تحریر: خرم علی عمران۔۔
امریکا کی سرزمین پر دو ستاروں کا کیا خوب ملن ہوا تھا اک حسین انداز سے ۔ ایک ستارہ تھاہمارا مشرقی شہزادہ، تابناک سپر اسٹار ماضی اور روشن سیاست کار مستقبل کا حامل ،اکھڑ، ضدی سرکش اور بہت سوں کے نزدیک منہ پھٹ پاکستان کا بانکا سجیلا سا کھلاڑی وزیراعظم اپنے چہرے پر مدبرانہ تاثرات سجائے ہوئے اور دوسری جانب کا ستارہ ء شب تھے کم و بیش انہی طبعی و کیمیاوی خصوصیات کے حامل عالم پناہ، مہا بلی،شہنشاہ عالم عزت ماآب جناب ٹرمپ صاحب۔ ویسے ایک بات تو ماننی ہی پڑے گی کہ ہمارا بندہ بھی ہلکا نہیں پڑ رہا تھا شخصی اعتبار سےکسی بھی طرح سے شہنشاہ عالم کے امریکائی دربار میں اور یہ ملاقات دیکھ کر ایک مشہور گانے کے بول ذہن میں آرہے تھے جو دلیپ کمار اور مینا کماری پر فلم آزاد میں فلمایا گیا تھا جوکہ نہ جانے کیوں ان دونوں بڑے فنکاروں کی پہلی اور آخری مشترکہ فلم ثابت ہوئی اور دونوں نے پھر کبھی ساتھ کام نہیں کیا، وہ بول ہیں کہ دو ستاروں کا زمیں پر ہے ملن اج کی رات۔
تو کچھ ایسی ہی یہ ملاقات تھی۔
حاسدوں نے طرح طرح کی افواہیں پھیلائی ہوئی تھیں اس ملاقات سے پہلے کہ نہ جانے کیسا روکھا سلوک کیا جائے گا ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ عالمی دربار میں کیونکہ مہا بلی اور شہنشاہ عالم ذرا کچھ دنوں سے ناراض ناراض نظر آرہے تھے ہمارے ملک سے اور اپنے ٹویٹس سے سنسنی پھیلانے کے فن میں مہارت کاملہ کے حامل ٹرمپ صاحب پاکستان کے بارے میں خفا خفا سے ٹویٹس کرتے نظر ارہے تھے۔ لیکن اہل نظر معنی خیز انداز میں اسی وقت سر ہلانے لگے تھے جب بلوچستان لبریشن آرمی یعنی بی ایل اے کو اس دورے سے ذرا ہی پہلے امریکا نے دہشت گرد جماعتوں کی لسٹ میں شامل کر دیا تھا جو کہ پاکستان ماضی میں بہت کوشش کت باوجود نہیں کروا سکا تھا کیونکہ امریکا کو انڈیا کی خوشنودی بہت عزیزہوا کرتی تھی۔ اس اعلان نے کہ بی ایل اے کو دہشت گرد جماعت قرار دے دیا گیا ہے خارجہ پالیسی پر نظر رکھنے والوں کو باور کرادیا تھا کہ امریکا کی پالیسی میں شفٹ پیدا ہوگئی ہے اور امریکا اب پاکستان کو افغان مسئلے کے حل کا اپنی امریکا کی جان اس طویل جنگ سے چھڑانے کا سب سے اہم عامل اور فریق تسلیم کر چکا ہے۔ اور بے چارے انڈیا کی حالت اس کھیل میں کچھ ایسی ہوگئی ہے کہ؎ پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں۔۔ ہندوستان کی کوشش تھی کہ اسے بھی افغان مسئلہ میں اہم فریق تصور کیا جائے اور مذاکراتی عمل میں شریک کیا جائے مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ امریکا نے بلاآخر جان اور مان لیا کہ اسے پاکستان ہی اس جنگی دلدل سے ایسے نکال سکتا ہے کہ عالمی بھرم بھی رہ جائے اور کام بھی ہوجائے۔
تو اس سارے پس منظر کے ساتھ یہ ستاروں کا ملن بہت اہمیت کا حامل تھا اور بقول ہیلیری کلنٹن روٹھی ہوئی ساس اور بہو کا ملاپ ہونے جارہا تھا۔ خوب رہی صاحب ملاقات! کیا کہنے۔ اس ملاقات کے بعد کی پریس ٹاک بھی کافی طویل اور سنسنی خیز ثابت ہوئی جب مسٹر ٹرمپ نے باتوں باتوں میں یہ دھماکا کیا کہ ہندوستانی وزیر اعظم مودی نے انہیں مسئلہ کشمیر پر ثالثی کا کہا تھا،اوہو ہو،بس پھر کیا تھا انڈیا میں تو گویا تہلکہ مچ گیا اور انڈین میڈیا نے آسمان سر پر اٹھالیا، انڈین اپوزیشن نے بھی جواب دو حساب دو قسم کی باتیں کرنا اور نعرے مارنا شروع کردیئے اور مودی کی سرکار کے لئے مسٹر ٹرمپ کے ایک ہی ترپ نے سارا کھیل گڑبڑا دیا۔ ٹرمپ صاحب کوئی بے وقوف نہیں کہ یوں ہی منہ پھاڑ کر کچھ کہہ دیا ہو جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسی اعلی سطحی ملاقاتوں سے پہلے ایک ایک بات پر جو کہنی ہو بھرپور غور وفکر ہوتا ہے اور ایک ایک جملہ،الفظ، باڈی لینگوئج اور جنبش تک اسکرپٹڈ ہوا کرتی ہے۔ تو مسٹر ٹرمپ نے یہ ثالثی والی بات چاہے کسی بھی وجہ سے مثلا مودی یا ہندوستانی حکومت کو کسی جانی انجانی وعدہ خلافی کی یاد دہانی کرانے اور ذرا سا جھٹکا دینے، پاکستان اور طالبان کے لئے مثبت طرز عمل کو ظاہر کرنے، کشمیر کے فلیش پوائنٹ کو اپنےعالمی مقاصد کے گریٹ گیم میں استعمال کرنے کے لئے کی یا پھر اپنی فطری منہ پھٹ فطرت کے تحت کہی ایک بات تھی یا کوئی اور وجہ جو پردہء زنگاری میں ہے جو کچھ بھی ہو لیکن اسکا ایک بہت بڑا فائدہ یا نقصان اب سامنے آگیا ہے۔
اسکے فورا بعدبی جے پی سرکار کی بلی پوری طرح تھیلے سے باہر آگئی۔ کشمیر کی آئینی حیثیت کو ایک صدارتی فرمان کے ذریعے سے ختم کرنے کی یہ احمقانہ اور عاجلانہ کوشش انڈیا کو کتنی مہنگی پڑ سکتی ہے اس کا مکمل تخمینہ ان سورماؤں نے شاید پوری طرح نہیں کیا۔ اب اس کام اور اعلان کے بعد وہ شاید کئی ہندوستان دیکھیں گے عنقریب ایسا لگتا ہے۔ یہ کوئی جذباتی بات نہیں بلکہ بڑے دانشور اور سیاسی سماجی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ مسلمان اور اسلام دشمنی میں جو زہریلے اقدامات یہ سرکار کررہی ہے اس نے اس زنجیر کو توڑ دیا ہے جس نے انڈیا کی مختلف مذہبی،ثقافتی اور جغرافیائی پس منظر کی حامل اقوام،اقلیتوں اور برادریوں کو جوڑ کر ہندوستانی بنا رکھا تھا اور وہ زنجیر سیکولر ازم تھا۔جو بظاہر سیکولر انڈیا کا نقاب ان مہا تعصبیوں نے اپنے چہرے پر دنیا کے سامنے سجایا ہوا تھا وہ پھٹ چکا ہے اور ہندو قابضانہ اور دہشت گردانہ ذہنیت اب ساری دنیا کے سامنے عیاں ہوگئی ہے۔
کشمیر کی آزادی تو اب قریب ہے کیونکہ انڈیا نے یہ عمل کرکے اپنے ہی سپریم کورٹ،ہائی کورٹ کے فیصلوں کی جو ریاست جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کے بارے میں دیئے گئے تھے رو گردانی کی ہے بلکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں اور شملہ معاہدے کی بھی دھجیاں اڑا کر گویا بین الاقوامی قوانین کا بھی مذاق اڑایا ہے۔ اب نظر کچھ ایسا آرہا ہے کہ اقوام متحدہ کی امن فوج کے دستے ریاست میں بھیجے جانے کا وقت اور ریفرینڈم کے ذریعے کشمیر کے عوام کی رائے سے انکے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی ساعت آ پہنچی ہے۔ اور اگراب یہ سب نا ہوا تو پھر یقین جانیں کہ اتنے خطرناک اور ہولناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں جنکا تصور کرکے بھی جھرجھری آ جاتی ہے۔(خرم علی عمران)