treasure empty so how is there money for media

خزانہ خالی تو میڈیا کیلئے کیسے پیسے۔۔؟؟؟

وزیر اطلاعات نے ذرائع ابلاغ کی آزادی کو ریاست کیلئے اہم قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ  میڈیا کے حوالے سے کوئی بھی قانون سازی صحافتی تنظیموں کی مشاورت سے کی جائے گی، سرکاری اشتہارات کی تقسیم کا فارمولا صحافتی تنظیموں کی مشاورت سے وضع کیا جائے گا۔ ان خیالات کا اظہار مقامی ہوٹل میں کونسل آف نیوز پیپر ایڈیٹرز (سی پی این ای) کی سٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔۔وزیر اطلاعات نےکہاکہ اگر سرکاری خزانہ میں پیسے نہیں ہونگے تو میڈیا کیلئے پیسے نہیں ہونگے ہم نے مجموعی سوچ پیدا کرنی ہے کہ ملک کو آگے لے کر جانا ضروری ہے،وزیراطلاعات نے کہ 70 سال سے میڈیا پر سیاسی سنسر شپ تھی، ہم نے سرکاری میڈیا سے سیاسی سنسر شپ کا خاتمہ کیا۔ میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا مقصد سنسر شپ نہیں بلکہ ان اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔ اس حوالے سے جو بھی قانون سازی ہو گی اس میں میڈیا اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلیں گے۔ نئے سیٹلائٹ نظام سے میڈیا میں انقلاب آئے گا۔ انہوں نے سرکاری اشتہارات کی تقسیم کے معاملہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے اپنی انتخابی مہم کے دوران بھی مسلم لیگ (ن) کی طرف سے بہت زیادہ اشتہارات کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس وقت کی وفاقی حکومت نے 21 ارب روپے کے اشتہارات جاری کئے جبکہ پنجاب میں اشتہارات کا سلسلہ اس سے بھی بڑھ گیا۔ جس دن وزارت کا چارج سنبھالا ،بطور وزیر اطلاعات پی آئی او کو ہدایت کی کہ اشتہارات کی تقسیم کے حوالے سے مناسب لائحہ عمل وضع کیا جائے ۔ سی پی این ای سے بھی گزارش ہے کہ وہ اپنی شفافیت کے حوالے سے جو بھی تجاویز ہیں، تحریری طور پر پیش کریں، حکومت ان پر غور و خوض کے بعد مناسب فیصلہ کرے گی۔ علاقائی اخبارات کا معاملہ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو منتقل ہو گیا۔ اطلاعات تک رسائی یقینی بنانا میری ذمہ داری ہے۔ ریگولیٹری ادارے بنانے کا مقصد سنسرشپ ہر گز نہیں ،مستقبل کے جدید دور میں سنسر شپ حکومت کے ہاتھ میں نہیں رہے گی،پی آئی ڈی کو آزاد ادارہ بنانے کیلئے تجاویز دی جائیں، ۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں