تحریر: ناصر جمال۔۔
بدنیتی، نالائقی، نااہلی اور انا، کی آگ نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ یہ اب ریاست اور عوام کو ہڑپ کرنے کے درپے ہے۔ پاکستان، ایک فیل سٹیٹ، سٹڈی کیس ہے۔ ہارورڈ کے ساٹھ طلباء پاکستان کے دورے پر کیا سیکھنے آئے ہیں۔ لگتا ہے، حافظ صاحب سے حفظ کی ’’ٹپس‘‘ ھی لی گئی ہونگی۔ وگرنہ ملاقات کا اور تو کوئی مقصد نظر نہیں آتا۔
پاکستانی بھی عجیب قوم ہیں۔ مہنگائی، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے پر یہ سوئے ہوئے ہیں۔ آئین اور قانون سے انحراف، ان کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بجلی کے بل، زیادہ آنے پر، آسمان اٹھایا ہوا ہے۔
بہت ہی نالائق ایڈوائزر ہیں۔ ملک میں ڈالر نہیں ہیں۔ ایرانی ڈیزل سے آنکھ بند کرلو۔ سولہ مہینے میں ڈھائی لاکھ ٹن ایرانی ڈیزل کی اسٹوریج نیچے نہیں آرہی۔ کمپنی، ایف۔ سی،PSP (پٹرولیم سروسز آف پاکستان) پی۔ اے۔ ایس حکمرانوں اور سرمایہ کاروں نے کھل کر اربوں ڈالر بنائے ہیں۔ ایرانی ڈیزل بلوچستان اور سندھ کے بعد، پنجاب، کے۔ پی گلگت بلتستان، آزاد کشمیر تک بلاروک ٹوک ترسیل ہورہا ہے۔ ڈیزل سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ ایرانی ڈیزل کی امپورٹ اور سیل میں، حکومت کو ایک ’’ٹکہ‘‘ نہیں ملتا۔ سب کچھ ’’ڈیزل کارٹل‘‘ ہڑپ کرجاتا ہے۔ ٹیکس ’’کلیکشن‘‘ میں یہاں سب سے بڑی ’’ہٹ‘‘ پڑی ہے۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے، بجلی اور گیس کو ٹارگٹ کیا گیا۔ حکومت کو پیسے چاہیئے ہیں۔ آئی۔
ایم۔ ایف کو اپنے پیسے چاہیئے ہیں۔ آئل کارٹل، ٹیکسٹائل کارٹل، انڈسٹریل کارٹل اور بابو کارٹل کو اپنے پیسوں سے غرض ہے۔ سب اپنے، اپنے محاذوں پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
گیس اور بجلی کی کمپنیوں میں سیٹھوں اور سیاستدانوں کے ہرکارے، ریاست اور کمپنیوں کو معافی دینے پر تیار نہیں ہیں۔ یو۔ ایف۔ جی (غیر تخمینہ شدہ گیس اور لائن لاسز) اربوں نہیں کھربوں میں ہیں۔ صرف سوئی سدرن ایک کھرب سالانہ کے یو۔ ایف۔ جی پر کھڑی ہے۔ تیس ارب روپے یو۔ ایف۔ جی سوئی ناردرن کا بھی ہے۔ یہ ابھی کنفرم اعداد و شمار بتائے جارہے ہیں۔ غیر مصدقہ پر آپ کی طبیعت صاف ہوجائے گی۔ حیدر آباد، سکھر، کوئٹہ، ملتان، پشاور اور ٹرائبل ایریا الیکٹرک کمپنیوں میں لائن لاسز اور چوری کئی کھرب روپے کی ہے۔ آپ کو یقین نہ ائے تو وضو کروا کے، قرآن پر ہاتھ رکھوا کر، پوری قوم کے سامنے پوچھ لیں۔ ان کمپنیوں میں لائن لاسز اور چوری پچاس فیصد سے اوپر ہے۔ آئیسکو ، فیسکو، لیسکو اور گیپکو میں بھی لاسز اور چوری ہے اور بہت ہے۔ مگر اندھی نہیں مچی ہوئی۔
اپٹما اور زیرو ریٹڈ انڈسٹری، ملک کے عوام کا ایکسپورٹ اور روزگار کے نام پر ہڈیوں کا گودا تک چوس گئے ہیں۔ یہ اپنے افسروں اور ورکروں کی تنخواہیں بھی، سبسڈی اور دوسری مراعات کے عوض ’’قومی خزانے سے ہی لیتے ہیں۔ ڈیڑھ سو، ارب، صرف عمران خان حکومت میں انھوں نے گیس بجلی سبسڈی کی مد میں لئے۔ جبکہ بجلی، گیس چوری الگ سے ہے۔ وزارت توانائی، آسمان سے تو یہ پیسے نہیں لیکر آئے گی۔ یہ بوجھ، اپنی نالائقی، نااہلی اور چوری (کرپشن) عوام پر منتقل کر دیتی ہے۔
میں نے موجودہ سیکرٹری پاور راشد لنگڑیال کو کہا کہ آپ دو کام ایسے ہیں۔ جن پر ایک پیسہ خرچ نہیں آتاے۔ کردیں۔ کمال ہوجائے گا۔ انھوں نے پوچھا کہ وہ کیا۔۔۔؟ میں نے کہا کہ میں اسلام آباد میں رہتا ہوں۔ آئیسکو کو فی یونٹ باسکٹ پرائس سولہ روپے ہے۔ آپ نے مجھ پر ٹیکس لگانے ہیں تو سولہ روپے فی یونٹ پر لگائیں۔ مگر آپ، پہلے اس یونٹ کو 32 روپے کا کرتے ہیں۔ سو فیصد اضافہ پھر جی۔ ایس۔ ٹی سولہ کی بجائے 32 روپے پر لیتے ہیں تو وہ سترہ کی بجائے 34 فیصد ہوگیا۔ سو فیصد اضافہ ، اسی شرح سے دوسرے ٹیکس بڑھتے ہیں۔ یہ فیول ایڈجسٹمنٹ پر جی۔ ایس۔ ٹی کہاں سے آگیا۔ ایف۔ سی۔ اے میں نے (آئیسکو) والے پر تو لگنا ہی نہیں چاہئے۔ وہ سب پر یکساں کیوں لگا رہے ہیں۔
آپ لیٹ پیمنٹ سرچارج، اتنا لگائیں،جتنا کسی کمپنی نے قرض لیا ہے۔ فیسکو، ائیسکو، لیسکو کی کرنٹ ریکوری 95 فیصد سے زائد ہے۔ آئیسکو کی تو 99 فیصد ہے گراس ریکوری 105 سے 110 فیصد تک ہے۔ یہاں تو قرض لینا بنتا ہی نہیں ہے۔ آپ پورے ملک کا ایل۔ پی۔ ایس اکٹھا کرکے، سب پریکساں کیوں تقسیم کررہے ہیں۔ حیدر آباد، سکھر، ملتان، کوئٹہ، پشاور اور ٹرائل ایریا کے نقصانات، مجھ سے کیوں گن پوائنٹ پر لئے جارہے ہیں۔
وہ ہنس پڑے، کہنے لگے۔ پاکستان میں ایک آدمی کماتا ہے۔ آٹھ آدمی کھاتے ہیں۔
قارئین۔۔حبکو نے، غالباً2020-21میں تیس ارب روپے کا بل کیا۔ جو بجلی پیدا کی گئی تھی۔ اس کی قیمت ساڑھے تین ارب تھی۔ ساڑھے چھ ارب روپے ایل۔ پی۔ ایس تھا۔ جبکہ بیس ارب کی کپیسٹی چارجز تھے۔ جی۔۔۔۔ ہم تو بجلی پیدا کرنے کے لئے تیار تھے۔ آپ نے بجلی نہیں لی۔ آج ہی حکومت نے بتایا ہے۔ دوکھرب اس مد میں اس سال مزید ادا کئے جائیں گے۔ جیسے ماضی کے ایک مبینہ وفاقی وزیر نے چار ماہ پلانٹ بند کرکے، دو ارب روپے کپیسٹی چارجز لئے۔ جو پلانٹ بند ہونے سے گیس بچی، وہ بھی، ای۔ سی۔ سی کے ذریعے، لے اڑے۔
پندرہ سال سے تو، بطور خاص میں دیکھ رہا ہوں۔ کسی تھرمل پاور پلانٹ کا یہ ہیٹنگ آڈٹ نہیں ہونے دیتے۔ یعنی آپ کو کسی پلانٹ کی اصل ایفی شینسی (کارکردگی) کا پتا ہی نہیں ہے۔ یہیں پر فیول کی کاغذوں میں واردات ہوتی ہے۔
عمر ایوب نے ایل۔ این۔ جی کی دستیابی، ایل۔ این۔ جی، پلانٹ فارغ ہونے کے باوجود نومبر، دسمبر، جنوری، فروری 2018-19 میں، سستی بجلی بنانے کی بجائے۔ فرنس آئل پر بجلی بنائی۔ قوم چالیس ارب روپے سے زیادہ کا ریلیف ملتا۔ مگر انھوں نے عوام کی ہڈیوں میں سے تیل نکالا، کہتے ہیں کہ پھوپھا جی، آئل کارٹل کے اندر موجود تھے۔
قلم کار نے اس پر بھری پریس کانفرنس میں انھیں اور سیکرٹری عرفان علی کو آڑے ہاتھوں لیا تو تین سال وزارت میں داخلے پر پابندی عائد کئے رکھی۔
جیسے چودہ ماہ، مصدق ملک نے، ایسے ہی سوالات پر وزارت پٹرولیم میں پابندی لگائے رکھی اور پسرِ قاری خوشی محمد الازہری کیپٹن احمد محمود نے، وزارت کو صحافیوں کے لئے چھائونی بنا دیا۔
یہ لوگ نہیں چاہتے کہ سچ باہر آئے۔ وزارت توانائی، خود ایک بہت بڑا کارٹل اور سرمایہ کاروں کا سہولت کار ہے۔ پے اینڈ ٹیک اوور کپسٹی چارجز کے معاہدے کرلئے، ایفی شنسی (کارکردگی) کا معاہدہ کیوں نہیں ہوسکتا تھا۔ گھٹیا پلانٹس باہر سے امپورٹ کئے گئے۔ جیسے متروک ریفائنریز یہاں لاکر لگائی گئیں۔ کھربوں روپ۔ چھاپے گئے۔ ساہیوال امپورٹیڈ کُول پاور پلانٹ ظلم نہیں (بلادکار) ریپ، بلکہ گینگ ریپ ہے۔ ایسے پلانٹ تو پورٹ پر لگتے ہیں۔ تنقید کریں تو چھوٹے اور بڑے بائوجی، گریبان کو آتے ہیں۔ لیگی صحافی اور ٹرولرز، ٹارگٹ کرلیتے ہیں۔
بابو لوگ کہتے تھے کہ تھرکول، ہم نے دو لاکھ سال پہلے کھول لیا ہے۔ پھر آج وہاں سے بجلی کیسے پیدا ہورہی ہے۔ ونڈ پاور کو مہنگے ترین ٹیرف کیسے اور کس نے دیئے۔ قائد اعظم انرجی سولر پارک کے گناہ کبیرہ پر کوئی بات ہی نہیں کرتا۔ کیونکہ چین ناراض ہوجائے گا۔ آخر کیوں۔۔۔۔
لیگی سیٹھوں کی تھرمل انرجی میں سرمایہ کاری اٹھا کر دیکھیں کانوں سے دھویں نکلیں گے۔ پرویز مشرف کو بے وقوف بنایا گیا۔
آج 58.5 فیصد تھرمل 25.8ہائیڈل 6.8 فیصد نیوکلیئر 8.6 فیصد سولر اور ونڈ انرجی، ہماری انرجی مکس ہے۔ 33.5 فیصد بجلی ہم گیس سے پیدا کرتے ہیں۔ جبکہ آنیوالے دو تین سالوں میں ہائیڈل اور زیادہ بہتر ہوجائے گی۔ جب تربیلہ ، ففتھ ایکسٹینشن، مہمند، کوہالہ سسٹم میں آجائیں گے۔ دیامیر بھاشا اور داسو کے بعد صورتحال کنٹرول میں ہوگی۔ تربیلہ کی فورتھ ایکسٹینشن 1420 میگال واٹ 2018-2017 میں آئی۔ ففتھ 1420 پر کام ہورہا ہے۔ اصولی طور پر یہ 2840 میگا واٹ، 4-1993 تک آجانا چاہئے تھے۔
حبکو کی ڈیل نے پاکستان کی چولیں ہلا دیں۔ پھر سیاستدانوں، بابوئوں اور سرمایہ کاروں نے مل کر تھرمل اور ایل۔ این۔ جی میں غدر مچا دیا۔ مقامی تیل اور گیس کی تلاش کے کام کو ایل۔ این۔ جی لانے کےلئے، تباہ و برباد کردیا۔
تھرمل کے معاہدے، ہمارے گلے کی ہڈی ہیں۔ ہم نے ’’انرجی مکس‘‘ پر توجہ نہ دے کر، ظلم عظیم کیا۔ ہم نے اپنے وسائل کو بے دردی سے استعمال نہیں کیا، بلکہ لُٹایا ہے۔
ہم نے ٹیکسوں کا 75 فیصد نظام، تیل، گیس، تنخواہوں اور جی۔ ایس۔ ٹی کنزیومر گڈز کے ساتھ لگا کر، اپنی جان چھڑائی۔ لوگ جائیں بھاڑ میں۔ آپ ہی بتائیں۔ ہم پی۔ ٹی۔ وی کو بجلی کے بلوں کی مد میں نو ارب سالانہ دیتے ہیں۔ کیوں۔۔۔۔؟ کون دیکھتا ہے پی۔ ٹی۔ وی اب پی۔ ٹی۔ وی ، ریڈیو، محض، عیاشی اور ذہنی عیاشی کے اڈے ہیں۔ اگر چلانا بھی ہے تو کیا، اتنے پیسے، اس اندھے کنویں میں کیوں جھونکیں۔
ٹیکس مشینری، انڈر انوائسنگ،مس ڈیکلریشن، کمرشل اور صنعتی لارڈز، کے سامنے بے بس ہے۔ جو ٹیکس اکٹھا ہوتا ہے۔ اس کے حسابات پر، کس کا احتساب ہوا ہے۔ سب سے زیادہ تنخواہیں تو ٹیکس وا لوں کی ہونی چاہئیں۔ ٹیکس کلیکشن کا پانچ فیصد انھیں دے دیں۔ ٹیکس گروتھ دیکھ لیجئے گا۔
یہ کام تو، آپ کریں گے نہیں، آٹو میشن پر جائیں گے نہیں۔ صنعت کار اور تاجر تو آپ کے دوست ٹھہرے۔
سب کچھ عوام پر لادنے سے مسائل حل نہیں ہونگے۔ انرجی زندگی اور معیشت کے لئے ناگزیر ہیں۔ پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ اپنی ضرورت کی 75 فیصد گیس اور 25 فیصد آئل خود پیدا کرتے ہیں۔ اسے 100 فیصد تک لے جانے کے لئے منصوبہ بنانا ہوگا۔ گھروں کو سولرز اور ونڈ پر لانا ہوگا۔ تھرمل کو پانچ فیصد سے زیادہ نہیں ہونا چاہئے۔ ہائیڈل اور نیوکلیئر پر اور توجہ دینا ہوگی۔ معیاری الیکڑک مصنوعات اور بلڈنگ کوڈز اپنانا ہونگے۔ گھروں کو سنگل سورس پر لائیں۔ گھروں کو قدرتی گیس کی عیاشی بند کریں۔ پاور سیکٹر کے غیر ضروری ادارے اور عملہ کی تطہیر کرنا ہوگی۔ ڈسکوز کو پرائیویٹائز کریں۔ عوام کو سولر اور ونڈ پر لے جانے کے لئے، سہولیات دیں۔ صفر شرح سود پر انھیں یہ سولر دیں۔ عام آدمی کی زندگی میں بھی کوئی خوشی آنے دیں۔ انرجی مکس موثر بنائیں۔ صنعت اور تجارتی سرگرمیوں کے لئے، سستی توانائی مشکل کام نہیں ہے۔ نیت ٹھیک کریں۔ رن آف ریور منصوبوں پر توجہ دیں۔ ٹرانسمیشن اور ڈسٹی بیوشن نظام کو مربوط بنائیں۔ وزارتوں کو پروفیشنل لوگوں کے حوالے کریں۔ جہاں صرف پالیسی میکنگ اوور سائیٹ ہو۔ حکومت ہر طرح سے دھندے سے خود بھی نکلے اور افواج پاکستان کو بھی نکالے۔
دھندہ، جن کا کام ہے۔ انھیں کرنے دیں۔نگران وزیر اعظم کو بھی بابوئوں نے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ہے۔ چور، ڈاکو اور نوسرباز جن کارٹلز سے اربوں روپے چھاپتے ہیں۔ ان کے خلاف کیسے جایٸں گے۔سوال ہی پیدا نہیں ھوتا۔ اصل خرابی IPPs کے ساتھ معاھدوں میں ہے۔ جن کے پچھے سیاستدان کھڑے ہیں۔ کمپنی کے سابق اور حاضر کھڑے ہیں۔ کچھ نہیں ھوگا۔ کاکع بھی صرف عوام کے ہی کڑاکے نکالے گا۔
عوام یاد رکھیں۔ انھیں ریلیف نگران وزیراعظم یا کمپنی نے نہیں دینا۔ اگر عوام احتجاج پر رہے تو ریلیف چھین لیں گے۔ وگرنہ بھول جائیں۔ آئین، قانون تو کب کے چھن چکے۔ اب ریلیف بھی نہیں ملے گا۔(ناصر جمال)۔۔