اسلام آباد ہائیکورٹ میں آڈیو لیکس کیس کی سماعت کے دوران عدالتی معاونت کے لیے پی ایف یو جے کی جانب سے سیکریٹری آر آئی یو جے آصف بشیر چوہدری عدالت میں پیش ہوئے۔۔ جسٹس بابرستار نے استفسار کیا کہ۔۔پی ایف یو جے کی آڈیو لیکس کے معاملے پر کیا رائے ہے اور اس کو کیسے روکا جا سکتا ہے؟ عدالتی معاون آصف بشیر چودھری نے بتایا کہ۔۔پی ایف یو جے کا ضابطہ اخلاق بہت واضع ہے،ضابطہ اخلاق کی شق 11 کے مطابق صحافی کوئی ایسی خبر یا مواد نشر نہیں کر سکتا جس کے ذرائع مبہم ہوں یا تصدیق نہ ہو سکے،ایسی آڈیو یا وڈیو جو مفاد عامہ کے بجائے شخصی نجی پرائیویسی پر مبنی مواد کو سامنے لانا بھی درست نہیں ہے۔پی ایف یو جے کو پاکستان میں بار بار نجی آڈیو لیکس کے ذریعے شخصی آزادیوں کی خلاف ورزی پر تشویش ہے،ماضی قریب میں متعدد آڈیوز اور وڈیوز چند مخصوص ولاگرز کے ذریعے ہی سامنے آئیں۔ٹی وی چینلز کو بھی مخصوص کارنر سے ایسی آڈیوز فراہم کی جاتی رہیں۔جن ٹی وی چینلز کے ایڈیٹوریل بورڈ نہیں ہیں ان کے ایڈیٹوریل بورڈز قائم کروائے جائیں۔ٹی وی چینلز کو پابند کیا جائے کہ وہ نامعلوم ذرائع سے آنے والی نجی گفتگو کو نشر کرنے سے پہلے تعین کریں کہ کیا اس کا نشر کرنا مفاد عامہ کے لیے ضروری ہے۔کسی کی زاتی گفتگو چینلز پر نشر ہونے پر پیمرا کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے۔ عدالتی معاون اور سیکرٹری آر آئی یوجے آصف بشیر چودھری کا کہنا تھا کہ۔۔پاکستان کے چیف ایگزیکٹو سے لیکر اعلی عدلیہ کے ججز اور اہل خانہ تک کی آڈیوز لیک ہو رہی ہیں۔امید ہے عدالت اس معاملے پر تفصیلی سماعت کے بعد پالیسی گائیڈ لائنز طے کرے گی۔ دوران سماعت عدالتی معاون ، سینئر صحافی اور تجزیہ کار مظہرعباس کا تحریری جواب بھی عدالت میں پیش کردیاگیا۔۔سماعت میں پی ٹی اے اپنے سابقہ موقف سے مکر گیا جس کے تحت کسی قسم کی ٹیچنگ سے لاعلمی کا اظہار کیا گیا تھا۔عدالت نے چیئرمین پی ٹی اے سے معاملے پر بیان حلفی طلب کر لیا۔عدالت میں ڈی جی ایف آئی اے، نجی موبائل کمپنیوں اور پی بی اے کے نمائندے بھی موجود تھے۔عدالت نے کیس کی سماعت آئندہ ہفتے تک ملتوی کر دی۔۔