دوستو، کہتے ہیں کہ ہر مرد اندر سے’’ منٹو ‘‘اور باہر سے’’واصف علی واصف‘‘ ہوتا ہے۔۔ منٹو کے بارے میں اتنا کچھ لکھا جاچکا ہے جتنا انہوں نے خود نہیں لکھا ہوگا۔۔ اگر آپ نے منٹو کی تحریریں پڑھی ہوں گی تو ایک تحریر’’ٹھنڈا گوشت‘‘ کے نام سے ہے، آج ہمارے کالم کا جو عنوان ہے وہ اس کی’’پیروڈی‘‘ نہیں، بلکہ ایک سچا واقعہ ہے، ہوا کچھ یوں کہ اتوار سے کراچی میں ہیٹ ویو جاری ہے، دن میں شدید سڑی ہوئی گرمی پڑرہی ہے۔۔ ایسے میں ہمیں ایک تقریب میں لازمی جانا پڑگیا، تقریب کا مقام ایسا تھا کہ وہاں بندہ ’’کٹ شٹ‘‘ میں ہی جاتا اچھا لگتا ہے۔۔چنانچہ فیصلہ کیاگیا کہ ’’کوٹ‘‘ پہن کر تقریب میں شرکت فرمائی جائے۔۔ خیرسے ہماری رہائش جس مضافاتی علاقے میں واقع ہے وہاں کوٹ صرف وہی پہنتا ہے جس کی شادی ہویا پھر جو شادی میں شرکت کرے۔۔ اب جب ہمیں دوستونے ’’کوٹ ‘‘ میں دیکھا تو حیرت کا اظہار کرتے ہوئے طنزیہ کہنے لگے۔۔ کس کی شادی میں جارہا ہے؟ ہم بھی چلیں کیا؟ ۔۔ انہیں کافی دیر سمجھانا پڑا کہ، کسی شادی میں نہیں جارہا، ایک اہم میٹنگ میں جارہا ہوں جہاں کوٹ پہننا ضروری ہے۔۔ بظاہر تو انہوں نے ہماری بات کو تسلیم کرلیا لیکن ہم اپنے دوستو کو زیادہ بہتر جانتے ہیں دل میں گالیاں ہی دے رہے ہوں گے کہ۔۔ شادی میں اکیلے چلا گیا اور ہمیں’’مفتے‘‘ سے دور رکھا۔۔ایک دوست نے ہمدردی جتائی کہ اتنی گرمی میں کوٹ؟؟ ہم نے اسے تسلی دی کہ۔۔ فکر نہ کرو، یہ ’’ٹھنڈاکوٹ‘‘ ہے۔۔ اب بائیکیا منگوائی، اس پر سوار ہوئے راستے میں ایک بائیک ہمارے برابر چلنے لگی، ٹریفک چونکہ جام چل رہا تھا، شام کا وقت تھا، اس لئے ہم بھی مجبور تھے۔۔ہم نے محسوس کیا کہ برابر میں چلنے والی بائیک سے قہقہوں کی آوازیں آرہی ہیں، ہم نے اپنی بائیں جانب دیکھا ۔۔ بائیک پر دو بچے اپنے ابا کے ساتھ کہیں جارہے تھے، دس بارہ سال کی بچی اپنے چھوٹے بھائی کو بڑے حیرت والے انداز میں بتارہی تھی، انکل کو دیکھو، انکل کو دیکھو، کتنی شدید گرمی ہے اور یہ کوٹ پہنے ہوئے ہیں۔۔ ساتھ ہی بچی نے ہنسنا شروع کردیا۔۔چھوٹا بھائی بھی ’’ہمنوا‘‘ بن کر ساتھ دینے لگا۔۔ ہم نے مسکراتے ہوئے،بچی کی طرف دیکھا اور انہین سمجھانے والے انداز میں کہا۔۔ بیٹا، یہ ٹھنڈا کوٹ ہے۔۔ بچی کو شاید ہماری بات کی سمجھ نہیں لگی۔۔ حیرانی سے پوچھ بیٹھی۔۔کیوں انکل کوٹ میں برف رکھی ہوئی ہے؟؟ ہمیں غصہ تو ’’بوتی‘‘ آیا، لیکن اس بالکل اسی طرح صبر کے ساتھ ضبط کیا جیسا عوام کو حکومت پر مہنگائی کی وجہ سے شدید غصہ آتا ہے لیکن بے چارے کچھ کرنہیں سکتے۔۔ ہم نے دانت پیستے ہوئے کہا۔۔ بیٹا، کوٹ کے اندر برف نہیں رکھی بلکہ ہم نے ’’پریکلی ہیٹ پاؤڈر‘‘ لگایا ہے۔۔ اسی وجہ سے کوٹ ٹھنڈا لگ رہا ہے۔۔ احباب اکثربذریعہ ای میل پوچھتے ہیں، (پوچھنے والوں میں فی میل بھی ہوتی ہیں جو ای میل کرتی ہیں)لکھتے ہیں کہ۔۔ آپ کی ہر تحریر پڑھتے ہیں ، آپ ’’میں ‘‘ کی جگہ’’ ہم‘‘ کا صیغہ کیوں استعمال کرتے ہیں؟ کیا آپ کا تعلق لکھنئوسے ہے؟؟ ان تمام احباب کو ایک بار ہی اکٹھا عرض کرتے چلیں کہ۔۔ہمارا تعلق قطعی لکھنئو سے نہیں بلکہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہستان سے ہے اور ہم نسلی پٹھان ہیں۔۔ لکھنئو کا ذکر آیا ہے تو ایک واقعہ ہاتھ کے ہاتھ سنتے جائیں۔۔ ایک مرتبہ لکھنؤ کے دو بچوں کے مابین پھوٹ پڑ گئی۔۔ایک بچہ عالم رنج وغصہ میں دوسرے فریق بچے پر بر س پڑا۔۔عالی جاہ،ہماری دیرینہ قلبی حسرت ہے کہ آپ کے رخ روشن پر ایسا زنّاٹے دار طمانچہ رسید کریں کہ آپ کے چہرے پر ہماری انگلیوں کے نشان ابد تک ثبت ہوجائیں اور آپ تاحیات اس ذلت کے نشان کو لے کر کوچہ کوچہ قریہ قریہ اور بستی بستی گھوما کریں۔۔ دوسرا فریق بچہ بھی شاید لکھنؤ شہر سے متعلق تھا وہ یوں گویا ہوا۔۔۔جانِ عزیز۔۔ ایسی لاحاصل خواہشات کو اپنے دل نادار میں جگانے پر گویا ہم محض مسکرا ہی سکتے ہیں۔۔۔ہم چاہتے تو اس رن بے تاب میں لفظی رسہ کشی کرتے ہوئے آپ کی عزیزم ہمشیرگان اور آپ کی والدہ محترمہ کی شان عالیشان میں غیر شرعی اضافتیں کر سکتے تھے۔۔۔ مگر ہمارے والد بزرگوار نے ہمیں ہردم اخلاقیات کا دامن، قوی تر پکڑے رہنے کا حکم دیا ہے ورنہ ایسے ناشائستہ اور نازیبا کلمات ادا کرنے پر ہمارے ایک ہی ہاتھ سے آپ کا رخسار مثل گلاب لال ہوجاتا۔۔مگر قربان جائیں ہماری بے مثال تربیت پر جو آڑے آجاتی ہے۔۔ بچپن میں جب ایک بار ہم اسکول کی پکنک پر کوٹ پہن کر گئے تو تمام ٹیچرز نے حیرت سے دیکھا۔۔ کہاتو کچھ نہیں۔۔ اس دوران اچانک باتوں باتوں میں ایک ٹیچر نے سوال پوچھ لیا۔۔ اون کسے کہتے ہیں؟ ہم نے نفی میں گردن ہلاتے ہوئے کہا، نہیں معلوم۔۔ ٹیچر نے اگلا سوال داغا، تمہارا کوٹ کس چیز سے بنا ہے؟ ہم نے بڑی معصومیت سے جواب دیا۔۔ابا کے پرانے کوٹ سے۔۔ایک خاتوں کو بلا وجہ شک کرنے کی عادت تھی جب بھی اُس کا شوہر دفتر سے یا پھر کسی اور جگہ سے واپس آتا تو اس کے کوٹ کو بڑی عرق ریزی سے چیک کرتی اگر ایک بال بھی نظر آجاتا تو بے چارے شوہر کی شامت ہی آجاتی۔ایک دن شوہر دفتر سے واپس گھر آیا تو بیوی نے اُس کے لباس کو پوری طرح چیک کیا لیکن کچھ نظر نہ آیا۔۔اچھا!۔۔ بیوی نے منہ بسورتے ہوئے کہا،اب تم نے گنجی عورتوں کے ساتھ بھی دوستی کرنی شروع کر دی ہے۔ایک بحری جنگی جہاز اپنے سمندری مشن پہ تھا کہ اچانک دشمن کے ایک جہاز سے سامنا ہوگیا، جہاز کے کپتان نے اپنے اسٹاف سے کہا۔۔میرا سرخ کوٹ لے آؤ۔۔ کوٹ پہن کر کپتان نے توپچی سے ٹھیک ٹھیک نشانوں پہ فائر کروائے اور یوں دشمن کا جہاز اپنے عملے سمیت غرق ہو گیا، جہاز کے تمام اسٹاف نے اپنے کپتان کی حکمتِ عملی کی جی بھر کے تعریف کی اور سب نے یہ سوال بھی پوچھا کہ جناب دشمن کے جہاز کی خبر ملتے ہی آپ نے سرخ کوٹ منگوا کر کیوں پہنا تھا؟ اس پہ کپتان نے بتایا۔۔اس لئے کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اگر میں زخمی ہوجاؤں تو میرے جسم پہ خون کا رنگ نظر آئے اور اسے دیکھ کے میرے ساتھی ہمت ہار بیٹھیں یا پریشان ہو جائیں۔۔تمام عملہ اپنے کپتان کی اس اعلیٰ حکمت کی تعریف کر ہی رہا تھا کہ جہاز کے راڈار آپریٹر نے چیختے ہوئے اعلان کیا کہ دشمن کے دس جہازوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور فرار کا راستا مسدود دکھائی دیتا ہے۔ یہ اعلان سن کر کپتان نے ٹھنڈی آہ بھری اور مردہ سی آواز میں عملے کو حکم دیا۔۔ میرا پیلے رنگ کا پاجامالے آؤ۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔وقت کی قیمت کا اندازا لگاناہے تو اخبارکو دیکھ لو، صبح بیس روپے کا تو شام کو بیس روپے کلو میں فروخت ہوتا ہے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
ٹھنڈا کوٹ۔۔
Facebook Comments