تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،بھارتی ریاست اترپردیش میں شادی کی تقریب کے دوران فوٹو اور ویڈیو گرافرز نہ بلائے جانے پر دلہن نے عین موقع پر شادی کرنے سے انکار کردیا۔میڈیا رپورٹ کے مطابق اترپردیش کے ضلع کانپور میں دلہا دلہن کے درمیان شادی ہونے سے قبل ہی شدید قسم کا پھڈا ہوگیا۔ دلہے والوں کی طرف سے شادی کی تقریب میں فوٹو اور ویڈیو گرافرز نہ ہونے پر لڑکی نے شادی کرنے سے منع کردیا اور کہا کہ لڑکے کو ابھی سے میری خواہش اور شوق کا نہیں پتا تو وہ مستقبل میں کیسے میرا خیال رکھے گا۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ شادی کی تیاریاں بھرپور تھیں اور سٹیج خوبصورت سجا ہوا تھا لیکن دلہن کو فوٹوگرافرز نہ ہونے پر غصہ آ گیا۔ بعد ازاں دونوں خاندان نے تقریب وہیں روک دی اور رشتہ ختم کردیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکے اور لڑکی والوں کے درمیان جو تحائف اور پیسوں کا تبادلہ ہوا تھا وہ بھی دونوں نے ایک دوسرے کو واپس کردیے۔
یہ توآپ نے بھارتی دلہنیا سے متعلق پڑھا، دبئی میں رہائش کے دوران ایک روز باباجی سے ان کے ایک ملباری دوست (بھارتی شہر کیرالہ سے تعلق تھا ) کہنے لگے۔۔ آپ لوگوں کی عورتیں کتنی عظیم ہیں! باباجی اپنے ملباری دوست کی بات سن کر حیران ہوکر پوچھ بیٹھے۔۔وہ کیسے؟؟۔۔ملباری دوست کہنے لگا۔۔گزشتہ ہفتہ جب میں آپ کے گھر آیا تھا تو دیکھا آپ کی اہلیہ آپ کی قمیض کا بٹن سی رہی تھیں، جب وہ سلائی سے فارغ ہوگئی تو اس نے اس کی قمیض کو چوما، میری خواہش ہے کہ ہماری بیویاں بھی یہ محبت اور احترام سیکھ لیں! باباجی جھٹ پٹ اپنے ملباری دوست کی بات کی تہہ تک پہنچ گئے، مسکرا کربولے۔۔ وہ قمیض کو چوم نہیں رہی تھیں، بلکہ دھاگہ کاٹ رہی تھیں۔۔ باباجی نے ایک اور دلچسپ قسم کا قصہ ہمیں سنایاجو کچھ اس طرح سے تھا کہ۔۔بیگم صاحبہ کو میاں جی کا میسج آیا۔۔بھوک لگی ہے۔۔بیگم صاحبہ تو ہتھے سے ہی اکھڑ گئیں اور ٹکا کر جواب لکھ مارا۔۔نومی کے ابا، کچھ خدا کا خوف کھائیں، ابھی تو آپ کھانا کھا کر واک کیلئے نکلے ہیں اور اتنی جلدی بھوک بھی لگ گئی۔۔آپ مجھے یہ بتائیں کہ آپ کو کب بھوک نہیں لگتی، اچھا خاصا ناشتہ کرنے کے بعد بھی آپ چائے کے ساتھ بسکٹ کے دو پیکٹ کھا جاتے ہیں۔۔ دوپہر میں آپ کو تگڑا لنچ چاہئے ہوتا ہے اور ڈنر تو آپ ہمیشہ اہتمام سے ہی کرتے ہیں۔۔ رات کو جب بھی جاگ ہوتی ہے تو فریج کو لازمی ’’پھرولتے‘‘ ہیں۔۔یہ کیسی بھوک ہے جو مٹنے کا نام ہی نہیں لیتی؟؟ خوشی کا موقع ہو یا غمی کا، آپ کی بھوک ہمیشہ زکوٹا جن بنی رہتی ہے، غصے میں بھی آپ کو کھانے پینے کا دورہ پڑ جاتا ہے اور خوشی میں بھی آپ کی بھوک دوبالا جاتی ہے۔۔ میں تنگ آ گئی ہوں آپ کی اس بھوک سے۔۔غضب خدا کا اپنی روٹی کھا کر بچوں کے ساتھ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔۔مجھے کھانے پینے کی چیزیں چھپا چھپا کر رکھنا پڑتی ہیں کہ کہیں آپ کے ہتھے نہ چڑھ جائیں۔۔بس اب بھوک کی ڈسکشن کلوز کریں۔۔ میں کھانا کھا چکی ہوں اور اب سونے لگی ہوں۔۔ اور آپ بھی گھر آ کر چپ چاپ سو جانا، آواز نہیں آنی چاہئے آپ کی، سمجھے۔۔میاں جی کاجوابی میسیج آیا۔۔بیگم، راستے میں ایک دوست مل گیا تھا تو وہ مجھے پیزا کھلانے لے آیا ہے، سوچا تم سے بھی پوچھ لوں۔۔بھوک ہے تو لیتا آؤں۔۔چلو خیرہے، سو جاؤ تم۔۔
ایک آدمی نے اپنے گھر پینٹ کرایا۔ کاریگر نے توقع سے اچھا کام کیا تو اسے خوش ہو کر مزدوری کے علاوہ ایک ہزار روپیہ انعام دیا۔اور کہا۔۔یہ لو۔ بیگم کے ساتھ فلم دیکھنے چلے جانا۔۔شام کو دستک ہوئی تو آدمی نے باہر دیکھا۔ کاریگر سوٹ پہن کے کھڑا تھا۔آدمی نے پوچھا۔ کیا بات ہے؟کاریگر بولا۔۔۔ وہ جی۔ بیگم صاحب کو بھیج دیں فلم دیکھنے جانا ہے۔۔۔دنیا کی سب سے چھوٹی لو سٹوری کچھ اس طرح سے لکھنے والے نے بیان کی ہے کہ۔۔ بیگم بولی، اجی سنتے ہو۔میاں منہ بسور کر بولا۔۔ سنتا ہی ہوں، بولنے کب دیتی ہو؟؟ اس کے بعد اس مختصر سی لو سٹوری کی ’’ہیپی اینڈنگ‘‘ نہ ہو سکی۔۔ ایک صاحب اپنی بھابھی کو بہت بری طرح مار رہے تھے۔۔پڑوسی بچانے کے لئے آ گئے۔۔ پوچھا، کیوں ماررہے ہو؟؟ وہ صاحب کہنے لگے۔۔ جس کو بھی موبائل فون پر بات کرتے ہوئے دیکھ کر پوچھتا ہوں، کس سے بات کر رہے ہو، تو وہی بولتا ہے ۔۔تمہاری بھابھی سے۔۔۔ٹی وی لاؤنج میں ساس بہو والا ایک انڈین ٹی وی سیریل دیکھتے دیکھتے اچانک بیوی نے ساتھ بیٹھے شوہر سے بڑے رومانٹنک انداز میں پوچھا۔۔میں سوچتی ہوں کہ اگر میں مر گئی توآپ کا کیا ہوگا؟؟! شوہر بے ساختہ کہہ اٹھا۔۔ لیکن میں تو سوچتا ہوں کہ اگر تم نہ مری تو میرا کیا ہوگا!۔۔ڈاکٹر نے جب انکشاف کیا کہ۔۔ کوئی پرانی بیماری ہے اندر ہی اندر آپ کو کھا رہی ہے۔۔مریض جلدی سے بول اٹھا۔۔آہستہ بولیں باہر ہی بیٹھی ہے۔۔
اب باباجی کا یہ دلچسپ قصہ بھی سن لیجئے۔۔ ہمارے پاس آسٹریلین طوطوں کا ایک جوڑا تھا۔ جن میں سے طوطا اچانک فوت ہو گیا۔ بیچاری طوطی اکیلی رہ گئی۔ بوجہ مصروفیات خود مارکیٹ جا نہ سکا اور جس نے بھی دوسرا طوطا لانے کا وعدہ کیا پورا نہ ہوسکا۔ یوں طوطی کئی ماہ سے اکیلی زندگی گذار رہی تھی۔آج ہم نے ۔۔ارینج میرج کا سوچا اور بالآخر ایک برڈ ہاؤس پہنچے اور ایک برانڈ نیو طوطا لے کر آئے۔۔ تب سے طوطی کے اٹھلانے اور چکرپھیریوں کے تماشے دیکھ رہے ہیں۔ وہ کبھی پر پھیلاتی ہے، کبھی چونچیں مارتی ہے، اور کبھی طوطے کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے آوازیں نکالتی ہے۔جبکہ طوطا صاحب موڈ میں بیٹھے ہیں۔۔۔بیگم نے میری طرف شکایتی نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا، یہ طوطے کے مزاج دیکھ رہے ہیں۔۔ جناب سیدھے منہ بات ہی نہیں کر رہے، وہ بیچاری کتنی کوشش کر رہی ہے۔۔مجھے شکایت کا اصل ہدف معلوم تھا۔۔ دنیا میں ہر نر ظالم ہوتا ہے اور ہر مادہ مظلوم۔۔میں نے بیگم کو یاد دلایا کہ اس بیچارے طوطے کو میں سترہ دوسری طوطیوں کے درمیان سے اٹھا لایا ہوں۔۔ تب سے وہ اسی ایک طوطی کی چیں چیں سن رہا ہے۔۔ ایسے میں اسے تھوڑا سا منہ بسورنے کا حق تو دیں۔۔اس وضاحت کے بعد میری ’’طوطی‘‘ نے چائے کا کپ میز پر پٹخا اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ساری عورتیں ایک جیسی نہیں ہوتیں،کچھ مردوں جیسی بھی ہوتی ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔