دوستو، آپ لوگوں نے اکثر ٹرک اور بسوں کے پیچھے یہ فقرہ لکھا دیکھا ہوگا۔۔ توں لنگ جا ساڈی خیر اے۔۔ اس فقرے کا اگر پوسٹ مارٹم کیا جائے تو یہ ایک طرح سے ”فوک وزڈم“ ہے۔۔ اس چھوٹے سے جملے میں کافی معنویت،گہرائی اور گیرائی موجود ہے۔۔ یہ فقرہ ایک طرح سے خود کو برداشت، تحمل اور صبر اختیار کرنے کا بھی کہہ رہا ہے۔۔ چلیں آج پھر اسی حوالے سے کچھ روایتی اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں۔۔
رمضان المبارک کی تمام رونقیں، بہاریں اور برسہابرس پرانی روایات کو اس بار کورونا وائر س اور لاک ڈاؤن نے کافی نقصان پہنچایا ہے۔۔ نہ وہ افطاری کے موقع پر بازاروں میں رش ہے، نہ پکوڑوں، سموسوں کی خوشبوئیں آرہی ہیں۔۔ نہ کھجلہ،پھینی کی کوئی بات کررہا ہے۔۔ نہ گرما گرم جلیبیاں تیار کی جارہی ہیں۔۔ نہ سڑکوں پر راہ گیروں اور مسافروں کو روزہ کھلوایا جارہا ہے، شربت بانٹا جارہا ہے نہ سڑکوں پر افطارکے خوان سجے ہیں۔۔ یہ سارے حالات دیکھ کر کورونا وائرس یا رمضان المبارک ایک دوسرے سے لازمی کہہ رہے ہوں گے۔۔ توں لنگ جا ساڈی خیر اے۔۔۔حکومت کی جانب سے اعلان کے بعد جب پیر کے روزلاک ڈاؤن کھلا تو بازاروں، مارکیٹوں میں عوام کا بے پناہ رش دیکھ کر۔۔کورونا وائرس بھی بے ساختہ بول پڑا۔۔ توں لنگ جا ساڈی خیر اے۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ۔۔ ہمارا ملک دنیا کا سب سے انوکھا اور عجیب ملک ہے، جہاں دل گھبرارہا ہوتو لوگ کولڈ ڈرنک کو میڈیسن کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔۔ہمارے پیارے دوست بھی فرماتے ہیں کہ۔۔ دنیا میں سب سے زیادہ خوش اخلاق موٹے لوگ ہوتے ہیں، کیوں کہ نہ وہ زیادہ دیرلڑسکتے ہیں اور نہ بھاگ سکتے ہیں۔۔
جب ہم گاڑیوں پر سفر کر رہے ہوتے ہیں تب ہماری نظر سڑک پر دوڑنے والی دوسری گاڑیوں پر بھی پڑتی ہے اور بعض دفعہ ان گاڑیوں پر لکھے ہوئے جملے،اشعار،کہاوتیں پڑھنے میں ہمیں کافی دلچسپ اور کبھی کبھی کافی عجیب وغریب بھی لگتی ہیں۔ایسی باتیں زیادہ تر ہمیں بس،ٹرک،رکشے وغیرہ کے پیچھے لکھی نظر آتی ہیں۔جب ہم ان باتوں کوپڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ واقعی یہ باتیں اسی گاڑی کے لیئے لکھی گئی ہیں۔۔ہم چونکہ ”بے کار“ انسان ہیں، اس لیے ہمارا سفر زیادہ تر پبلک ٹرانسپورٹ میں ہی ہوتا ہے۔۔ کچھ تحریریں ایسی بھی ہیں جن کو پڑھتے ہی اوسان خطاہوجائیں،مثلاًجونہی بس میں چڑھیں تو سب سے پہلے جس فقرے پر نظر پڑتی ہے جو کہ سامنے ہی لکھا ہوتا ہے کہ۔۔ سفر سے پہلے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیں، ہو سکتا ہے یہ آپ کی زندگی کا آخری سفر ہو۔۔۔۔خیبرپختونخوا میں اکثر رکشوں پرپشتومیں اکثر لکھا ہوا دیکھا ہے کہ۔۔ ڑوند د جانان سرہ۔۔۔ مرگ د ایمان سرہ۔۔یعنی۔۔۔زندگی محبوب کے ساتھ (چاہتا ہوں) اور موت ایمان کے ساتھ۔۔لاہور میں اکثر بسوں، ویگنوں اور رکشوں پر آپ کو داتا کی دیوانی اور راولپنڈی اسلام آباد کی بسوں، ویگنوں اور رکشوں پر آپ کو میں نوکر بری سرکار دی آں لکھا ہوا ملے گا۔۔۔
آپ نے دوران سفر اکثر ایسے جملے ضرور دیکھے ہوں گے۔۔اسی طرح سے آدمی، آدمی کو ڈس ریا ہے، سانپ بیٹھا ہنس ریا ہے۔۔ڈرائیور کی زندگی بھی عجب کھیل ہے، موت سے بچا تو سینٹرل جیل ہے۔۔ یہ جینا بھی کیا جینا ہے، جہلم سے آگے دینہ ہے۔۔ ماں کی دعا اے سی کی ہوا۔۔عاشقی کرنا ہے تو گاڑی چلانا چھوڑدو، بریک بے وفا ہے تو رکشا چلانا چھوڑ دو۔۔ محبت کو زمانے میں گل نایاب کہتے ہیں، ہم آپ کو بیٹھنے سے پہلے آداب کہتے ہیں۔۔ تم خود کو کترینہ سمجھتی ہوتو کوئی غم نہیں، ذرا غور سے دیکھو ہم بھی سلمان سے کم نہیں۔۔ قتل کرنا ہے تو نظر سے کرتلوار میں کیا رکھا ہے، سفر کرنا ہے تو رکشہ میں کر کار میں کیارکھا ہے؟؟۔۔چلتی ہے گاڑی اڑتی ہے دھول، جلتے ہیں دشمن کھلتے ہیں پھول۔۔میرے دل پر دکھوں کی ریل گاڑی جاری ہے، خوشیوں کا ٹکٹ نہیں ملتا غموں کی بکنگ جاری ہے۔۔ کبھی سائیڈ سے آتی ہو کبھی ہارن دیتی ہو، میری جان یہ بتاؤ مجھے یوں کیوں ستاتی ہو؟؟۔۔کون کہتا ہے کہ موت آئے گی تو مرجاؤں گا،رکشہ والا ہوں کٹ مارکر نکل جاؤں گا۔۔ تپش سورج کی ہوتی ہے جلنا پیٹرول کو ہوتا ہے، قصورسواری کا ہوتا ہے پٹنا ڈرائیور کو ہوتا ہے۔۔ امریکا حیران جاپان پریشان، میڈان پاکستان۔۔ پریشان نہ تھیویں میں ول آساں (پریشان نہ ہونا میں پھر آؤں گا)۔۔باجی انتظار کا شکریہ۔۔چل پگلی صنم کے شہر۔۔صدقے جاؤں پھر کسی کے کام نہ آؤں۔۔کوئی دیکھ کر جل گیا، کسی نے دعا دی۔۔ہارن دے رستہ لے۔۔ جلو مت کالے ہوجاؤگے۔۔فاصلہ رکھیئے اس سے قبل کہ ہماری منزل ایک ہوجائے۔۔ گڈی جاندی اے چھلانگا ماردی۔۔شرارتی لوگوں کے لیے سزا کا خاص انتظام ہے۔۔نیک نگاہوں کو سلام۔۔ نصیب سے زیادہ نہیں وقت سے پہلے نہیں۔۔پیار کرنا صحت کے لیے مضر ہے، وزارت عشق حکومت پاکستان۔۔
میں دیکھنے میں بھولی ہوں، پر بھاگنے میں گولی ہوں۔۔۔ایسے نہ دیکھ اپنا بنا لوں گا۔۔ اس طرح کے کئی مزاحیہ جملے آپ نے سڑکوں پر بھاگتی گاڑیوں کے پیچھے اکثر پڑھے ہوں گے، ڈرائیورز کہتے ہیں کہ یہ جملے وہ صرف لوگوں کو ہنسانے کے لیے لکھتے ہیں۔ڈرائیورز کا کہنا ہے کہ یہ جملے اس وجہ سے لکھتے ہیں کہ سواری آتی ہے خوش ہو جاتی ہے، مسافر بھی خوش ہو جاتے ہیں۔ بس اسے شغل میلہ کہہ سکتے ہیں۔۔ تیز چلانا میری مجبوری ہے، کیونکہ دنیا بہت تیز جا رہی ہے۔۔کی ویکھنا ایں، نظر لانی اے۔۔سڑیا نہ کر،دعا کریا کر۔۔۔بلے میرا لال طیارہ۔۔اودھیاں رحمتاں (ساتھ اوپر کی طرح انگشت شہادت)۔۔نواں آیاں ایں۔۔نی اے تو اوہو ای اے۔۔ابھی کل ہی ایک رکشے پر دیکھا۔۔۔ریلیکس یار۔۔کبھی کبھی ایسے فضول جملے بھی لکھے ہوتے ہیں کہ۔۔دیکھ ضرور،مگر پیار سے۔۔وقت نے ایک دفعہ پھر دلہن بنا دیاوغیرہ وغیرہ۔۔ایک سائلہ کو میرے دل کی ضرورت ہے مگرمیری گھر والی سخاوت نہیں کرنے دیتی۔۔۔جب پیسہ بولتا ہے تو اس کی گرائمر کوئی چیک نہیں کرتا۔۔کوئی بتاسکتا ہے کہ ”جلن“ کی آگ کونسی فائر بریگیڈ بجھا سکتی ہے؟۔۔ بات کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں جاپہنچی۔۔ جیساکہ ہم نے پہلے آپ کو بتایا کہ ہمارا ملک اتنا عجیب ہے کہ یہاں شوگر کے مریض حلوہ، جلیبیاں اور گلاب جامن کھا کر اوپر سے چائے پھیکی پیتے ہیں کہ انہیں شوگر ہے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ایک چھری یا چاقو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ذبح نہ کرسکا، آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو نہ جلا سکی،ایک مچھلی حضرت یونس علیہ السلام کو نہ کھا سکی۔سمندر یا دریا حضرت موسٰی علیہ السلام کو نہ ڈبو سکا،ہمیشہ اللہ کے ساتھ لگاؤ رکھیئے اللہ آپکی حفاظت کرے گا۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔