زبانی یاد ہیں ،البتہ ایک ڈرامے کا ذکر ضروری ہے جسے اتنی شہرت نہ مل سکی جس کا وہ حقدار تھا، ڈرامے کا نام تھا ’ریزہ ریزہ‘ ،اِس ڈرامے میں ’قادر باؤ‘ کا کردار وسیم عباس نے ادا کیا تھا، میری رائے میں ولن کے کردار میں اِس سے اچھی اداکاری ممکن نہیں تھی جتنی وسیم عباس نے کی۔ہمارےڈرامے بھارتی دور درشن پر بھی بہت شوق سے دیکھے جاتے تھے اور اُس کی تین وجوہات تھیں۔ ایک تو ظاہر ہےکہ اِن ڈراموں کا معیاربہت اعلیٰ تھا، کہانی ، پروڈکشن اور اداکاری ، سب کچھ ہی لا جواب تھا۔دوسری وجہ یہ تھی کہ پاکستان اور بھارت کے مسائل ایک جیسے تھے اِس لیے وہاں کے ناظرین کو یہ ڈرامے دیکھتے ہوئے اجنبیت محسوس نہیں ہوتی تھی اور تیسری وجہ یہ تھی کہ ہمارے ڈرامے بالکل پاک صاف ہواکرتے تھے، اِن ڈراموں میں ہیروئین بھی سر پر دوپٹہ اوڑھ کر رکھتی تھی لہٰذا ہر بندہ اپنے گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کربے فکری سے یہ ڈرامے دیکھ سکتا تھا۔یہ عجیب بات ہے کہ آج کل ہمارے ڈراموں میں پیسہ بھی زیادہ لگایا جاتا ہے ، کہانیاں بھی قدرے بولڈ ہیں ، لکھاری بھی ایک قسط کے لاکھوں روپے لیتے ہیںمگر اِن ڈراموں کی اتنی پذیرائی ہمسایہ ممالک میں نہیں جتنی پہلے ہواکرتی تھی۔ میں یہ قطعاً نہیں کہہ رہا کہ آج کل کے ڈرامے کم درجے کے ہیں لیکن میں یہ ضرور کہہ رہا ہوں کہ اُس زمانے کے ڈرامے اور اداکار بہرحال آج کے مقابلے میں زیادہ بہتر تھے ۔ہم جب یہ کہتے ہیں کہ ’اُس زمانے کا‘ اسکول ایسا تھا یا ’اُس زمانے ‘کے اداکار ایسے تھے تولامحالہ ہم ناسٹلجیا کی رعایت لے کر یہ بات کر رہے ہوتے ہیں مگرناسٹلجیا کی رعایت لینے کے باوجود میں سمجھتاہوںکہ اسّی اور نوّے کی دہائی میں تخلیق کیے گئے پی ٹی وی کے ڈراموں کا پورے ہند سندھ میں کوئی مقابلہ نہیں تھا۔ عجیب بات یہ ہے کہ اُس وقت پی ٹی وی کےعلاوہ کوئی دوسرا چینل بھی نہیں تھا اوریوں ایک طرح سے پی ٹی وی کی اجارہ داری تھی۔ مینجمنٹ کی تھیوری ہمیں سکھاتی ہے کہ انسان مقابلے کی فضا میں زیادہ بہتر طریقے سے کام کرتا ہے اور اُس کی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آتی ہیں جبکہ یہاں معاملہ بالکل اُلٹ تھا ،پی ٹی وی کچھ بھی بنا کر دکھادیتا تو لوگوں نے دیکھ ہی لینا تھا کیونکہ اُن کے پاس کوئی اور چوائس ہی نہیں تھی مگر اِس کے باوجود اُس دور میں جس اعلیٰ پائے کے ڈرامےتخلیق ہوئے، بعد میں اُس کا عشر عشیر بھی نہ بن سکا۔
بات ناسٹلجیا سے شروع ہوئی تھی اور پی ٹی وی کے ڈراموں کی طرف نکل گئی ۔ہمیں اپنے زمانے کے اداکار، ڈرامےیافلمیں اِس لیے زیادہ متاثر کرتے ہیں کیونکہ وہ ہماری جوانی کے دور سے متعلق ہوتے ہیں اور لڑکپن اور جوانی سے جُڑی یادیں چونکہ سنہری ہوتی ہیںاِس لیے ہم اُن کے سحر میں کھوجاتے ہیں ۔اپنے زمانے کے ڈرامے دیکھتے وقت ہم لا شعوری طور پر ماضی میں واپس چلے جاتے ہیں اور ہمیں وہ گلیاں ، سڑکیں اور محلےیاد آجاتے ہیں جہاں سے ہم بھی گزرا کرتے تھے ، اب نہ وہ گلیاں نظر آتی ہیں اور نہ سڑکیں، اب اُن کی جگہ بے ہنگم ٹریفک ہے ، بے تکے انداز میں تعمیر کی گئی عمارتیں ہیں ،شور ہے اوردھواں ہے۔جب ہماری جوانی اور لڑکپن ہی دھواں ہوگیا تو ہم کیسے آج کل کے ڈراموں میں وہ تخلیقی ہُنر تلاش کریں جو ہمیں اپنے زمانےکے ڈراموں میں ملتا تھا،یہ ہے اصل بات ، باقی فقط تاویلیں ہیں۔۔(بشکریہ جنگ)