maslon ka masla

ٹرمپ ہے اور کرونا وائرس

تحریر: خرم علی عمران۔۔

ابھی چند روز قبل کی بات ہے کہ جانِ جہاں، شہنشاہ عالم،صاحبقرآں جناب ڈونلڈ ٹرمپ فلسطین اور اسرائیل کے مسئلے کے حل کا اعلان اپنے مخصوص بے نیازانہ اور بر غرور انداز میں فرما رہے تھے اور بغل میں اسرائیلی پردھان منتری بنجمن فرینکلن اوہ سوری میرا مطلب ہے بنجمن نتن یاہو ،بنجمن فرینکلن تو کوئی سائنسدان اور شریف آدمی گزرا ہے، کھڑے انہیں یوں بغور والہانہ انداز میں تک رہے تھے کہ جیسے  بزبان حال کہہ رہے ہوں کہ دنیا والوں تم جو چاہو کرلوں تمھاری نہیں چلے گی کیونکہ میرے پاس ٹرمپ ہے ۔واقعی سچ ہے بھئی کہ جسے پیا چاہے وہ ہی سہاگن اور پہلے برطانوی اور اب امریکی پیا نے تو جیسے اسرائیل کو سدا سہاگن بنا رکھا ہے اور فلسطینیوں کو دائمی بیوہ کی طرح اجاڑ رکھا ہے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں فلسطینی کچھ نہ کچھ مزاحمت کرتے نظر آتے تھے اور اسلامی دنیا بھی کسی حد تک ان کی دامے درمے سخنے مدد کرتی نظر اتی تھے لیکن زمانہء حال میں تو پکستان اور معدودے چند اسلامی ممالک کے علاوہ اب تو کوئی اسلامی ملک کھل کر فلسطین کی حمایت بھی کرتا نظر نہیں آتا اور اسرائیل کا ناجائز قبضہ اب جائز  تسلیم ہوتا جارہا ہے۔ ٹرمپ جی ہمیشہ ترپ چال چلتے نظر آتے ہیں کہ نام کا اثر ہوگا لیکن اکثر و بیشتر مخالف کے پاس نہ جانے کہاں سے تین اکے نکل اتے ہیں اور ٹرمپ جی بھی مودی جی کی طرح پتے پھینک کر ناراض ہوکر اٹھ جاتے ہیں اب دیکھیں نا بد خواہوں کا کیا ہے وہ تو بڑ بڑ کرتے ہی رہتے ہیں،امریکا کے اپنے دنیا بھر کے ممالک میں سوائے چند پٹھوؤں کے سب ہی اس حل کی مذمت کرتے نظر آرہے یا جو زیادہ بڈی ہیں وہ نو کمنٹس والا رویہ اپنائے نظر آرہے ہیں جیسے کہ اپنا پاکستان لیکن بدخواہ اور حاسد یہ کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ جی کی یہ ترپ چال دراصل اس مواخذے کے بارے میں عوامی حمایت حاصل کرنے کی ایک احمقانہ سی کوشش ہے جسکا نفاذ ان پر امریکن پارلیمنٹ کی جانب سے کیا گیا ہے۔

تو جب نیٹ پر وہ تصویر دیکھی جس میں نتن یاہو صاحب، ویسے مجھے لگتا ہے کہ انٹر نیٹ پر خوب دھومیں مچا کر اب فلاپ ہوجانے والا سرچ انجن یاہو کہیں ان ہی نتن یاہو کا تو نہیں ہے وہ کیا ہے کہ یاہو ہاہو کی مماثلت ہے نا اور پھر فلاپ بھی تو ہوگیا ،بہرحال وہ تصویروں میں یاہو صاحب جس لگاوٹ اور محبت سے ٹرمپ جی کو تک رہے تھے اور آنکھوں سے جو محبت چھلک رہی تھی اسے دیکھ کر ابھی حال ہی میں انڈیسنٹ پروپوزل اور بیسک انسٹنکٹ نامی مشہور فلموں کا دیسی ورژن ڈرامہ میرے پاس تم ہو یا د آ گیا جس میں مہوش اپنے شہوار کو چند قسطوں کے بعد ایسے ہی دیکھا کرتی تھی۔ کوئی یہ نا سمجھے کہ میں کسی حسد یا جلن کے تحت اس ڈرامے کو ان ہالی وڈ فلموں سے متاثر بتا رہا ہوں بلکہ یہ مشہور کالم نگار اور استاد صحافت جناب نصرت جاوید صاحب کی ابھی دو حالیہ کالموں میں دی جانے والی رائے کے ساتھ ساتھ دو ایک اور مشہور لکھاریوں کی شائع شدہ رائے ہے کہ کہانی اور پیشکش سب چربہ لیکن انٹرٹینمنٹ سے بھرپور تھی اور عوام کو پسند آگئی اور پھر گانا بھی سپر ہٹ ہوگیا تو کامیابی سے بڑھ کر کچھ کامیاب نہیں اس لئے تنقید کو حسد قرار دیا جانا بے جا  نہ ہو گا۔

تو آمدم برسر مطلب کہ اسرائیل کے ناجائز وجود کو جائز بنانے کی مغربی، خاص طور پر امریکی اور برطانوی کاوشیں واقعی اس قابل ہیں کہ اگر اسرائیلی کئی نسلوں تک بھی امریکا اور برطانیہ کے پاؤں دھو دھو کر پیتے رہیں تو حق ادا نہ ہوگا اور پھر میرے پاس ٹرمپ نے تو عالمی ناظرین کو میرے پاس تم ہو کے مقامی ناظرین کی طرح بے حد متاثر کیا ہے بس فرق اتنا ہے کہ میرے پاس تم ہو پر تنقیدی آوازیں صرف چند ہیں اور تعریف و توصیف کا شور بے پناہ لیکن عالمی ناظرین نے بلکل اسکے برعکس رویئے کا مظاہرہ کیا ہے یعنی ساری دنیا کے انصاف پسند افراد،شخصیات اور ممالک نے اس حل پر صدائے احتجاج بلند کی ہے جس میں فلسطینیوں کو ایک طرح سے بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم کردیا گیا ہے۔

اس حل میں ٹرمپ جی کی انتظامیہ کے عالی دماغوں میں جن میں یہودیوں یا انکے مہروں کی اکثریت ہے جو منصبہ وائٹ ہاؤس میں پیش کیا گیا ہے اسمیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے اپنا منصوبہ پیش کر دیا ہے جس میں یروشلم کو اسرائیل کا غیر منقسم دارالحکومت رکھنے کا عہد شامل ہے۔ ۔

مشرق وسطیٰ کے لیے صدر ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی گئی ہے مگر ساتھ ہی نئی یہودی بستیوں کو تسلیم کرنے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے منصوبے کو ‘حقیقت پسندانہ دو ریاستی حل تو قرار دیا ہے لیکن شاید یہ بتانا بھول گئے کہ اسمیں ایک ریاست یعنی اسرائیل ہر لحاظ سے ہاتھی جیسی اور دوسری ریاست فلسطین چڑیا جیسی ہوگی۔ وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم ننتن یاہو کے شانہ بشانہ کھڑے بی بی سی کے مطابق صدر ٹرمپ نے کہا کہ ‘ہوسکتا ہے کہ ان کا پیش کردہ منصوبہ فلسطینیوں کے لیے آخری موقع ہو۔’

فلسطینی اس منصوبے کی پہلے سے افشا ہونے والے تجاویز کو پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ فلسطین کے صدر محمود عباس نے کہا کہ یہ منصوبہ ایک ’سازش‘ ہے۔

’میں ٹرمپ اور نتن یاہو کو کہتا ہوں: یروشلم برائے فروخت نہیں ہے۔ ہمارے حقوق برائے فروخت نہیں ہیں اور نہ ہی سودے کے لیے ہیں۔ آپ کا منصوبہ، آپ کی سازش منظور نہیں ہوگی۔‘

تو یہ میرے پاس ٹرمپ ہے کے اسرائیلی ڈرامے کی تازہ فسط ہے جو کہ ان کے نقطہء نظر سے سپر ہٹ ہے لیکن انسانی اور تہذیبی اور انصاف کے حوالے سے ایک بدترین ظالمانہ قدم اور کوشش سے کم نہیں اور جاتے جاتے ایک قدرے غیر متعلقہ لیکن ففتھ جنریشن وار میں  عالمی میڈیا کے بکاؤ کردار کی طرف مشیر ایک تذکرہ کہ اسوقت پاکستانی سمیت دنیا بھر کا میڈیا چین کو کرونا وائرس کے حوالے سے مطعون اور گندہ کرنے میں لگا ہواہے جوکہ درجہ بندی کے عالمی معیار کے لحاظ سے بہت زیادہ خطرناک وائرس نہیں ہے لیکن حیرت انگیز طور پر امریکا میں سینٹرفار ڈیزیزکنٹرول اینڈ پری وینشن(سی ڈی سی )کے مطابق انفلوئنزا(فلو) کے حالیہ سیزن میں ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ لوگ اس وائرس سے متاثر ہیں اور مرنے والوں کی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ ہے لیکن پاکستانی اور عالمی میڈیا حیرت انگیز طور پر خاموش ہے۔ اسے کہتے ہیں ففتھ جنریشن وار۔(خرم علی عمران)۔۔

How to Write for Imran Junior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں