تحریر: محمد عامر خاکوانی
ٹک ٹاک ایک معروف چینی موبائل ایپ ہے۔اسے ویڈیو شیئرنگ سوشل نیٹ ورک سروس کہہ سکتے ہیں۔ ٹک ٹاک میں تین سے پندرہ سکینڈز کی شارٹ میوزک، کامیڈی، ڈانس،ٹیلنٹ ویڈیوز بنائی جاسکتی ہیں۔صرف تین سال پہلے یہ ایپ چین سے باہر کے ممالک میں متعارف کرائی گئی اور اپنے مخصوص فارمیٹ کی وجہ سے اسے غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس ایپ سے دو ارب کے قریب ویڈیوز ڈاﺅن لوڈ ہوچکی ہیں۔ ٹک ٹاک پر ویڈیوز بنا نا اور اپ لوڈ کرنا بہت آسان ہے، چند سکینڈ ز کے لئے کسی گانے پر پرفارم کرو، کوئی ہیجان خیز ڈانس کرو، عجیب وغریب مکالمہ بولو، کوئی مزاحیہ حرکت، سلطان راہی ٹائپ کوئی بڑھک یا اسی طرح کی کوئی بھی ایسی حرکت جو دیکھنے والے کو تفریح فراہم کر سکے۔ ایسی وڈیوز عام طور پر وائرل ہوجاتی ہیں اور پھر مختلف طریقوں سے کمائی کا باعث بھی بن جاتی ہیں۔
ٹک ٹاک کچھ عرصے سے مختلف ممالک میں پابندیوں کا شکار ہے، امریکہ میں صدر ٹرمپ نے اس پر پابندی لگانا چاہی، اگرچہ وہ ابھی تک پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکے ۔ بھارت میں ٹک ٹاک پر پابندی لگائی جا چکی ہے، بھارت میں تو خیر چین مخالف سوچ بنیادی وجہ تھی۔ بنگلہ دیش اور انڈونیشیامیں بین ہوئی، پہلے حکومت پاکستان نے بھی پابندی عائد کی ہے۔ امریکی صدر کا خیال ہے کہ ٹک ٹاک چینی حکومت کے ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے اور اس سے امریکہ کے لئے نیشنل سکیورٹی ایشوز پیدا ہو رہے ہیں۔ بعض جگہوں پر ٹک ٹاک پر غیر اخلاقی مواد نشر کرنے کا الزام بھی ہے۔ پاکستان میں پابندی اسی تناظر میں لگائی گئی۔
ٹک ٹاک پر موجود خاصا مواد قابل اعتراض ہے۔ اپنی ویڈیوز وائرل کرنے یعنی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پھیلانے کے چکر میں لوگوں نے عجیب وغریب، مضحکہ خیز بلکہ بعض اوقات تو پاگلوں والی حرکتیں تک کی ہیں۔ مجھے ایک ٹک ٹاک ویڈیو بھیجی گئی، پاکستان کا ایک نوجوان گانا گا رہا ہے، جس میں بار بار ٹٹی (Shitt)کے الفاظ آتے تھے۔ ممکن ہے اس کے خیال میں لوگ اس پر ہنس پڑیں گے۔ خیر یہ تو بدذوقی والا معاملہ ہے، مگر ایسی ویڈیوز کو نظرانداز کیا جا سکتا ہے۔ خطرناک پہلو یہ ہوا کہ بہت سے لڑکیوں نے ٹک ٹاک سٹار بننے کے چکر میں نہایت فحش، ولگر ویڈیوز بنا ڈالیں۔ ذومعنی گھٹیا جملے، بازاری اشارے اور مختصر بلکہ نہایت مختصر نیم عریاں لباس میں فلم بند کی گئیں ویڈیوز۔ کہا جاتا ہے کہ ایسی بے شمار ویڈیوز ٹک ٹاک پر موجود ہیں جن میں نہایت قابل اعتراض قسم کا مواد موجود ہے، پورن، سیمی پورن ٹائپ۔ اسی وجہ سے ٹک ٹاک ٹین ایجرز میں بلکہ تیرہ چودہ برس کے لڑکوں، لڑکیوں میں زیادہ مقبول ہے۔
اس پابندی سے پہلے حکومت پاکستان کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار کیا جاتا رہا، مگر اس ایپ نے کچھ زیادہ لفٹ نہیں کرائی۔ پابندی کے بعد البتہ چینی ایپ کی ٹاپ مینجمنٹ کے وفد نے پی ٹی اے کے چیئرمین سے ملاقات کی ہے اور ایک ایسا میکنزم تیار کرنے پر کام ہورہا ہے ،جس سے شکایات دور ہوسکیں۔ ہمارے ہاں اس پابندی پردو تین طرح کے ردعمل آئے۔ہمارے لبرل، سیکولر حلقے نے شدید ردعمل ظاہر کیا۔ وفاقی کابینہ میں موجود وزیر فواد چودھری اس مائنڈ سیٹ کی بڑی پرجوش ترجمانی کرتے ہیں۔ وہ احتجاج میں پیش پیش رہے۔ ان کا فرمانا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی ہے اور ہم اس پر کیسے پابندی لگا سکتے ہیں؟اس حلقہ فکر کے لوگ سوشل میڈیا پر حکومت کا مذاق اڑا رہے اور مذہبی سوچ رکھنے والوں پر تضحیک آمیز جملے کسنے میں مشغول ہیں۔ فحاشی کے خلاف احتجاج کرنے والے انصار عباسی اور اوریا مقبول جان جیسے لوگ ان لبرلز کا مرغوب ہدف ہیں۔افسوسناک بات یہ ہے کہ سماج کی اخلاقی قدروں میں گہری دلچسپی رکھنے والے بہت بڑے حلقے نے، جن میں رائیٹ ونگ اور معتدل سنٹر سٹ شامل ہیں، اس بحث میں حصہ ہی نہیں لیا۔ وہ چونکہ کبھی ٹک ٹاک استعمال نہیں کرتے نہ انہیں اندازہ ہے کہ اس پر کس قدر خطرناک مواد موجود ہے، اس لئے ان کا ردعمل غیر جانبدارانہ سا رہا ۔ ان کے خاموش یا لا تعلق رہنے سے لبرل، الٹرالبرل، سیکولر کیمپ کو فائدہ پہنچا اور انہوں نے ایسی فضا بنا دی ہے، جس پر حکومتی ترجمان اور وزرا معذرت خواہانہ بیانات دے رہے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اگلے دو چار دنوں میں اس ایپ پر پابندی ختم ہوجائے گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا اس ایپ پر یا کسی بھی ایپ پر پابندی لگانی چاہیے؟ کیا یہ ٹیکنالوجی سے انکار کے” گناہ “کے مترادف ہوگا؟کیا یہ ریاست یا حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی اخلاقیات سے تعلق رکھے، نوجوان نسل کی اخلاقی، تہذیبی تربیت کی کوشش کرے؟ ہمارے نزدیک سب سے اہم آخری سوال ہے اور اس کا جواب ہاں میں ہے۔
پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت ہے جو اسلام کے نام پر بنا۔ جسے بناتے وقت قائدین تحریک پاکستان نے یہ وعدہ کیا کہ ہم ایک ایسا فلاحی نظام قائم کریں گے جو اسلامی اصولوں پر مبنی ہوگا۔ اس وعدے میں ہم ظاہر ہے بری طرح ناکام ہوئے ہیں۔ بہت کچھ ابھی کرنا باقی ہے۔ مختلف شعبوں میں ہمیں بیک وقت تیزرفتاری سے آگے بڑھنا چاہیے۔ لوگوں کو انصاف ملے، ان کے دکھ درد کم ہوں، ریلیف دیا جائے، زندگی ، جان مال کا تحفظ ملے، صاف پانی، اچھا ماحول دیا جائے، عزتوں کی حفاظت ہو وغیرہ وغیرہ۔ان سب کے ساتھ ساتھ نوجوان نسل کی اخلاقی حالت سدھارنے ، انہیں فواحش ومنکرات سے بچانے کی ذمہ داری بھی حکومتی اداروں کی ہے۔
ریاست یا حکومت اس اہم کام سے جان نہیں چھڑا سکتی۔ یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ جب تک لوگوں کو انصاف نہیں ملے گا، صاف پانی، روزگار وغیرہ فراہم نہ کر لیں، تب تک ہم اخلاقیات سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہوتا۔ یہ سب کام بیک وقت کئے جاتے ہیں۔ مختلف ادارے اپنا اپنا کام کرتے ہیں۔ٹک ٹاک پر پابندی لگانے کا کام جس ادارے نے کیا، اسے سراہنا چاہیے، وہ ستائش اور شکریے کے مستحق ہیں ۔ ریاست مدینہ تو خیر بڑا مقدس تصور ہے، کسی بھی ڈھنگ کی مسلم ریاست میں ایسا ہی ہونا چاہیے۔ براہ کرم مجھے کوئی بزعم خود دانشور یہ مثال نہ دے کہ ترکی میں ایسا نہیں ہے، دبئی میں نائٹ کلب ہیں یا ملائشیا یا کسی اور ملک میں فلاں فلاں چیزیں ہیں۔ غلط غلط ہی ہے، چاہے جہاں بھی ہو۔ ہم ترکی، ملائشیا، عرب امارات یا کسی اور ملک کو جواب دہ نہیں، اپنے رب کے آگے جواب دہ ہیں۔ ہمیں اپنے آقا ﷺ کے احکامات کی پابندی کرنا ہے۔ کسی اور مسلمان ملک میں ایسا نہیں تب تو ہمارے اوپر زیادہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ہم جو اسلام کے نام پر بننے والی واحد ریاست ہیں، ہم مسلم دنیا کے سامنے مثال قائم کریں۔
کسی ایپ پر پابندی لگانا ٹیکنالوجی کا انکار ہرگز نہیں۔ ویڈیوز بنانا ٹیکنالوجی ہے، پورن یعنی ننگی فلمیں بنانا بھی ٹیکنالوجی کا حصہ ہے تو کیا ہمیں ان کی بھی اجازت دے دینی چاہیے؟ یہ ایک لغو اور بیکار دلیل ہے۔ یہ درست ہے کہ آج کل کے دور میں سنسرشپ مشکل ہوتی جا رہی ہے، ہزاروں ایپ بن رہی ہیں، وہ فری ڈاﺅن لوڈ ہوسکتی ہیں، ان پر پابندی لگ جائے تب بھی وی پی این کے ذریعے دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ ،مگر پھر بھی اگر حکومتی ادارے سنجیدگی سے کوشش کریں تو بہت کچھ روکا جا سکتا ہے۔ پی ٹی اے کی کوششوں سے لاکھوں پورن سائٹس بند ہوئی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ وی پی این کے ہوتے ہوئے بھی پب جی پر پابندی لگی تو ملک بھر کے لاکھوں پب جی یوزرز چیخ اٹھے۔ وجہ یہی ہے کہ وی پی این ہر کوئی استعمال نہیں کر سکتا، اسے سمجھنا اتنا آسان نہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ چونکہ ٹک ٹاک چینی ایپ ہے، اس لئے اس پر پابندی سے چینی حکومت ناراض ہوجائے گی۔ میرے خیال میں چین پاکستانی عوام ، کلچر اور ہمارے ہاں موجود نظریاتی قوت سے بخوبی واقف ہے۔ اسے معلوم ہے کہ اس پابندی کا مقصد چین یا چینی کمپنی کو نقصان پہنچانا نہیں بلکہ اسے ضوابط کے دائرے میں لانا ہے۔ یہ بات چینیوں کو آسانی سے سمجھائی جا سکتی ہے۔ پاک چین تعلقات اتنے گہرے اور مضبوط ہیں کہ اس قسم کے اقدام سے یہ نہیں ٹوٹ سکتے۔
اہم بات یہ ہے کہ ٹک ٹاک پر یا اس طرح کی کسی ایپ پر پابندی لگانے کا حکومت کو پورا حق حاصل ہے۔ ان ایپ کمپنیوں کو اگر پاکستان میں کام کرنا ، یہاں سے کمانا ہے تو پھر پاکستانی سماج میں موجود حساسیت کو بھی سمجھنا ہوگا۔ حکومتی وزرا کو اس پر ہرگز معذرت خواہانہ رویہ اپنانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے عوام ، اپنی نئی نسل کی اخلاقی بہبود کا خیال رکھنا حکومت، ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے ہمیں واضح اور یکسو سوچ اپنانے کی ضرورت ہے۔
اصولی طریقہ یہی ہے کہ کسی ایپ کو مستقل بند کرنے کے بجائے اس سے مذاکرات کے ذریعے قابل اعتراض مواد کی روک تھام کا ٹھوس میکنزم بنایا جائے۔ ایسا ہوجائے تب پابندی ختم کی جاسکتی ہے۔البتہ ایسا نہ ہونے پر کسی بھی قسم کے دباﺅ کی پروا نہ کی جائے۔ وزیراعظم پاکستان سمیت ہم میں سے ہر ایک کو اپنے رب اور اس کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی زیادہ عزیز رکھنی چاہیے۔ وہی ہمارے لئے راہ نجات ہے۔ (بشکریہ نائنٹی ٹونیوز)