(خصوصی رپورٹ)
یونہی چینل گھماتے جیو کے ایک ڈرامے پر نظر پڑی تو چھوٹی بہن اپنی بڑی بہن کو “دی” کہہ کر بلا رہی تھی
اے آر وائی کے ایک ڈرامے میں اپنے وطن سے باہر جیسے ہی شوہر اپنی بیوی کو دھکا دیتا ھے تو ہزاروں میل دور اس کے میکے میں دیوار کے ساتھ ٹنگی اس کی تصویر گر پڑتی ھے اور فریم کا شیشہ ٹوٹ جاتا ھے ۔۔۔ سیم انڈین فلموں و ڈراموں کی طرح۔
ہم ٹی وی کے ایک ڈرامے میں لڑکی اپنی یونیورسٹی فیلوز سے کہتی ھے “میرے ابا کہتے ھیں عورت کا پردہ اس کے لباس میں نہیں ھے بلکہ عورت کا پردہ اس کی نیت میں ھے اس کی ادا میں ھے”
جواباً ایک لڑکی کہتی ھے ” تم تو اپنی چادر یونیورسٹی کے گیٹ پر ہی اتار دیتی ھو “
جس کے جواب میں لڑکی ٹھنڈی آہ بھر کر کہتی ھے ” کیا کروں یار میری اماں اور میرے بھائی کو مجھ سے زیادہ بھروسہ میری چادر پر ھے “
پہلے دونوں ڈراموں میں ہندوانہ رسم و رواج کو پروان چڑھایا جا رہا ھے ۔۔۔ لیکن تیسرے ڈرامے میں تو سراسر قرآن کی حکم عدولی کی جا رہی ھے
قرآن اور حدیث میں واضح طور پر پردے کا حکم ھے، قرآن میں تو عورت کو زمین پر زور سے پاؤں مار کر چلنے سے بھی منع کیا گیا ھے کجا یہ کہ وہ بے پردہ گھومے
ازواج مطہرات سمیت تمام صحابیات کی زندگیاں ہمارے سامنے ھیں، ہزاروں صحابیات میں سے کوئی ایک بھی ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے پردہ نا کیا ھو اور ہمارا میڈیا و دیسی لبرلز یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پردہ تو آنکھوں میں ھوتا ھے، پردہ نیت میں ھوتا ھے تو کیا آپ لوگوں کی نیت و ایمان صحابیات سے بھی اعلی درجے کے ھیں؟؟؟
جب سے ہمارا میڈیا بےلگام ھوا ھے معاشرے میں بےحیائی خطرناک حد تک بڑھ چکی ھے، طلاق کی شرح میں بےپناہ اضافہ ھو چکا اور اس تمام کا زیادہ تر ذمہ دار میڈیا ھے
مارننگ شو کرنے والی کئ بار کی طلاق یافتہ اینکرز خود ہی اپنی کہانی اپنی زبانی سنا کر ہماری خواتین کی نظروں میں مظلوم بن چکی ھوتی ھیں
میرے ایک دوست کے بقول جب نوربخاری نے اپنی تیسری طلاق کے بعد ٹی وی پر آ کر روتے ھوئے اپنی “مظلومیت” بیان کی تو شام کو میری 19 سالہ بیٹی کہتی ” ابو کچھ مرد کتنے ظالم ھوتے ھیں نا جیسے نور آپی کا سابقہ شوہر “
ایک فیملی دعوت میں گھر کی خاتون پوری دعوت کے دوران ایک ڈرامہ ہیروئن کا دکھ سناتی رہیں جس نے حال ہی میں خلع لی تھی۔
سیکنڑوں کم سن لڑکیوں نے ان ٹی وی اینکرز و ہیروئنز کو اپنا آئیڈیل بنایا ھوتا ھے ان کی باتیں، عادات اور لائف سٹائل اپنانے کی پوری کوشش کرتی ھیں اور یہیں سے ان کی ذہن سازی و تباہی کا آغاز ھوتا ھے
ٹی وی اب ہر گھر کی ضرورت بن چکا ھے، اس سے چاہ کر بھی چھٹکارا پانا ممکن نہیں لیکن اسلام مخالف یلغار کا مقابلہ ضرور کیا جا سکتا ھے
اپنی بچیوں پر کڑی نظر رکھیں اور انہیں اسلام کی تعلیم لازمی دلوائیں انہی بتائیں کہ ہماری اولین ترجیح اسلام ہی ھے اور ہمیں اسی کے مطابق زندگی گزارنی ھے۔
اللہ کریم ہمیں ہر قسم کے فتنے سے بچائے ۔۔(خصوصی رپورٹ)
یہ تحریر کسی جاننے والے نے واٹس ایپ کی لیکن لکھنے والے کا نام درج نہیں جس کے لئے معذرت خواہ ہیں