تحریر: شکیل احمد بازغ۔۔
آپ کسی قابل شخص کو سیکنڈز میں نااہل ثابت کرسکتے ہیں۔ بس اسے ایسے سوالوں میں الجھا دو جو بظاہر نصابی یا جنرل نالج کے ہوں لیکن عمومی طور پر لوگ ان سے ناواقف ہوں۔ پنجاب حکومت نے سرکاری سکولز کے اساتذہ کی چھانٹی کا فیصلہ کیا۔ اس سے پہلے ہم نے دیکھا تھا کہ سرکاری اسکولز کو اونے پونے بیچنے کا منصوبہ سامنے آیا تھا۔ تب محسن نقوی متحرک تھے۔ لیکن ردعمل کے باعث اساتذہ کے پیٹ پر لات مارنے کاپروگرام وقتی طور وڑ گیا۔ لیکن چونکہ حکومت پنجاب یہ پہلے سے ہی طے کر چکی کہ بڑے سیٹھ کو صوبے کا تعلیمی نظام تھما کر تعلیمی اخراجات سے جان چھڑا لی جائے۔ اسی ضمن میں اساتذہ کی چھانٹی در چھانٹی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے ٹی این اے ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ یعنی جو اساتذہ پہلے تمام سرکاری امتحانات پاس کرکے میرٹ پر کوالیفائی کرکے ملازمت حاصل کرچکے۔ اب انکی اہلیت دوبارہ سے جانچی جائیگی۔ حکومت کی جانب سے ایک طرح سے یہ اعتراف ہے کہ متعارف و مستعمل ملازمت کا طریقہ مبہم بلکہ سراسر غلط تھا۔ حالانکہ اب تو کم و بیش ہر سرکاری سکول میں ماسٹرز یا ایم فل ٹیچرز تعینات ہیں۔ وہ سپیشلائزڈ بھی ہیں۔ سالہا سال سے بچوں کو پڑھانے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ اب انکی اہلیت جانچنے کا خیال کس خیال سے آیا اب یہ بات اظہر من الشمس ہے۔ بہرحال ٹی این اے ٹیسٹ کے پہلے مرحلے میں پنجاب بھر کے ٹیسٹنگ سنٹرز سے جو اطلاعات موصول ہوئیں انکے مطابق بیشتر سنٹرز پر اساتذہ پورا دن حاضر ہی نہ ہوئے۔ یہ بھی سننے میں آیا کہ جو اساتذہ من مرضی سے ٹی این اے ٹیسٹ دینے کیلئے حاضر ہونگے وہ حکومت کے اس اقدام کے حمایت یافتہ تصور ہوکر عدالت سے اس کے خلاف رجوع کرنے سے قاصر ہوں گے۔
ٹی این اے ٹیسٹ کے پہلے مرحلے کا قصہ تمام ہوا۔ وزیر تعلیم پر سی ایم پنجاب کی جانب سے اس عظیم ناکامی کے سبب برہمی کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ وزیر تعلیم جو کبھی سیکرٹری تعلیم ہوا کرتے تھے۔ پرانے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے پنجاب کے گاؤں گاؤں شہر شہر جاکر عوام کیساتھ مل کر اساتذہ یونین سربراہان سے مذاکرات کا عندیہ دیا ہے۔ تاکہ وہ عوام کو بتا سکیں کہ اساتذہ نااہل ہیں اور حکومتی اقدام درست ہے۔ جو کہ ہونے والا نہیں۔ اس وقت تمام اساتذہ یونیئنز متحد ہو چکیں اور سب نے جرات مندانہ طور پر حکومتی جابرانہ وار کو ناکام بنادیا۔ ملک عملاً عالمی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کے جنبشِ ابرو کی پیروی میں چل رہا ہے۔ عالمی طاقتیں پاکستان کے تمام نفوس کو ابھرنے سے پہلے ختم کرنے پر تُلی ہیں۔ پہلے ہی ہمارے ملک کا نظامِ تعلیم بین الاقوامی معیارات کی گرد کو بھی نہیں چھو سکتا۔ کیا قوم کی نسلوں کیلئے دورِ جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم سے دور رکھنا اساتذہ کا قصور ہے یا آپ کے ان فیصلوں کا جس پر آپ خود کی نا اہلی چھپا کر اساتذہ کے چولہے ٹھنڈے کرنے پر تُلے ہیں۔ نا اہل ہیں وہ حکمران جو قوم کو نہ تو دنیا کے مقابلہ کرنے کی تعلیم دے سکے اور نہ ان کی معاشی حالت سدھار سکے۔ تعداد میں اسی یا سو بچوں کی کلاس میں ایک استاد آدھ گھنٹے میں کیا تعلیم دے گا کیا توجہ دے گا۔ نظام آپ اپنا درست کیجئے یہ اساتذہ قابل بھی ہیں اور آپ کو آپ کی مجموعی اہلیت سے بہتر مؤثر تعلیمی نظام تک بنا کر دے سکتے ہیں۔ آپ ان کی اہلیت سے استفادہ حاصل کرنے کا ظرف اپنائیں۔ جو قوم استاد کا احترام نہیں کرتی تباھی و نامرادی اس کا مقدر ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔۔(شکیل احمد بازغ)۔۔