تحریر: انصار عباسی۔۔
آج کل ٹی وی پر ایک اشتہار چل رہا ہے جس میں ایک دادی اماں اپنے بیٹے اور بہو سے اپنی پوتی کی موجودگی میں کہتی ہے کہ بیٹی (پوتی)جیسے ہی اپنی گریجویشن مکمل کر لے اُس کا اچھا سا رشتہ ڈھونڈ کر اُس کی شادی کردیں۔ اس پر پوتی ناراض ہو کر وہاں سے چلی جاتی ہے جس پر دادی حیران ہو کر کہتی ہے کہ اسے کیا ہوا؟ بیٹا جواب میں کہتا ہے کہ دراصل بیٹی ابھی ماسٹرز کرنا چاہتی ہے جس پر دادی پوتی کے کمرہ میں جا کر اُسے راضی کرتے ہوے کچھ ایسا کہتی ہے کہ جب تم ماسٹرز کر لو گی تو پھر دھوم دھام سے تمہاری گریجویشن کی خوشی منائیں گے۔ یعنی شادی کا کوئی ذکر نہیں بلکہ اگر شادی کا ذکر ہے تو اُسے اعلیٰ تعلیم اورکیرئر کے لئے رکاوٹ بنا کر پیش کیا جانے لگا ہے۔ اس اشتہار کا ذکر میں نے اس لیے کیا کہ حال ہی میں مجھے کسی جاننے والے نے بتایا کہ ایک خاتون نے اپنی بیٹی کے رشتے کے لیے کسی جاننے والے کو کہا لیکن جب اُس بیٹی کو پتا چلا تو غصہ میں آپے سے باہر ہو گئی اور ماں کو کہا کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرچکی اور اب کوئی نوکری کرنا چاہتی ہے، اس لیے رشتے یا شادی کی بات بھی اُس کے سامنے نہ کی جائے۔ یہ سوچ بچی کے ذہن میں کیسے آئی؟اب تو ایسے بھی والدین ہیں جو بیٹی کی شادی یا رشتہ کے لیے پہلے یہ شرط لاگو کرتے ہیں کہ اُن کی بیٹی پروفیشنل ہے یا ورکنگ لیڈی ہے شادی کے بعد چاہے شوہر جتنا مرضی پیسہ کماتا ہو بیٹی نوکری نہیں چھوڑے گی۔ ایسے حالات میں جب بچیوں کی عمر بڑھ جاتی ہے تو پھر رشتے ملنا ممکن نہیں رہتا لیکن وقت گزرنے کے بعد پچھتانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ بیٹیوں کو بہتر تعلیم دیں، ضرورت یا شوق کے لیے بھی اگر حالات اجازت دیتے ہیں اور ماحول بہتر ہو تو وہ نوکری بھی ضرور کریں، بعض شعبوں کے لیے تو خواتین کا کام کرنا لازم بھی ہے لیکن خدارا بیٹیوں کو آج کے اُس فتنہ سے دور رکھیں جو اُنہیں مرد سے برابری، پروفیشلزم اور ورکنگ وومن بننے کے جنون میں ایسا مبتلا کرتا ہے کہ وہ شادی سے تو انکاری ہوتی ہیں یا شادی کو اپنی زندگی اور کیریئر کے لیے رکاوٹ سمجھتی ہیں لیکن نامحرم مردوں سے دوستی اور تعلق رکھنے کو عیب نہیں سمجھا جاتا۔ خاموشی سے، آہستہ آہستہ میڈیا کے ذریعے جو ذہن سازی کی جارہی ہے وہ ہمارے خاندانی نظام اور دینی و معاشرتی روایات کے لیے توتباہ کن ہے ہی لیکن یہ سوچ شادی، ماں اور ممتا جیسے اہم ترین رشتوں پر شدید حملہ ہے۔ جو خواتین ضرورت کے تحت کام کرتی ہیں اُن سے پوچھیں کہ نوکری کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش اور دیکھ بھال کتنا بڑا چیلنج ہے۔ اسی لیے بہت سی خواتین، اگر اُن کے معاشی حالات اجازت دیں تو بچوں اور فیملی کے لیے نوکری چھوڑ دیتی ہیں۔ لیکن عورتوں کو برابری اور پروفیشنلزم کے جنون میں مبتلا کرنے والے نوکری پیشہ خواتین کو سبق پڑھاتے ہیں کہ اپنے شوہر سے بولو کہ نوکری چھوڑو اور گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرو، وہ (خاتون) کیوں قربانی دے؟ ماں کا کوئی نعم البدل نہیں، ممتا ایسا رشتہ اور ایسا جذبہ ہے جو ہر بچہ کا حق ہے جو صرف ماں ہی دے سکتی ہے۔ اگرچہ شوہر کی ذمہ داری ہے کہ وہ کمائے اور گھر چلائے، بیوی بچوں کی ضرورت کو پورا کرے لیکن اگر برابری والوں کی بات کو تسلیم کیا گیا اور خواتین میں ملازمت کے جنون کو پروان چڑھایا جاتا رہا تو بچوں کو یا تو گھر کے ملازموں کے سپرد کیا جائے گا یا شوہر قربانی دے گا اور بچوں اور گھر کی دیکھ بھال کرے گا۔ ملازموں یا میڈز کے حوالے بچوں کو کرنا اس کی تو بات ہی اور ہے اور اس سے جڑے مسائل ہیں ہی بہت سنگین لیکن کوئی کتنا ہی اچھا باپ کیوں نہ ہو وہ بچوں کی ماں جیسی تربیت اور دیکھ بھال کرہی نہیں سکتا؟ اپنی بیٹیوں کو مغرب کی اندھی تقلید میں برابری اور پروفیشنلزم کے جنون میں اتنا مبتلا مت کریں کہ شادی کو چڑ سمجھا جائے اور ممتا تک کو ہی بچوں سے چھین لیا جائے۔ ذرا مغرب میں پروفیشنل خواتین کے مسائل بھی جاننے کی کوشش کر لیں، یہ بھی دیکھ لیں کہ جن کے بچے ہیں اُن کی دیکھ بھال میں کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس جنون نے دراصل سب سے بڑا ظلم ہی عورت پر کیا، جس کی زندگی بہت مشکل ہو گئی، جس نے نوکری کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں گھر کو بھی دیکھنا ہے، بچوں کو بھی اور اس کے ساتھ ساتھ اُس استحصال کا بھی سامنا کرنا ہے جو گھر سے باہر نکلنے والی ہر عورت کو بدقسمتی سے کرنا پڑتا ہے۔ ہماری دینی و معاشرتی روایات اور خاندانی نظام مغرب کے برعکس بہت بڑی Strength ہے۔ اپنی ان روایات کو Protect کریں اور مغرب کی اُس اندھی تقلید، برابری اور پروفیشلنزم کے جنون میں اپنی بیٹیوں کو مت مبتلا ہونے دیں جس کا سب سے بڑا نقصان اُنہی کو ہو گا۔(بشکریہ جنگ)