علی عمران جونیئر
دوستو، گزشتہ کالم کا فیڈ بیک ایسا آیا کہ خواہش کے باوجود کسی اور موضوع پر لکھنے کا موڈ نہ بنا،اس لئے آج آپ کو مزید ”ٹوٹکے” بتاتے ہیں۔۔اس بات کو بھی آپ قطعی جھٹلا نہ سکیں گے کہ وکیل چاہتا ہے آپ کسی مقدمے میں پھنسیں ،ڈاکٹر کہتا ہے آپ بیمار ہوتے رہیں ،کفن بنانے والا چاہتا ہے آپ مر ہی جائیں،ڈاکو چاہتا ہے آپ کے پاس بہت ساری دولت ہو اور” کھسرا” چاہتا ہے کہ آپ کی شادیاں ہوتی رہیں اور آپ کے گھر بچے ہوتے رہیں۔ ہم تو اُس ملک کے رہنے والے ہیں جہاں حُسن کا معیار گورا رنگ اور دانش کا معیار انگریزی ہے۔جہاں پر بڑی بڑی گاڑیوں سے اْتر کر بندوقوں کے سائے میں مولوی صاحب جبہ و دستار زیب تن کیے خطبے میں سادگی کی شان بیان کرتے ہوئے صرف خدا سے ڈرنے کا درس دیتے ہیں ،لیکن ان سب کے باوجود ہم آپ کو نادرونایاب ٹوٹکے بتانے سے باز نہیں آئیں گے۔۔۔
اگرآپ دکھ سے بچنا چاہتے ہیں تو ٹینڈے کھانے کے عادی ہوجائیں کیوں کہ جب آپ کے گھر ٹینڈے پکے ہوں،آپ اس سے بچنے کے لئے کسی رشتہ دار کے گھر کھانا کھانے کی نیت سے جائیں اور وہاں بھی ٹینڈے ہی کھانے کو ملیں تو پھر وہ دکھ ایسا دکھ ہوتا ہے جس کا ازالہ ممکن نہیں۔۔آپ کے بچے بھی اگر ٹینڈے اور کدو کھانے سے انکار کریں تو سزا کے طور پر وائی فائی کا پاس ورڈ بدل دیں،پھر دیکھیں کس طرح خاموشی سے وہ ٹینڈے،کدو،بھنڈی، آلوگوبھی کھائیں گے، بلکہ سالن دوسری بار بھی مانگیں گے۔۔۔ہمیشہ سفید رنگ کے صابن سے ہاتھ دھویا کریں کیونکہ لال رنگ والے صابن سے ہاتھ دھوتے ہوئے انسان سوچتا ہے کہ اتنی میل تو نہیں تھی ہاتھوں پہ جتنی اس نے اتاردی ہے۔۔اپنی سوچ کو ہمیشہ بلند اور” وکھری” رکھیں ،جس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کے پاس آئی فون ۔۔مہنگی اور لگژری گاڑیاں، ڈیفنس میں بنگلے،کوٹھیاں،بینک میں کروڑوں روپے،ہزاروں ایکڑزمین،بے شمارجائیداد ہوتی ہے لیکن ان کی سوچ ہمیشہ دوروپے والی ہوتی ہے۔۔اگر آپ کو ڈراؤنے خواب آتے ہیں تو رات کو سونے سے پہلے تھوڑی سے چینی آنکھوں میں ڈال لیا کریں پھر دیکھنا ”سوئٹ ڈریم” آئیں گے۔۔
غصّے میں خوب بولیں ، کیونکہ اس وقت آپ اپنی زندگی کی بہترین تقریر کر سکتے ہیں۔۔۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں، جو کھانا ہے آج ہی کھا لیں۔۔۔ اگر آپ کسی کو مطمئن نہ کر سکیں تو اس کو کنفیوز کر دیں۔۔۔ ہمیشہ سچ بولیں، مگر بولتے ہی بھاگ جائیں۔۔۔ مسکرائیں، کیونکہ آپ کی مسکراہٹ لوگوں کو حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں۔۔۔ ہمیشہ خوش رہیں ، کہ یہ بہترین انتقام ہے اُن لوگوں سے جو ہمیں اُداس دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔اگر آپ شادی شدہ ہیں اور سکون سے فلم دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنی بیگم سے کہیں کہ ”چلو کہیں باہر چلتے ہیں” وہ کہے گی ”میں تیار ہوکے آتی ہوں” اور اس کے واپس آنے تک آپ سکون سے کوئی بھی فلم دیکھ سکتے ہیں۔۔۔کبھی کسی لڑکی کو یہ نہ کہو کہ تم خوبصورت ہو کہو کہ دوسری عورت تم جیسی نہیں وہ خوش ہو جائے گی اور آپ جھوٹ بولنے سے بچ جائیں گے۔۔۔اگر آپ سے کوئی غلطی ہو جائے تو آنکھیں بند کر کے دو منٹ تک لمبا سانس لیں اور پھر سوچیں کہ الزام کس پر لگانا ہے۔۔۔اگر آپ کا وقت ٹھیک نھیں چل رہا تو۔۔ اپنی گھڑی کا سیل تبدیل کروائیں۔۔۔ (ایویں ہر بات پہ جذباتی نہ ہو جایا کریں)۔۔
اہل خانہ کی صحت کا دارومدار زیادہ تر برتنوںکی صفائی پر ہے اور اگر اس کا بطور خاص خیال نہ رکھا جائے تو اس سے کئی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں۔ صاف اور چمکدار برتن دیکھنے میں بھی اچھے لگتے ہیں اور انہیں دیکھ کر اشتہا بھی تیز ہوتی ہے۔ اس مقصد کے لیے جوپائوڈر اور دیگر اشیاء رائج ہو چکی ہیں ،وہ تسلی بخش اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوتیں، جبکہ پرانا طریقہ یعنی راکھ کا استعمال زیادہ مفید رہتا ہے لیکن اس سے برتن مانجھنے سے ناخن بھی خراب ہو جاتے ہیں اور ہتھیلیاں بھی کھردری ہو جاتی ہیں۔ اس لیے اس سے احتراز کرناچاہیے، کیونکہ یہ آپ کا کام ہے ہی نہیں، لہٰذا یہ ڈیوٹی میاں کے ذمے لگائیے کہ وہ کس مرض کی دوا ہیں جو دفتر یا دکان سے آ کر بھی اسے سرانجام دے سکتے ہیں۔۔۔ویسے اچار ڈالنے کا ہنر اب ناپید ہوگیا ہے کیونکہ بڑی بوڑھیاں ہی اس فن میں طاق ہوا کرتی تھیں جو زیادہ تر بقضائے الٰہی اللہ کو پیاری ہو جاتی ہیں جبکہ اچار نہ صرف کھانے کو لذیذ بناتا ہے بلکہ اسے ہضم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ اکثر مہمان اس کے بارے میں ضرور پوچھتے ہیں کہ آیا گھر میں اچار ہے؟ تاہم اگر ارادہ پختہ ہو تو انسان کیا نہیں کر سکتا اور اگر آپ اس سے مکمل طور پر نابلد ہوں تو ہماری رہنمائی حاضر ہے اور جس کا طریقہ یہ ہے کہ باورچی خانے سے اچار والا جار اٹھالیں اور الگ الگ چھوٹی پلیٹوں میں ڈالتی جائیں، آپ بھی خوش اور مہمان بھی خوش، اور کوئی آپ سے یہ بھی نہیں پوچھے گا کہ آپ نے اچار کیسے ڈالا۔۔
لازمی سی بات ہے کپڑے تو سب ہی پہنتے ہیںکیونکہ ہم جنگل میں تو رہتے نہیں،سردیوں میں تو کپڑوں کا استعمال کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتا ہے، کپڑوں پر داغ دھبے لگ جانا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ،جبکہ کئی داغ تو ایسے ہوتے ہیں کہ صابن چھوڑ، پائوڈر وغیرہ سے بھی دور نہیں ہوتے اور مٹتے مٹتے بھی بڑی ڈھٹائی سے کچھ نہ کچھ باقی رہ جاتے ہیں۔ ایسے کپڑے پہن کر باہر جانا ویسے ہی باعث شرمندگی ٹھہرتا ہے چنانچہ ہم نے خواتین خانہ کے لیے ایک تیربہدف طریقہ دریافت کیا ہے جو تمام داغ دھبوں کو منٹوںمیں دور کردے گا، اس کے لیے صرف یہ کرنا ہوگا کہ کپڑے پر جس رنگ کا داغ لگا ہوا ہے، اسے اسی رنگ میں مکمل طور پر رنگ دیں، داغ دھبہ غائب۔۔اگرآپ کے چہرے پر کیل نکل رہی ہے تو گھبرانے کی ضرورت نہیں، فوری ایک عدد ہتھوڑی لیں جب بھی چہرے پہ کیل نکلے اسے وہیں ٹھونک دیں، نہ رہے گا بانس نہ بنے گی بانسری۔۔جی جی، یہی اصل محاورہ ہے، لوگ ایویں ہی کہتے ہیں ”نہ بجے گی بانسری” ،یہ بالکل غلط ہے،اصل وہی ہے جو ہم نے لکھا” نہ بنے گی بانسری” ، اب اس کی لاجک بھی سن لیں، بانسری اصل میں بانس سے ہی بنتی ہے، تو جب بانس نہیں ہوگا تو لازمی سی بات ہے بانسری بھی نہیں بنے گی۔۔یہ تو بہت بعد کی بات ہے کہ بانسری بجے گی یا نہیں، پہلے تو بانس کو غائب کرکے بانسری بننے کی وجہ ہی ختم کردی۔۔
لوگ اکثر ہم سے میڈیا میں آنے کا پوچھتے ہیں، خاص طور سے طلبا کو شوق ہوتا ہے کہ میڈیا میں آئیں اور اینکر بن کر راتوں رات کامیابی
حاصل کریں، جنہیں میڈیا میں آنے کا شوق ہے ان لوگوں کے لئے بھی ٹوٹکا پیش خدمت ہے۔۔چمک، چلتر، چلبلاہٹ اور چرب زبانی۔۔۔یہ سب گُن موجود ہیں تو آپ باآسانی اینکر بن سکتے ہیں، رمضان ٹرانسمیشن کا اینکر پرسن بننے کے لئے مضافاتی لڑکیوں کی طرح چمکیلے دمکیلے لباس پہننا بہت ضروری ہیں۔۔۔رمضان ٹرانسمیشن کیلئے خبردار کبھی روزہ نہ رکھنا۔۔ کیوںکہ لگاتار چھ، سات گھنٹے روزے کی حالت میں کبھی نہیں بول سکتے۔۔۔ روزے دار کی تو عصر کے بعد آواز تک نہیں نکلتی۔۔پرائے پیکٹ اچھال کر ہمیشہ خود حاتم تائی کا پوتا سمجھنا۔۔۔کبھی اپنے سامنے کسی کو زیادہ نہیں بولنے دینا۔۔۔۔ریٹنگ کو عبادت اور سیٹنگ کو دعا سمجھنا۔۔۔اینکرپرسن بننے کیلئے کسی تجربے، تعلیم، تربیت، تمیز، تہذیب اور تیاری کی ضرورت نہیں۔۔شٹرنگ کے ٹھیکیدار جیسا ” خط” بنوانا لازمی ہے۔۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔جدید تحقیق سے معلوم ہوا کہ کتا دراصل شیر کی نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ بس شادی کرنے کی غلطی کر بیٹھا۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔