crime free city 2

توہم پرست یا۔۔؟؟

تحریر: جاوید چودھری۔۔

ڈاکٹر کاشف مصطفی میرے دوست ہیں‘ جنوبی افریقہ میں رہتے ہیں‘ دل کے سرجن ہیں‘ نیلسن مینڈیلا کے فزیشن تک رہے ہیں لیکن طبعاً یہ خوف ناک سیاح ہیں‘ دنیا کو ایک سرے سے دیکھ رہے ہیں اور دوسرے سرے کی طرف دوڑ رہے ہیں۔دیوار گریہ کے آس پاس‘‘ کے نام سے اسرائیل اور فلسطین کا شان دار سفرنامہ لکھا اور کمال کر دیا‘ یہ سفرنامہ ان کے ساتھ میرے تعارف کا ذریعہ بنا اور ہم نے پھر اکٹھے سفر بھی کیا‘ یہ دنیا کے ان چند ہزار لوگوں میں شامل ہیں جو دوسروں کو متاثر کرتے ہیں‘ میں بھی ان سے متاثر ہوں‘ ان کی کمپنی کو انجوائے کرتا ہوں اور ہم ان شاء اللہ بہت جلد لاطینی امریکا کو ڈسکور کرنے نکلیں گے۔

مجھے ڈاکٹر کاشف مصطفی نے چند دن قبل اپنی زندگی کا ایک حیران کن واقعہ بھجوایا‘یہ واقعہ کیا تھا‘ آپ ان کی زبانی سنیں’’قریب سترہ سال پرانی بات ہے‘ میں لندن کے ایک بڑے اسپتال میںچھوٹے سے عہدے پر فائز تھا‘ تنخواہ معمولی تھی‘ اسپتال کا دو کمروں کا فلیٹ تھا اور ذمے داریوں کا ایک نہ ختم ہونے والا انبار تھا‘ سفید پوشی میںبمشکل گزارہ ہوتا تھا‘ مجھے فیملی کے ساتھ دسمبر کی چھٹیوں میں پاکستان آنے کا اتفاق ہوا‘ اہلیہ نے سپر مارکیٹ میں درزی کے پاس جانا تھا‘ میں بطور ڈرائیور ان کے ساتھ تھا‘ مارگلہ کی پہاڑیوں پر چنار کے پتوں کی آخری سرخی بھی دم توڑ رہی تھی۔

پہاڑیوں سے آتی یخ بستہ ہوائوں نے لوگوں کو گھروں تک محدود کر دیا تھا‘ میں نے خالی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر دی‘ بیگم درزی کے پاس چلی گئیں اور میں گاڑی میں بیٹھ کر دور سے انھیں درزی سے بحث کرتے دیکھنے لگا‘یکایک‘ نہ جانے کب اور کہاں سے ایک کالا بھجنگ قسم کا فقیر آیا اور اہلیہ کے قریب آ کر کھڑا ہوگیا‘ اس کے کھچڑی نما بال اس کے کندھوں پر لہرا رہے تھے‘ گلے میں چمڑے کا کشکول تھا اور آنکھوں میں ایک نا قابل بیان تپش تھی‘اہلیہ تھوڑی دیر اس کی موجودگی سے بے خبر رہیں لیکن پھر ایک دم پلٹ کر اسے دیکھا‘میں دور گاڑی میں بیٹھا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا‘ میرے دل میں عجیب سی بے چینی پیدا ہوئی اور میں گاڑی سے اتر کر اس فقیر کی جانب چل پڑا۔

اتنی دیر میں اہلیہ نے پرس میں سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور اس فقیر کے کشکول میں ڈال دیا ( یہ اس زمانے کے حساب سے مناسب رقم تھی)‘ فقیر نے نوٹ کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اور ٹکٹکی باندھ کر اہلیہ کو دیکھتا رہا‘ لگتا تھا اس کی آنکھوں سے گرداب ابل رہے ہیں‘ میں قریب پہنچا تو اس نے میری طرف کوئی توجہ نہ دی‘ اس نے کشکول سے سو روپے کا نوٹ نکالا اور یکایک اسے اپنے منہ میں ڈال لیا‘ کچھ دیر منہ میں رکھنے کے بعد اس نے وہ نوٹ نکالا اور اہلیہ کے ہاتھ پر رکھ دیا‘ میں‘ اہلیہ اور درزی حیرت سے اس فقیر کو دیکھ رہے تھے‘ حیرت انگیز طور پر نوٹ بالکل خشک تھا‘پھر اس فقیر نے اہلیہ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا ’’بیٹی ہم لینے والوں میں سے نہیں ہیں‘ دینے والوں میں سے ہیں‘‘ وہ اتنا کہہ کر چل پڑا۔

ہم دونوں کی توجہ نوٹ کی طرف تھی ‘ اہلیہ نوٹ کو حیرت کی کیفیت میں ہاتھ میں اٹھاکر کھڑی تھیں‘ اس نوٹ کے چاروں کونوں پر مختلف رنگ کی سیاہی میں کسی انجانی زبان میں کچھ لکھا تھا‘ہم نے ہکا بکادائیں بائیں دیکھا‘وہ فقیر کہیں دکھائی نہ دیا‘ ہم دوڑے اور آس پاس کی گلیاں تک چھان ماریں لیکن اس کا پتا نہ چل سکا‘ ہم نوٹ لے کر چپ چاپ گھر آ گئے‘اس دن کے بعد یوں لگا کہ گنج چہل ابدال کے خزانے ہم پر کھول دیے گئے ہیں‘ ہم نے جس مٹی کو چھوا وہ سونا بن گئی‘ ہم نے جو چاہا ہمیں وہ فوراً مل گیا‘ ہم آج بھی جب اسلام آباد جاتے ہیں تو بے اختیار سپر مارکیٹ کے قریب رک جاتے ہیں اور ہماری آنکھیں اس فقیر کو ڈھونڈتی رہتی ہیں لیکن وہ مرد قلندر ہمیں دوبارہ کبھی نہ مل سکا‘‘۔

یہ واقعہ اگر کسی عام انسان نے سنایا ہوتا تو شاید میں اسے ہنس کر سائیڈ پر رکھ دیتا مگر یہ ڈاکٹر کاشف مصطفی نے سنایا اور یہ نہ صرف جہاں دیدہ سیاح ہیں بلکہ یہ کارڈیک سرجن بھی ہیں اور یہ اس دور کے جدید ترین معاشروں برطانیہ اور جنوبی افریقہ میں بھی رہ چکے ہیں چنانچہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں یہ تو ہم پرست نہیں ہیں لہٰذا یہ واقعہ قابل توجہ ہے‘ میری اپنی زندگی میں ایسے بے شمار واقعات پیش آ چکے ہیں‘ میں جب بھی ان واقعات کے بارے میں سوچتا ہوں تو یہ مجھے بھی ناقابل یقین محسوس ہوتے ہیں۔

خدا گواہ ہے یہ واقعات اگر میرے اپنے ساتھ پیش نہ آئے ہوتے تو میں ان پر کبھی یقین نہ کرتا مثلاً پہلا واقعہ آج سے 20 سال پہلے راول ٹائون میں پیش آیا تھا‘ میری بیوی انتہائی مذہبی‘ عبادت گزار اور خدمت پرست ہے‘ یہ دوسروں کو کھانا کھلا کر بہت خوش ہوتی ہے‘ میں ان دنوں اخبار میں سب ایڈیٹر تھا‘ میرے پاس پرانا موٹر سائیکل تھااور ہم ڈیڑھ مرلے کے مکان میں رہتے تھے‘ ایک کمرہ‘ ایک لائونج‘چھوٹا سا باتھ روم او ر پانچ سات فٹ کا صحن تھا اور بس ہمارا مکان ختم‘ میں ایک دن گھر واپس آیا تو میں نے صحن میں دو جوگی ٹائپ بابے دیکھے‘ یہ زمین پر بیٹھے تھے‘ ان کے سامنے کھانے کی پلیٹیں رکھی تھیں اور یہ مزے سے کھانا کھا رہے تھے۔

میں نے حیرت کے عالم میں بیوی کی طرف دیکھا‘ اس نے ڈرتے ڈرتے بتایا‘ یہ گلی سے گزر رہے تھے‘ بھوکے تھے‘ کھانا مانگ رہے تھے‘ میں نے انھیں صحن میں بٹھا کر کھانا دے دیا‘ مجھے بڑا غصہ آیا‘ میں اسے ہمیشہ کہتا رہتا تھا تم کسی کے لیے دروازہ نہ کھولا کرو لیکن یہ ہرگزرتے فقیر کو خیرات دینا اپنا مذہبی فرض سمجھتی تھی‘ میں ناراض ہو کر بیٹھ گیا اور جوگیوں کو کھانا کھاتے دیکھنے لگا‘ وہ مزے سے کھانا کھا رہے تھے اور مجھے دیکھ رہے تھے‘ کھانا کھانے کے بعد بزرگ جوگی نے لمبا ڈکار مارا اور میری بیوی سے کہا ’’کیا تمہارے گھر میں کوئی سکہ ہے‘‘ میں نے غصے سے جوگی کی طرف دیکھا‘ میں اس ہتھکنڈے سے اچھی طرح واقف تھا۔نوسر باز عموماً پہلے سکہ مانگتے ہیں اور اس کے بعد نوٹ یا زیورات منگواتے ہیں اور پھر یہ سب کچھ سمیٹ کر رفو چکر ہو جاتے ہیں‘ میں نے بیوی کو آنکھوں سے منع کر دیا اور جوگیوں کو کہا ’’آپ نے کھانا کھا لیا ہے‘ اب آپ ہمیں معاف کردیں اور اللہ حافظ‘‘ لیکن جوگیوں نے سکہ لیے بغیر جانے سے انکار کر دیا‘ میں نے جیب سے پچاس پیسے کا سکہ نکال کر انھیں دے دیا‘ بڑے جوگی نے قہقہہ لگا کر کہا ’’نہیں تم نہیں‘ یہ سکہ میری بیٹی دے گی‘‘ میں نے وہ سکہ غصے سے بیوی کو پکڑا دیا اور اس نے جوگی کے ہاتھ پر رکھ دیا۔بڑے جوگی نے سکہ منہ میں ڈالا‘ دانت سے اسے دبایا‘ سکہ منہ سے نکالا اور میری بیوی کے حوالے کر دیا‘ وہ دونوں جوگی اس کے بعد اٹھے‘ میری بیوی کے سر پر ہاتھ رکھا‘ مسکرا کر میری طرف دیکھا اور گھر سے باہر نکل گئے‘ میں نے گلی سے ان کی آخری آواز سنی ’’رزق کبھی ختم نہیں ہو گا‘ خوشیاں کبھی کم نہیں ہوں گی اور رکاوٹیں ساری دور ہوتی رہیں گی‘‘ میں نے غصے سے دروازہ بند کر دیا لیکن حیران کن حد تک اس واقعے سے اگلے دن میری زندگی 180 درجے پر تبدیل ہونے لگی۔

میں اس واقعے کو محض اتفاق سمجھ سکتا تھا لیکن دس سال بعد میری سید پور میں ایک درویش سے ملاقات ہوئی‘ یہ سید پور سے اوپر پہاڑ پر رہتا تھا‘ میں اسلامک یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کے ساتھ اسے ملنے گیا تھا‘ میں بار بارکہہ رہا تھا‘ آپ لوگ اتفاقی واقعات کو روحانیت میں تبدیل کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے رہتے ہیں‘ بابا ہر بار ہنس کر میری بات ٹال دیتا تھا۔میں نے جب چوتھی مرتبہ یہ کہا تو وہ غصے میں آگیا اور کہا ’’تم اپنے آپ کو سمجھتے کیا ہو‘ تم نے دو بندوں کو کھانا کھلایا‘ ایک اٹھنی دی‘ غصے سے دروازہ بند کیا اور بس‘ تمہاری کوئی نیکی کام آ گئی تھی‘ تم اگر اس دن ان دونوں کو اٹھا دیتے تو تم آج اپنی ٹانگوں پر نہ ہوتے‘ لنگڑے ہو کر زندگی گزارتے‘ جائو دفع ہو جائو اور اپنی بیوی کا شکریہ ادا کرو‘ اس نے تمہیں بچا لیا‘‘ میں سر سے لے کر ٹانگوں تک پسینے میں بھیگ گیا‘ میری زبان گنگ ہو گئی‘ وہ درویش تھوڑی دیر سرخ آنکھوں سے مجھے دیکھتے رہے‘ پھر گھسٹ کر میرے پاس آئے‘ مجھے تھپکی دی اور کہا ’’جا اب اس تھپکی کا نتیجہ بھی دیکھ لیکن خبردار جو تم دوبارہ ادھر آئے‘ دفع ہو جائو‘‘ آپ یقین کریں میں گھبرا گیا‘ میں اٹھا اور اس کے بعد دوبارہ کبھی سید پور گائوں نہیں گیا‘ پیچھے رہ گئی تھپکی تو اس نے واقعی کمال کر دیا‘ مجھے اس کے بعد آج تک کبھی تھکاوٹ نہیں ہوئی اور مجھے کبھی بھوک نہیں لگی۔

آپ مجھے اور ڈاکٹر کاشف مصطفی کو توہم پرست کہہ سکتے ہیں لیکن آپ میکڈونلڈ کے واقعے کو کہاں رکھیں گے؟ میکڈونلڈ دو بھائیوں رچرڈ میکڈونلڈ اور موری میکڈونلڈ نے1948میں کیلی فورنیا میں بنایا تھا‘ یہ ایک نیا آئیڈیا تھا اور یہ شروع میں بری طرح فیل ہو گیا تھا‘ یہ دونوں بھائی ایک دن گاہکوں کا انتظار کرتے کرتے تھک گئے اور ریستوران بند کر دیا لیکن پھر اچانک ایک چھوٹا سا بچہ آیا‘ کھڑکی بجائی اور ایک برگر مانگا‘ رچرڈ نے انکار کر دیا لیکن موری نے بچے کو رکنے کا کہا‘ چولہا جلایا‘ گوشت گرم کیا اور برگر بنا کر بچے کو دے دیا‘ بچے نے پیسے دیے مگر اس نے اس سے پیسے نہیں لیے‘ بچے نے سڑک پار کی اور جنگل میں غائب ہو گیا۔

بس بچے کے جانے کی دیر تھی میکڈونلڈ کے سامنے گاڑیوں کی لائین لگ گئی اور پھر میکڈونلڈ پوری دنیا میں میکڈونلڈ ہو گیا‘ وہ بچہ کون تھا اور کہاں سے آیا تھا؟ کمپنی آج تک اسے تلاش کر رہی ہے لیکن وہ نہیں ملا‘اس کے بعد میکڈونلڈ کی روایت ہے یہ اپنے ہر ریستوران کے پہلے دن بچوں بالخصوص یتیم بچوں کو فری برگر دیتے ہیں اور سوچتے ہیں شاید وہ بچہ ان بچوں میں شامل ہو کر دوبارہ آ جائے۔(بشکریہ ایکسپریس)

انسٹاگرام  اب فیس بک جیسا فیچر متعارف کرائے گا۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں