تحریر: منصور اصغرراجہ
معروف ماہر تعلیم ،دانشور ،کالم نویس محترم ڈاکٹر طاہر مسعود نے میر خلیل الرحمن کے خاکے میں لکھا کہ جب انہوں نے مدتوں پہلے روزنامہ جسارت کے لیے میر صاحب کا انٹرویو کیا تو انہوں نے پورے انٹرویو میں ایک بار بھی نہ کہا کہ انہوں نے جنگ اخبار ملک وقوم کی خدمت کے لیے نکالا ہے بلکہ ان کی گفتگو کا لب لباب یہ تھا کہ پیسہ پیسہ پیسہ ۔۔بس اسی کے گرد پوری گفتگو گھوم رہی تھی ،جب پروفیسر متین الرحمن مرتضی صاحب کے ایک اداریے سے جسارت انتظامیہ نے اختلاف کرتے ہوئے انہیں اداریہ نویسی سے الگ کیا تو اخبار کے ایڈیٹر صلاح الدین شہید اداریے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے جسارت سے الگ ہوگئے ۔۔ڈاکٹر طاہر مسعود اس وقت جسارت میں کالم بھی لکھا کرتے تھے ۔۔سو انہوں نے بھی جسارت میں لکھنا ترک کردیا ۔عالی جی نے انہیں میر صاحب کے پاس بھیج دیا ۔میر صاحب نے ان کے کالم کو پسند کرتے ہوئے چھاپنا شروع کردیا لیکن جب ڈاکٹر صاحب نے اپنا معاوضہ تین ہزار روپے بتایا تو میر صاحب غش کھاتے کھاتے رہ گیے ۔۔اس پورے خاکے کو پڑھیں تو پتا چلتا ہے کہ میر خلیل الرحمان اور ان کے صاحبزادگان کی اول و آخر ترجیح صرف پیسہ ہے ۔۔پیسے کے لیے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔جب خود ان پر کڑا وقت آئے تو یہ لوگ نہ صرف اپنے ملازموں کو سڑکوں پر نکلنے کی ہدایت کرتے ہیں بلکہ صحافتی تنظیموں اور پریس کلب کو بھی اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں لیکن اتنے خود عرض ہیں کہ آج میڈیا پر ذرا سا سخت وقت کیا آیا کہ انہوں نے بیک جنبش قلم 600 صحافیوں کو بے روزگار کرنے کا اذن دے دیا ۔۔تف ہے ایسے میڈیا مالکان پر ۔۔۔جنہیں صرف اپنی چمڑی اور اپنا مفاد عزیز ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نازک موقع پر تمام صحافی تنظیمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور اس ظلم کے خلاف توانا آواز بلند کریں۔(منصوراصغرراجہ)
(منصوراصغرراجہ کا شمار لاہورکے باخبر صحافیوں میں ہوتا ہے، ان دنوں ایک حادثے کے باعث بیڈریسٹ پر ہیں،مذکورہ تحریر ان کی وال سے چرائی گئی ہے، جس سے ہماری ویب کا اتفاق کرنا ضروری نہیں،یہ صرف اپنے قارئین کی دلچسپی کیلئے ہے، علی عمران جونیئر)۔۔