crime free city 2

ترکی اور پاکستان۔۔

تحریر: جاوید چودھری۔۔

استنبول صبح دس بجے کھلے گا اور رات آٹھ بجے بند ہو جائے گا اگر صورت حال کنٹرول نہ ہوئی تو مکمل لاک ڈاؤن ہو جائے گا‘ ظفر کا کہنا تھا ہمیں لنچ کے فوراً بعد استنبول کے لیے روانہ ہونا ہوگا‘ ہم اگر لیٹ ہو گئے تو ہوٹل تک نہیں پہنچ سکیں گے۔ظفر کی آواز میں اضطراب تھا لیکن ہمارے گروپ نے اطمینان سے یہ بری خبر سنی‘ سر ہلایا اور گردن نیچی کر کے کبابوں پر دوبارہ حملہ کر دیا‘ گائیڈ مزید پریشان ہو گیا اور اس نے میرے کان میں سرگوشی کی ’’آپ لوگ کورونا کو سیریس کیوں نہیں لے رہے۔

استنبول میں روزانہ ڈیڑھ دو سو لوگ مر رہے ہیں‘ ہم لوگوں نے آٹھ ماہ سے ماسک نہیں اتارے مگر آپ لوگ کورونا کو مکھی کی طرح اڑا دیتے ہیں‘‘ میں نے ہنس کر جواب دیا ’’ہم بہادر لوگ ہیں‘‘ اس نے سنجیدگی سے میری طرف دیکھا اور کھوئے کھوئے لہجے میں کہا ’’ ٹو مچ‘‘۔ظفر کی پریشانی بجا تھی‘ ہمارا گروپ 18 نومبر کو ترکی پہنچا‘ ہم استنبول سے بورسا گئے‘ بورسا سے ارطغرل کے شہر صغوط‘ پھر بورسا اور پھر استنبول ہمیں پورے علاقے میں ماسک کے بغیر کوئی شخص نظر نہیں آیا‘ لوگ لوگوں سے فاصلے پر بھی رہتے تھے‘ کوئی کسی کا ہاتھ نہیں پکڑتا تھا‘ کوئی کسی سے بغل گیر ہو رہا تھا اور نہ ہاتھ ملا رہا تھا‘ لوگ دور سے دوسروں کو سلام کرتے تھے۔جھک کر فاصلے سے گفتگو کرتے تھے اور دکانوں‘ میٹروز اور سڑکوں پر بھی چھ چھ فٹ کا فاصلہ رکھ رہے تھے صرف ہم لاپرواہ لوگ تھے جو فٹافٹ ماسک اتار دیتے تھے یا پھر اسے کھسکا کر ٹھوڑی پر لٹکا دیتے تھے‘ ہم میں سے جوں ہی کوئی شخص یہ حرکت کرتا تھا لوگ تیزی سے ہماری طرف آتے تھے اور ماسک ماسک کا نعرہ لگانے لگتے تھے اور ظفر فوراً ’’چاچا ماسک‘‘ کا نعرہ لگا دیتا تھا‘ ہر دکان‘ ہر کاؤنٹر‘ ہر باتھ روم‘ بس اور ہر میٹرو اسٹیشن پر بھی سینی ٹائزر کی بوتل رکھی تھیں‘ ترکی میں بوتل کو ہاتھ نہیں لگایا جاتا‘ بوتلوں میں سینسر لگے ہوتے ہیں۔آپ ہاتھ نیچے رکھتے ہیں‘ چیں کی آواز آتی ہے اور ہاتھ پر پچکاری آ گرتی ہے‘ دکانوں اور کوریڈورز میں اسٹینڈز پر بوتلیں لگا دی جاتی ہیں‘ پاؤں کے پاس ان کا لیور ہوتا ہے‘ آپ پاؤں سے لیور کو ذرا سا دباتے ہیں اور ہاتھ پر پچکاری آ جاتی ہے‘ ہم نے چھ دن میں دیکھا ترک گھروں میں بھی ماسک کے بغیر نہیں تھے اور یہ کوئی چیز پکڑتے یا دیتے وقت سینی ٹائزر ضرور لگاتے تھے‘ ہفتے کی شام آٹھ بجے لاک ڈاؤن شروع ہو گیا۔

آپ یقین کریں پورا استنبول آٹھ بجتے ہی خالی ہو گیا‘ گلیوں اور سڑکوں پر پولیس اور کتوں کے علاوہ کوئی نہیں تھا‘ تمام ریستوران‘ دکانیں‘ بسیں‘ ریل اور فیریز بند تھیں‘ ٹیکسیاں بھی غائب ہو گئی تھیں اور صبح دس بجے تک دنیا کے متحرک اور مصروف ترین شہر میں ہوکا عالم تھا‘ ہوٹل کی کھڑکی سے باہر دیکھتے تھے تو بارش کے علاوہ کوئی چیز دکھائی نہیں دیتی تھی‘ دس بجے کے بعد بھی ٹریفک اور بازاروں میں سلیقہ تھا‘ کسی جگہ رش یا ہڑبونگ نہیں تھی۔ہم اتوار کی صبح گیارہ بجے حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے مزار پر حاضر ہوئے‘ مزار تک پہنچنے کے دو راستے ہیں‘ آپ گلیوں کے ذریعے سیدھے سلطان ایوب آ جائیں یا گولڈن ہارن سے چیئر لفٹ کے ذریعے پہاڑ پر پہنچ جائیں‘ پورے استنبول کا نظارہ کریں اور پھر قدیم سنگی گلیوں کے اندر سے ہوتے ہوئے مزار تک آ جائیں‘آپ کو راستے میں دائیں بائیں اور اوپر نیچے طویل قبرستان نظر آئیں گے اور ان قبرستانوں میں چھ سو سال سے مشاہیر‘ امراء‘ دانشور‘ شاعر اور شاہی خاندانوں کے مرکزی ستون دفن ہیں‘ ہر قبر ایک تاریخ ہے اور ہر تاریخ ایک داستان ہے۔

یہ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا انتہا سے زیادہ احترام کرتے ہیں چناں چہ یہ انھیں سلطان ایوب کہتے ہیں اور یہ پورا علاقہ  اس مناسبت سے سلطان ایوب کہلاتا ہے لہٰذا آپ اگر میزبان رسولؐ کے مزار پر حاضری دینا چاہتے ہیں تو آپ کسی بھی ٹیکسی والے کو سلطان ایوب کہیں ‘ یہ آپ کو سیدھا مزار پر لے جائے گا۔ میں کورونا کی طرف واپس آتا ہوں‘ ہم لفٹ پر پہنچنے والے پہلے لوگ تھے۔وہاں بھی سناٹا تھا‘ ایک باکس میں پانچ لوگ بیٹھ سکتے تھے اور انتظامیہ اس کا مکمل خیال رکھ رہی تھی‘ مزار کے احاطے میں بھی سوشل ڈسٹینس اور ماسک لازم تھا اور لوگ اندھی عقیدت میں بھی قانون کی حد پار نہیں کر رہے تھے۔

حکومت نے پورے ملک میں ریستوران بند کیے اور یہ پھر بند ہوئے‘ استنبول میں اس کے بعد کوئی ریستوران کھلا اور نہ کچن چلا‘ لوگ صرف ’’ٹیک اوے‘‘ کر سکتے تھے اور اس کے لیے بھی لائن میں چھ فٹ کا فاصلہ ضروری تھا‘ تین چار سے زیادہ گاہک اندر نہیں جا سکتے تھے اور لوگ باہر اطمینان سے لائن میں کھڑے ہوتے تھے۔

میں ترکی سے ضرورت سے زیادہ متاثر ہوں مگر سوال یہ ہے میں ترکی سے متاثر کیوں نہ ہوں؟ یہ حقیقتاً زبردست لوگ ہیں‘ دل سے قانون کا احترام کرتے ہیں‘ حکومت نے اگر ماسک کا حکم دے دیا تو پھر یہ ماسک پہنیں گے خواہ ان کے کان اڑا جائیں یا ماسک چہرے کی جلد میں اتر جائے‘ ملک میں اگر لاک ڈاؤن ہے تو پھر لاک ڈاؤن ہے‘ لوگ پھر باہر نہیں نکلیں گے۔

حکومت نے اپریل میں ٹوریسٹ گائیڈز کو ماسک اور سینی ٹائزر کا حکم دیا تھا‘ ہمارے گائیڈ ظفر نے بتایا میں آٹھ ماہ میں ماسک کے بغیر گھر سے نہیں نکلا‘ میں نے اپنے چہرے اور منہ کو ہاتھ نہیں لگایا اور میں نے ٹشو پیپر کے بغیر کوئی دروازہ‘ کوئی لاک نہیں کھولا‘ اس نے اس کے ساتھ ہی اپنے ہاتھ دکھائے‘ اس کی جلد میں سلوٹیں پڑی ہوئی تھیں۔

اس نے ان سلوٹوں کو دبا کر بتایا یہ سینی ٹائزر کا ری ایکشن ہے لیکن میں اس کے باوجود اس وقت تک سینی ٹائزر استعمال کرتا رہوں گا جب تک حکومت ملک کو ’’کورونا فری‘‘ ڈکلیئر نہیں کرتی اور یہ وہ اسپرٹ ہے جس سے پاکستانی قوم محروم ہے۔

آپ نے کورونا کے دوران پاکستانیوں کا ردعمل بھی دیکھا ہو گا‘ ہم لاک ڈاؤن میں بھی سڑکوں پر ہوتے تھے‘ ماسک آٹھ ماہ میں ہمارا حصہ نہیں بن سکا‘ ہم آج بھی ہاتھ ملاتے ہیں اور دوسروں سے بغل گیر ہونے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے‘ ہم نے سماجی فاصلے کو بھی مذاق بنا لیا ہے‘ آپ کسی جگہ چلے جائیں آپ کو لوگ لوگوں کے کندھوں پر سوار نظر آئیں گے‘ ملک میں روزانہ لوگ مر رہے ہیں۔

آپ حکومت اور اپوزیشن کے جلسوں سے لے کر مولانا خادم حسین رضوی کے جنازے تک قوم کا رویہ دیکھ لیں‘ آپ کو کسی جگہ کورونا کے ’’ایس او پیز‘‘ نظر نہیں آئیں گے‘ وزراء تک ماسک نہیں پہنتے اور ہاتھ صاف نہیں کرتے‘ یہ بھی دوڑ کر دوسروں سے بغل گیر ہو جاتے ہیں چناں چہ ملک میں کورونا کی صورت حال بد سے بدتر ہوتی جا رہی ہے۔آپ اس سے ریاست کی رٹ اور طاقت کا اندازہ کر لیجیے یعنی جو ریاست آٹھ ماہ میں قوم کو ماسک نہیں پہنا سکی‘ آپ اس سے کیا توقع کر سکتے ہیں‘ یہ قوم کو کیا ٹھیک کرے گی اور جس قوم کی ترجیحات میں اپنی اور اپنے خاندان کی صحت اور زندگی بھی شامل نہیں آپ اس کے بارے میں کیا سوچیں گے لہٰذا میری سمجھ دار اور تجربہ کار لوگوں سے درخواست ہے آپ مہربانی کریں آپ نے جتنی زندگی گزارنی تھی آپ نے گزاری لی‘ آپ اب خدا خوفی کر یں اور لوگوں کو سمجھانا شروع کر دیں‘ آپ لوگوں کی تربیت کریں۔

آپ یقین کریں ہمارے لوگوں کو بولنا‘ دوسروں کو بلانا‘ ہاتھ دھونا‘ کھانا کھانا‘ موبائل فون پر بات کرنا اور کپڑے پہننا نہیں آتا اور اس میں ان بے چاروں کا بھی کوئی قصور نہیں‘ ہم نے انھیں بتایا ہی نہیں ہمارے لوگ ارب پتی ہوں گے لیکن ان کا آزار بند لٹک رہا ہو گا‘ یہ شوں شوں کر کے چائے پئیں گے‘ ڈھول جتنا ڈکار ماریں گے اور کسی کو بھی اونچی آواز میں ’’اوئے ایدر آ‘‘ کا نعرہ لگا کر بلا لیں گے۔

ہمیں آج تک کسی نے وضو کرنا بھی نہیں سکھایا‘ ہم وضو کرتے ہوئے دوسروں کے کپڑے گیلے کر دیتے ہیں اور ہم مر جاتے ہیں لیکن کسی کا شکریہ ادا نہیں کرتے اور یہ کس کا قصور ہے؟ یہ ان لوگوں کا قصور ہے جنھیں اللہ نے علم‘ عقل اور ادب سے نوازہ تھا مگر یہ لوگ اس خزانے پر سانپ بن کر بیٹھ گئے اور یہ آج تک کسی کو ناک صاف کرنے کا طریقہ بھی نہیں سکھا سکے چناں چہ میں خود کو بھی مجرم سمجھتا ہوں اور اپنے جیسے دوسرے ثقافتی کنجوسوں کو بھی‘ معاشرے میں جتنی بے ادبیاں ہیں ہم اس کے ذمے دار ہیںاور ہمیں یہ ذمے داری قبول کرنا ہوگی۔۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں