(خصوصی تحریر)۔۔
نحیف بدن، بنجریلی آنکھیں، متزلزل سوچ، غلامی کی قید سے لڑتا ہوا ضمیر، محرم کو بزور بندوق مجرم لکھنے والی رعشہ زدہ انگلیاں اور حرکت سے عاری پاؤں۔ آج کل صورت حالات بیچ کر رزق ’’مانگنے‘‘ والے صحافیوں کی یہ عملی داستاں ہے۔
عملی طور پر تو کب کا ختم ہوا یہ لفظ ’’آزادی صحافت‘‘ اب اردو لغت سے بھی عنقریب محو ہونے کو ہے۔ چاروں طرف گھپ اندھیرا۔ کچھ سجھائی نہیں دے رہا اس مملکت خداداد میں جو کہ ایک نیوکلیائی طاقت کا تمغہ سجائے دشمنوں کو للکارنے میں مصروف ہے۔
چند برس قبل اللہ جانے صبح کے چار بجے پھیلے اجالے کو کاذب کہتے ہیں یا صادق مگر ایک جانی پہچانی آواز نے کسی غیر جانے نمبر سے ہیلو کہا۔ لہجے میں برسوں کی تھکاوٹ، بولتا ہوا ہر لفظ ایک مانوس سے خوف میں جکڑا ہوا، آواز زبان کا ساتھ دینے سے قاصر اور فقرہ یہ تھا، ’’مجھ سے میرا موبائل فون چھین لیا گیا ہے۔ شاید میں صبح کے بھر پور اجالے سے قبل زندگی کی بازی ہار جاؤں۔‘‘ سر اور آنکھوں پہ گہرے زخم۔ بدن کا ہر عضو درد سے لپٹا ہوا۔ تمہارا جرم؟ میں نے تشویش زدہ لہجے میں پوچھا۔ جواب تھا، ’’سب سے طاقتور کے خلاف لکھنے کی سزا۔‘‘ رابطہ منقطع ہوا اور مجھے یقین ہو چلا کہ شاید ’’زمینی عزرائیل‘‘ پہلی اور آخری بار اس پر رحم کھا کر اسے چھوڑ چلا۔
پھر چند برس قبل! اب کی بار مسئلہ بولنے والے کے ساتھ ہوا۔ کہہ بیٹھا سزا سے قبل الزام لگانے والے کے الزامات کو بغور دیکھ لینا چاہئے۔ خاکم بدھن کہیں ذاتی و مالی فائدہ ہی پوشیدہ نا ہو؟ ایک بہت بڑے انتظامی عہدے پر فائز، ہنستا کھیلتا زندگی سے بھر پور، بات سچ کہی، کہنے کی عادت جو تھی کہیں ٹھہرا صحافت سے تعلق۔ مگر بھول بیٹھا کہ آزادی اظہار سلب ہوئے مدتیں گزر چکی ہیں۔ طوفان چاروں سمت اس کے گرد ہالہ بننے لگا۔ خوب شور و غوغا ہوا اور پھر اس کا سامنا ’’ایک شرعی عزرائیل‘‘ سے ہوگیا۔ اب کی بار معافی کی گنجائش ختم۔ شریعت کا پیروکار عزرائیل اسے لے چلتا بنا۔
برسوں کی طوالت محدود ہوتے ہوتے مہینوں تک آ پہنچی۔ اب کی بار صحافی حضرات کا سامنا اپنے ہی پیشے میں موجود ’’عزرائیلوں‘‘ سے تھا۔ وہ دھما چوکڑی کہ الحفیظ الامان۔ صحافت کی ابجد سے میلوں دور کچھ بہروپئے ہمہ وقت اسکرین کی زینت بنے۔ انتخابات سے قبل اپنے آقاؤں کی مدد سے ایجنڈے کو حتمی شکل دیتے۔ اپنے اپنے ’سیاسی و معاشی زمینی پرور دگاروں‘ کی خوشامد میں زمین اور آسمان کے وہ قلابے ملاتے کہ خلائی آنکھیں انہیں گھورتی بھی رہتیں اور مسکراتی بھی۔ عام قارئین و ناظرین ان ’جادوگروں‘ کے سحر میں جکڑے رہتے۔ سچ لکھنے والوں کی تحریریں اور سچ بولنے والوں کی زبانیں ان کے اداروں کے ’’مالکان عزرائیلوں‘‘ نے خاموش کروا دیں۔ صحافت نامی طوائف لگی پیسے والے تماش بینوں کے گرد چکر لگانے۔
پرُامن انتخابات ہوئے۔ جیت انہی کا مقدر بنی، جنہیں ’زمینی خداؤں‘ کی آشیرباد حاصل تھی(میرے نزدیک عوام ہی کو زمینی خدا سمجھا جاتا ہے وہ جسے چاہئیں عزت دیں اور جسے چاہے ذلت)۔ تبدیلی دندناتی دروازوں تک آگئی۔ لوگوں کے باقاعدہ جائز منتخب نمائندے ایوان میں موجود نشستوں پر براجمان ہو گئے۔
ہر ذی روح خوش اور سب سے زیادہ صحافت، ’’گھٹن زدہ صحافت‘‘ اور اس سے منسلک ’’صحافی‘‘ خوشیوں کے شادیانے بجاتے رہے۔ انہیں یقین تھا کہ ان کی تحریروں اور آواز نے لوگوں کی روح تک کو بدل ڈالا ہے۔ سوچ مثبت دھاروں کے ساتھ ساتھ چلنا شروع ہو گئی، قلم آزاد ، زبان آزاد۔
مگر اب کی بار اجل کے داعی عزرائیل نے ایک نیا روپ دھار لیا۔ ’زمینی عزرائیل‘ کو لوگ لاکھ پردوں میں پہچان لیتے تھے۔ ’با شرع عزرائیل‘ اپنی پوری آب و تاب سے دمک رہا تھا۔ ’آقا عزرائیل‘ زبانوں اور تحریروں پر قادر مطلق تھا مگر اس ’نئے عزرائیل‘ نے وہ کیا جو نا کبھی سوچا نا سنا۔
اسے زمینی خداؤں کی مدد کا بھر پور بلکہ کامل یقین تھا۔ آسمان سے ذرا ادھر خلائی مدد بھی اپنی تمام توانائیوں سمیت ہم رکاب تھی۔ اب کی بار پینترا بدلا گیا۔ آزادی صحافت کو اس کی اوقات دکھانے کے واسطے پانچ ارب کے اشتہارات کو بنیاد بنایا گیا۔ عقل سے مزین اصحاب کو یقین تھا کہ روٹی کی بھوک میں الجھائے گئے تو پھر کوئی اور آزادی کہاں یاد رہے گی؟
وفاقی وزیر اطلاعات مدیروں کے سب سے افضل فورم سی پی این ای کے وفد سے ملاقات کے دوران خوب برسے۔ چند ڈمی اخبارات کو چھتیس کروڑ کی ادائیگی بھی زیر بحث آئی۔ پھر گویا ہوئے پریس کونسل اور پیمرا نامی دو اداروں کو علیحدہ شناختوں کا جواز کیا؟ اور ہاں چلتے چلتے ٹھہر کے واشگاف الفاظ میں کہا، ”ہم اشتہارات کا تناسب ہر گز وہ نا رکھیں گے، جو پہلے تھا۔‘‘ ہم ضمیر کے مقید لگے دل میں تالیاں بجانے۔ مالکان عزرائیلوں پر پہلی دفعہ قیامت ٹوٹی۔ لوگوں کی چھانٹیاں ہوئیں۔ قلم اور تحریر کی آزادی کی حرمت کے دعویدار لگے بھوکوں مرنے۔ جب زر مالکان سے دور ہوا تو دو کوڑی کی صحافت اور صحافی کس کھیت کی مولی؟
بات یہیں تھمی نہیں ’شرعی عزرائیل کے پیروکار با شریعت وزیر اطلاعات‘ پنجاب تو مدیروں کی محفل میں ایسے گرجے جیسے سامنے بیٹھے لکھاری نہیں بھیڑ بکریاں ہیں۔ واضح کیا، جو اس ملک کے اداروں کے خلاف لکھے گا اس کا ناطقہ بند۔ وہ ہم سے میرٹ یا بغیر میرٹ کی کسی چیز کی توقع نا رکھے۔ ہماری پالیسی سے اختلاف اگر معاشی قتل کے زمرے میں آتا ہے تو میری جانے بلا۔ شریعت کے پیروکار ’سیاسی عزرائیل‘ اپنا بے داغ دامن جھاڑ کے چلتے بنے۔
صحافت پابند سلاسل، سوچنے کی صلاحیتیں بھوک سے نمٹنے کی ترکیبیں کرنے لگیں، احتجاج شروع ہو چکا مگر نیرو امن کی بانسری بجا رہا ہے۔
(یہ تحریر کسی دوست نے واٹس ایپ کی ہے،لکھاری کانام وہ خود بھی نہیں جانتے، تحریر جاندار تھی اسلئے بے نامی لگانے پہ مجبور ہوئے۔۔علی عمران جونئیر)۔۔