tota chasham sahafati leaders ke naam khula khat

طوطا چشم صحافتی لیڈروں کے نام کھلا خط۔

تحریر: اعجاز کھوکھر۔۔

بےحس مطلبی طوطا چشم مفاد پرست اناء پرست کینہ پرور کمیونٹی کے چکڑ چوہدریوں کے نام  ایک صحافی کا کھلا خط ۔۔۔۔سید طاہر علی اکرم لائف ممبر لاہور پریس کلب فالج اٹیک کے باعث ہسپتال میں 15 روز موت و حیات کی کشمکش میں رہنے کے بعد دارفانی سے کوچ کر گئے۔سید طاہر علی اکرم درویش صفت انسان، کم بولتے پر خوبصورت بولتے۔ تحریر انتہائی شاندار الفاظ کا چنائو شاندار۔۔ وہ اس دور کے صحافی تھے جب اخبار کی تحریریں قابل گرفت تھیں۔ قاری بھی اور ’’فرشتے‘‘ بھی خبروں، تحریروں کا احتساب کرتے۔ سماجی رویوں میں انتہائی خوبصورت انسان نے کبھی ادارت کو شکایات کا موقع نہیں دیا۔ کلب کےہر دلعزیز شخص کی موت بڑے سوال چھوڑ گئی۔

 جو میں آپ کے سامنے رکھنے جارہا ہوں۔ ۔کلب کے کسی عہدیدار نے طاہر علی اکرم کی عیادت کے لئے جانا مناسب نہیں سمجھا، کوئی جنازے میں آیا اور نہ ہی کسی نے فون پر لواحقین سے اظہار افسوس کے دو الفاظ بولے۔(اعلیٰ عہدیدار کسی ممبر گورننگ  باڈی کو ان کے جنازے پر بھیج سکتے تھے)۔ دُعائے صحت کی اپیل میں نے کلب منیجر سے کمرے میں بیٹھ کر زبردستی لکھوائی اور اسےکلب کے نوٹس بورڈ پر ڈسپلے کرایا۔۔ صدر سے لے کر جوائنٹ سیکرٹری تک میں ذاتی طورپر رابطے میں رہا۔ ہر بندے کو درخواست بھیجی اپنے دوست کے بہتر علاج کے لئے مدد کی اپیل کرتا رہا۔۔۔ کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ کلب نے وزیراعلیٰ سے رابطہ کیا اور نہ وزیر صحت کو بھی ان کے علاج کے لئے درخواست بھیجی۔

ان چلتی پھرتی لاشوں نے طاہر علی اکرم کی وفات پر ان کے اہلخانہ کے لئے تعزیتی نوٹ جاری کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا۔ (میرے خیال میں یہ کسی بھی وفات پا جانے والے صحافی کیلئے کلب کی طرف سے تمغہ امتیاز سے کم نہیں ہوتا)۔انتہائی معذرت کے ساتھ ۔۔کسی خوشدامن بھتیجے، بھانجوں، پھوپھا، پھپھیوں کے انتقال پر تعزیتی بیان جاری کرنے والوں کلب عہدیداروں کے پاس غم کی گھڑی میں انتہائی سینئر ممبر کے غمزدہ بچوں، بھائیوں کی دلجوئی کے لئے چند الفاظ بھی نہیں تھے۔ یوں تو ہم دن رات الفاظ کا بیوپار کرتے ہیں۔

تو پھر میں پوچھتا ہوں آپ کا کلب کے لئے چنائو میں آنے کا مقصد کیا ہے۔ کیا آپ نے کلب کے اندر سڑکیں، پلیاں، ڈسپنسریاں بنائی ہیں۔۔ انشورنس کے لئے پریمیم آب کے پاس نہیں، کینٹین آپ نہیں چلا سکتے۔ بیمار کے علاج کے لئے آپ سپورٹ نہیں کر سکتے۔ دنیا میں کوئی صحافی مرے آپ کو بہت دکھ ہوتا ہے۔ وہ کیوں ہوتا ہے سب کو پتہ ہے۔ آپ کے پاس30 سال تک رہنے والا مر گیا۔۔ اسے آپ نے کیڑا مکوڑا سمجھا۔

سی پی این ای، اے پی این ایس  کے الیکشن پر صدر کے چنائو پر آپ نے فوری مبارکباد کا پیغام جاری کر دیا اور لکھا کے آزادی صحافت کے لئے آپ کی خدمات قابل قدر ہیں۔۔ (آزادی صحافت) پتہ نہیں کہاں رہتی ہے اور کون ہے۔ 55 سال کا ہو گیا ہوں میں نے آج تک اسے نہیں دیکھا۔

دوسری طرف درجن کےقریب پنجاب یونین آف جرنلٹس (پی یو جیز)جو اگر کسی کی بکری 2 بچے پیدا کر دے تو خوشی سے نہال ہو جاتی ہیں ایتھوپیا میں کوئی صحافی مر جائے تو یہاں پی یو جے 6 روزہ سوگ کا اعلان کر دیتی ہیں۔ ان کو تو میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ ان میں ایک پی یو جے کا صدر میرا بھائی ہے جو جلے ہوئے صندوقوں سے اظہار افسوس کرتے، جناح ہائوس پہنچ گیا۔۔ اور طاہر علی اکرم کے تابوت کو کندھا دینے نہیں پہنچا۔ یہ خط میرے سب ایڈیٹر بھائیوں کے لئے خصوصی یاددہانی ہے۔ آج طاہر علی اکرم مرا ہے، کل اعجاز کھوکھر پھر آپ کی باری ہے۔ کلب سیاست میں دو طبقے۔ ایک طبقہ اشرافیہ کا ہے دوسرا طبقہ آپ نے ڈھونڈنا ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں آپ کو پتہ ہے۔۔ تو بھائیو! جاگو۔۔ اس وقت سے ڈرو جو ہم سب پر آنا ہے۔اَللہ آپ کا اورمیرا حامی و ناصرہو۔۔(اعجاز کھوکھر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں