tesar town mein plots ka khel or sahafi

تیسر ٹاﺅن میں پلاٹوں کا کھیل  اور صحافی۔۔؟

تحریر:عرفان ساگر

روٹی ،کپڑا اور مکان ایک ایسا نعرہ ہے جو آج بھی سننے والے کو متوجہ کرتاہے وجہ یہ نہیں کہ یہ نعرہ پرکشش ہے بلکہ ہمارے ملک میں یہ تینوں مسائل آج تک حل نہیں ہوسکے۔ روٹی آج بھی میسر نہیں ۔۔۔ کپڑا دسترس سے دور ہے اور مکان تو ایک خواب کی طرح ہی لگتا ہے۔پیپلز پارٹی کے نعرے کے تیسرے حصے یعنی مکان کیساتھ پیپلز پارٹی نے خود جو کیا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیںاوراس کی ایک تازہ مثال تیسر ٹاﺅن اسکیم 45ہے۔ تیسر ٹاﺅن کراچی کی ایسی پلاٹنگ اسکیم ہے جہاں سب سے زیادہ 60سے 65ہزار پلاٹس واقع ہیں لیکن ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے)نے ان پلاٹوں کو اپنے کاروبار کاذریعہ بنارکھا ہے ۔

تیسر ٹاو ¿ن اسکیم 45 کی منظوری سب سے پہلے 1986 میں کے ڈی اے کی جانب سے کراچی کے شمال مشرقی علاقے میں 20 ہزار 5 سو 70 ایکڑ کے کنٹرولڈ علاقے کے لیے منظوری دی گئی تھی، اس اراضی میں موکھی، نانگن، بجار جی بھٹی اور تیسر شامل تھے، ان سب علاقوں کے نام لوک کرداروں کے نام سے منسوب ہیں۔جیسا کہ مائی تیسر موکھی کی بہن کو کہا جاتا ہے، موکھی کا ذکر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں لوک ہیروئن کے طور پر کیا گیا ہے۔

انیس سو ترانوے میں  ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایکٹ 1993 کے تحت ایم ڈی اے تشکیل کی گئی تھی۔اس اتھارٹی کے پاس کراچی ڈویژن کے بعض علاقوں کی ترقی اور ایسے علاقوں کے عوام کی سماجی و اقتصادی صورتحال کو بہتر بنانے کا مینڈیٹ حاصل تھا۔کے ڈی اے نے 1996 میں کسی ترقی کے بغیر تیسر  ٹاؤن اسکیم  45 ایم ڈی اے کو منتقل کردی ۔ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے 9 ہزار 5 سو 12 ایکڑ کے علاقے پر کم خرچ کی ہاؤسنگ ٹاؤن اسکیم کے تحت ستمبر 2005 میں اسکیم کا اجرا کیا تھا اور اس کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کا آغاز کیا تھا۔مذکورہ منصوبے میں کمرشل اور دیگر پلاٹ کے علاوہ ایک لاکھ 12 ہزار افراد کے لیے 98 ہزار ایک سو 76 رہائشی پلاٹ شامل تھے۔15 جنوری 2006 کو اس وقت کے صدر پرویز مشرف نے گورنر ہاوص کراچی میں  اسکیم 45 کے لیے کمپیوٹرائزڈ قرعہ اندازی کی تھی۔اس میں اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد، وزیراعلیٰ ڈاکٹر ارباب رحیم، سٹی ناظم مصطفی کمال ، نائب ناظم نسرین جلیل اور سندھ کابینہ کے دیگر اراکین شامل تھے، اسکیم میں گورنر ہاوس کے ملازمین  کے لیے علیحدہ کوٹہ مختص کیا گیا تھا۔

چھ مئی  2006 کو اخبارات میں شائع کی گئی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ’ ’ الائیڈ بینک کو کم اخراجات کی ہاؤسنگ اسکی، تیسرٹاؤن کے لئے مجموعی طور پر 3 لاکھ 93 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں، بینکوں میں مجموعی طور پر 4 ارب 79 کروڑ40 لاکھ روپے جمع کروائے گئے جن میں فارمز کی قیمت کی مد میں 15 کروڑ 40 لاکھ روپے جمع کروائے گئے“۔

دلچسپ بات ہے کہ 1985 سے اسکیم 45 میں 1879.53 ایکڑ زمین 45 نجی ہاوسنگ سوسائٹیز کو الاٹ کی گئی جن میں سے اکثر کامیاب نجی سیکٹر میں تبدیل ہوگئے جن میں گارڈن سٹی اور کریم ہاوسنگ پراجیکٹ سمیت دیگر بھی شامل ہیں۔ سیکٹرز میں سے لیاری ایکسپریس وے ری سیٹیلمنٹ پروجیکٹ کے لیے مختص کیے گئے یہ تمام انفرااسٹرکچر کے لیے ایم ڈی اے پر انحصار کرتے ہیں۔تیسر ٹاون اسکیم 45 کا آفیشل فیس بک پیج ایسے افراد کی روداد سے بھرا پڑا ہے جنہیں وقت پر ادائیگی کے باوجود قبضہ نہیں ملا۔اکثر کی جانب سے یہ نقطہ اٹھایا جاتا ہے کہ کسی طرح  بھی یہ جگہ بے کار زمین کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

اب آتے ہیں 2019میں مارچ کے مہینے میں کراچی بھر میں کسی بھی سلک بینک کی برانچ کا دورہ کرتے تو آپ کو لوگوں کی ایک طویل قطار اپنے ایک جیسے خواب کو پورا کرنے کے لیے نظر آتی۔فارم کے حصول کے لیے ہزاروں افراد ڈیسک تک پہنچنے کی آس میں سکون سے انتظار کرتے اور پھر ایک 3 صفحات کی دستاویز حاصل کرکے چلے جاتے جسے وہ اپنے زندگی کے مقصد کی چابی کے طور پر دیکھ رہے تھے جبکہ اسی قطار میں کھڑی ایک خاتون کے الفاظ تھے کہ ”اپنا گھر بن جائے بس!“۔

ان سب کی نظریں سہراب گوٹھ سے 20 منٹ کی مسافت پر ایک بڑے مٹی کے میدان پر جمی ہوئی ہیں، یہاں کراچی میں ’بہترین رہائشی اسکیم‘ کے طور پر بہت زیادہ تشہیر کی جانے والی ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) تیسر ٹاون اسکیم 45 موجود ہے۔یہ اسی پرانے منصوبے کا نیا آغاز تھا، جس کا وعدہ 2005 سے ہوتا آ رہا تھا کہ کم تنخواہ دار اور متوسط طبقے کے 25 لاکھ خاندانوں کو پناہ گاہ فراہم کی جائے گی۔جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ انہیں معلوم ہے کہ اسکیم کہاں ہے؟ یا ماضی میں اس منصوبے کے آغاز کا کیا ہوا تو مختلف ممکنہ الاٹیز کہتے ہیں کہ ’سرکاری منصوبہ ہے، فراڈ نہیں ہوگا‘۔تاہم ان تمام باتوں کے بجائے یہ ٹوٹے خواب، ناقص ترقیات، جھاڑیوں، دھول کے بادل اور بھونکتے آوارہ کتوں کی ایک داستان ہے۔اہم جب سائٹ کے دورہ کیا جائے تو یہ کچھ اور ہی داستان بیان کرتا ہے، یہ زمین بنیادی شہری ضروریات بجلی، گیس اور پانی سے محروم ہے، ایم ڈی اے کا دعویٰ ہے کہ اس نے بنیادی انفرا اسٹرکچر تیار کردیا ہے لیکن سائٹ کا دورہ کریں تو وہاں بڑی تعداد میں غیر آباد جگہ، خستہ حال نکاسی آب کا نظام، ایسی ناہموار سڑکیں نظر آئیں گی جو کہیں نہیں جاتیں۔

لہٰذا وہ کون لوگ تھے جنہوں نے تیسر ٹاون اسکیم 45 اور اس کے 80، 120، 240 اور 400 گز کے 30 ہزار پلاٹس کے لیے بظاہر فارم جمع کرائے اور ایک سے 2 ہزار روپے کی ناقابل واپسی فیس ادا کی؟یہ ڈرائیورز، کھانا پکانے والے، کام کرنے والے، سیلون ورکرز، کم آمد نی والے نوکری پیشہ نوجوان، اساتذہ اور یقیناً متوسط آمدنی والے سرمایہ کار تھے جو اپنی محنت کی کمائی سے بچائی گئی رقم سے کہیں زیادہ واپسی کی تلاش میں ہوتے ہیں کیونکہ کم اور متوسط طبقے کے لوگوں کا جداگانہ حصہ ماہانہ کرائے کی ادائیگیوں کی وجہ سے تھک چکا ہے اور وہ اپنی جمع پونجی پر مستحکم واپسی چاہتے ہیں۔

اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق سالانہ اندازاً گھروں کی طلب 4 لاکھ یونٹس ہے جبکہ اس کی اصل رسد صرف ڈیڑھ لاکھ ہے اور اس میں ڈھائی لاکھ کا شارٹ فال موجود ہے۔اس اسکیم کی روایتی میڈیا میں بہت زیادہ تشہیر کی گئی اور مختلف نجی کمپنیوں نے سوشل میڈیا مارکیٹنگ کا استعمال کرتے ہوئے اس کے پیغام کو وسیع طور پر پھیلایا۔

کم آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھنے والے مختلف درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ ان کے علاقوں کے اسٹیٹ ایجنٹس کی جانب سے ان کے پاس آنے اور اس سے متعلق بتانے کے بعد اسکیم کا معلوم ہوا جبکہ کئی درخواست گزاروں سے اسٹیٹ ایجنٹس نے رابطہ کیا جو سلک بینک کی برانچوں کے چکر لگا رہے تھے اور پیش کش کر رہے تھے کہ اگر قرعہ اندازی میں خوش قسمت رہتے ہیں تو انہیں 80 ہزار روپے تک دیے جائیں گے۔قیمتوں کو مصنوعی طور پر بڑھانے کا یہ حربہ بحریہ ٹاون کے طریقہ کار جیساہے کیونکہ بحریہ ٹاﺅن کے کراچی کے منصوبے میں ایم ڈی اے کا بڑی دھوکا دہی میں اہم کردار رہا تھا۔

دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جنہیں واقعی اپنا گھر بنانے کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ فوری اپنا گھر تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جبکہ دوسرے سرمایہ کار ہوتے ہیں جو ان اسکیم کے پلاٹس سے سرمایہ کمانا چاہتے ہیں۔چھوٹے پلاٹس عام طور پر سرمایہ کاروں کے لیے منافع بخش ہوتے ہیں تاہم جس چیز کا انہیں اندازہ نہیں ہوپاتا وہ یہ ہے کہ ان کی سرمایہ کاری تباہ ہوسکتی ہے۔ایک چیز واضح ہے کہ اب تک ایم ڈی اے کے منصوبے کاغذ پر بہت مضبوط ہوتے ہیں، لیکن حقیقت میں ان منصوبوں کے پلاٹ حاصل کرنے والے افراد کی دستاویزات پر گرد جم رہی ہے جبکہ ان کے پلاٹس پر ریت اڑ رہی ہے۔

اس اسکیم کے لیے فیس بک اور روایتی میڈیا پر اشتہاری مہم نے صحیح معنوں میں کردار ادا کیا، ایک اشتہار میں اعلان کیا گیا ”ایم ڈی اے حکومت سندھ کا کم لاگت کا بڑا منصوبہ“ وہیں دوسرے اشتہار میں کہا گیا کہ ”کراچی میں بہترین رہائشی اسکیم جس کے اطراف ہول سیل مارکیٹ قائم کی جارہی ہیں“۔تیسرے اشتہار میں ”ناردرن بائی پاس، گلشن معمار اور ڈریم ورلڈ ریزارٹ سے متصل‘ ‘جبکہ چوتھے اشتہار میں’ ’ سندھ کے شہریوں کے لیے گھر حاصل کرنے کا سنہری موقع“ لکھا گیا تھا۔۔سب سے بڑھ کر یہ کہ ایم ڈی اے نے فروخت کرنے کی حکمت عملی میں اب پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو شامل کردیا ، اسکیم کے نئے نقشے میں ایم 10 روڈ کو دکھایا گیا ، جہاں یہ واقع ہے اور سی پیک کے روٹ سے منسلک ہے جبکہ حکام اس بات پر اصرار کررہے تھے کہ بڑی عمارتیں اور کاروباری ترقی منافع بخش سرگرمیوں کا باعث بنیں گی۔

 ریئل اسٹیٹ ایجنٹوں پر یقین کیا جائے تو2019کی قرعہ اندازی کے لئے 8 لاکھ فارم بھرے گئے جبکہ سلک بینک میں موجود ذرائع یہ تعداد ساڑھے 4 لاکھ بتاتے ہیں، اس کے علاوہ ایم ڈی اے حکام نے دعویٰ کیا تھا کہ ایک لاکھ 76 ہزار سے زائد فارم جمع کرائے گئے ۔مختلف خاندانوں کی جانب سے متعدد فارمز جمع کروائے گئے جس میں 80 مربع گز کے لیے ایک ہزار روپے (ناقابل واپسی) کے ساتھ ساتھ 9 ہزار روپے قابل واپسی بکنگ فیس، 120 مربع گز کے لیے 15 ہزار بکنگ اور 2 ہزار روپے (ناقابل واپسی) کے ساتھ ساتھ 240 مربع گز کے لیے 30 ہزار اور 400 مربع گز کے لیے 50 ہزار روپے قابل واپسی بکنگ فیس کے طور پر ادا کیے گئے ۔

یہ بھی کہاجا تا ہے جب ایم ڈی اے کو رقم کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اخبار میں اشتہار شائع کرکے کہتے ہیں کہ اتنے پلاٹوں کی قرعہ اندازی کی جائے گی، براہ کرم رقم جمع کروادیں، یہ فنڈز حاصل کرنے کا اچھا راستہ ہے۔ 1979 میں نیشنل ہائی وے پر کے ڈی اے نے شاہ لطیف ٹاون کا منصوبہ شروع کیا تھا جس میں 43 ہزار پلاٹس موجود تھے جن میں 60، 80 اور 120 گز کے پلاٹس شامل تھے۔ ان کی قرعہ اندازی ہوگئی، لوگوں کو ’الاٹمنٹ لیٹر‘ جاری کردیے گئے لیکن ان میں ایسے افراد کے نام شامل نہیں تھے جنہیں فوری طور پر گھر کی ضرورت تھی۔اسی وجہ سے اس علاقے میں فرضی مقصد کے لیے ان پلاٹس کو اپنے پاس رکھا گیا جس کی وجہ سے طویل عرصے تک اسکیم پر کوئی قبضہ نہیں ہوا اور پھر آخر کار خالی پلاٹس پر تجاوزات قائم ہونا شروع ہوگئیں۔اسی طرح کی صورتحال اسکیم 45 میں بھی سامنے آئی جہاں کامیاب خریدار کا اپنی زمین پر قبضہ کرنے اور انہیں تعمیر کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔اسی طرح ایک اور کم قیمت ہاوسنگ اسکیم ”ہاکس بے ہاوسنگ اسکیم 46 سازش کا شکار نظر آتی ہے جس کا کاغذ پر ذکر تو موجود ہے لیکن اس کی کوئی زمینی حقیقت نہیں ہے جو اب ایک گھوسٹ ہاوسنگ اسکیم ہے۔

کافی عرصہ گزرنے اورمتعدد مطالبات کے بعد بالآخر ایم ڈی اے کی تیسر ٹاﺅن اسکیم 45 کے 20 ہزار ایک سو 74 پلاٹس کی قرعہ اندازی کردی گئی جس میں اس وقت کے وزیر بلدیات سندھ اور چیئرمین ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی سعید غنی خود موجود تھے اور کمپیوٹر کا بٹن بھی انہوں نے ہی دبا کر قرعہ اندازی کی ۔سعید غنی نے اس موقع پر جو تقریر کی وہ آج کے وزیربلدیات سید ناصر شاہ کو ضرور پڑھنی چاہیئے سعید غنی نے تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ” شہر سے غیر قانونی تعمیرات اور قبضے اسی صورت ختم ہوسکتے ہیں جب ہم عوام کو قانونی طور پر ان کے مکانات بنانے کے لئے وسائل فراہم کریں گے۔ ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی میں ماضی میں تجربات بہتر نہ ہونے کے باعث تیسر ٹاﺅن اسکیم 45 کے اعلان کے بعدسے عوامی تحفظات رہے لیکن ہم نے عوام کو اعتماد میں لیا اور خوشی ہے کہ مذکورہ اسکیم میں 1 لاکھ 76 ہزار سے زائد لوگوں نے پلاٹوں کیلئے فارم جمع کروائے۔ ایل ڈی اے سمیت مختلف رہائشی اسکیموں کے مسائل کو سنجیدگی سے دیکھا جارہا ہے اور جلد ہی ہم ان تمام اتھارٹیز کے مسائل کو حل کرکے عوام کو سستی اور آسان اقساط کی رہائش فراہم کریں گے۔ تقریب سے ایم ڈی اے کے اس وقت کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل محمد سہیل، آباد کے چیئرمین حسن بخشی،ڈائریکٹر لینڈ ایم ڈی اے ایوب فاضلانی اور دیگر نے بھی خطاب کیاتھاجبکہ تقریب میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈی جی ظفر احسان، کے ڈی اے کے ڈی جی عبدالقدیر منگی بھی شریک تھے ۔سعید غنی کا کہنا تھا کہ ایم ڈی اے کی مذکورہ اسکیم کے اعلان کے بعد ہمیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا کیونکہ ایم ڈی اے کی ماضی کی اسکیموں کا ٹریک ریکارڈ کچھ اچھا نہیں رہا تھا لیکن ہم نے عوام کو اس بات کی یقین دہانی کرائی تھی کہ مذکورہ اسکیم کے ساتھ ساتھ ماضی کی اسکیموں میں بھی ترقیاتی کاموں کو آئندہ تین سال میں مکمل کرلیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہماری اس یقین دہانی کے بعد عوام کی جانب سے ہمیں مثبت ردعمل ملا اور اس اسکیم کے 20 ہزار سے زائد پلاٹس کے لئے ایک لاکھ 76 ہزار سے زائد عوام نے فارم پر کئے۔

اب ہم جولائی 2023میں ہیں۔ایک مقامی روزنامہ میں 12جولائی کو ایک اشتہار شائع ہوتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ تیسر ٹاﺅن کی2006سے 2019تک کے رہائشی پلاٹس کے تمام الاٹیز کو بار بار یاد دہانیوں کے بعد آخری بار متنبہ کیا جاتا ہے کہ وہ الاٹیز جنہوں نے 100فیصد واجبات ادا نہیں کئے وہ الاٹیز 15یوم کے اند ر مکمل ادائیگی کردیں ورنہ ان کے پلاٹس منسوخ کردئے جائیں گے ۔ڈائریکٹر لینڈ مینجمنٹ کی جانب سے جاری کردہ اس اشتہار میں ایک دلچسپ نوٹ بھی تحریر کیا گیا ہے کہ ”وہ تمام الاٹیز جو اپنے پلاٹ کی 50فیصد ادائیگی مقررہ وقت میں کرنے سے قاصر رہے تھے ان کے پلاٹس ادارے نے عدم ادائیگی کی صورت میں منسوخ کردئےے تھے یہ اشتہار ان کے لئے نہیں ہے“۔

یہ اشتہار مکمل طور پر غیر قانونی اور سعید غنی کی اس تقریر کا عکاس ہے جو انہوں نے اس قرعہ اندازی کی تقریب میں کی تھی ۔سعید غنی صاحب نے بالکل درست فرمایا تھا کہ ایم ڈی اے کا ٹریک ریکارڈ واقعی اچھا نہیں تھا۔اشتہار میں مقررہ وقت پر بڑا زور دیا گیا ہے لیکن سعید غنی صاحب کی تین سال میں اسکیم کے ترقیاتی کام مکمل ہونے کا کوئی ذکر نہیں ہے ۔دوہزار چھ کے پلاٹس کوتو 18سال کا عرصہ گذر گیا یہ الگ بات ہے ان 18سال میں بھی ترقیاتی کام کا ”ت“بھی شروع نہیں ہوسکا لیکن 2019کے الاٹیز کے ساتھ تو وہ کیا گیا جو آج کے دور کا ”جعلی بلڈر “بھی نہیں کرتا ۔آیئے اس کا بھی جائزہ لیتے ہیں ۔

پلاٹ کی ادائیگی کا مقررہ وقت ساڑھے تین سال کا تھا جس کا آغاز جولائی 2019میں قرعہ اندازی سے ہوا2020اور 2021کے دوسال کورونا کی نذرہوگئے اس عرصے کے دوران پوری دنیا میں ادائیگیاں موخر کی گئیں یہاں تک مالک مکان و دکان کو کرائے اور بجلی کمپنیوں کو بل کی ادائیگی سے بھی حکومت نے خود روکا۔ 2022سے جولائی 2023تک کل ڈیڑھ سے دوسال کا عرصہ ہی رہ جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ ابھی ادائیگی کا وقت بھی پورا نہیں ہوا اور اگر صوبائی وزیر بلدیات کے دعوے کو مدنظر رکھا جائے تو انہوں نے بھی تین سال میں ترقیاتی کام مکمل کرانے کا وعدہ کیا تھا توپھر اس کا کیا بنے گا؟ایم ڈی اے کے مختلف سیکٹر ز میں کئی گیمز بھی کھیلے جارہے ہیں سیکٹر 77میں دعا گارڈن کے بلڈرز کو ملی بھگت سے بٹھادیا گیاجس سے اس سیکٹر کے نرخ زمین پر آگئے پھر ایک کارروائی کے دوران جب اس کا گیٹ توڑ دیا گیا تو پھر قیمتیں اوپر چلی گئیں ۔ ایک اور سیکٹر 28Aجو گلشن معمار سے متصل ہے جیسے ہی اس جگہ کی قیمتیں اوپر جانے لگیں اس سیکٹر کو بھی فروخت کرکے الاٹیز کو بیابان کے کسی سیکٹر میں منتقل کردیا گیا ۔۔ایسا لگتا ہے کہ تیسرٹاﺅن پلاٹوں کا اسٹاک ایکسچینج ہے یہاں پلاٹ کی فائلوں کا ہی کاروبار ہوتاہے کبھی اوپر تو کبھی نیچے ۔

آخر میں موجودہ وزیر بلدیات ناصر شاہ صاحب سے درخواست ہے کہ وہ خود اس معاملے کا جائزہ لیں حالانکہ ذرائع کے مطابق اس پوری کہانی میں چند صحافیوں نے شاہ صاحب کو ”گھیر“رکھا ہے اور اپنے مفاد کی خاطر عوامی مفاد کو قربان کیا جارہا ہے لیکن ناصر شاہ صاحب خود انتہائی نفیس اور فہم و فراست والی شخصیت ہیں وہ خود پر کسی کو حاوی نہیں ہونے دیں گے اور غریبوں کے پلاٹوں پر دوسروں کے محل بننے کے درمیان دیوار کا کام کریں گے ۔اگر ایسا نہ ہوا تو ان الاٹیز میں سے کسی ایک غریب کی بددعا بھی عرش ہلادے گی اور اس کھیل کا حصہ بننے والے نہ دنیا کے رہیں گے اور نہ آخرت کے۔

تیسر ٹاﺅن کے پلاٹوں کی منسوخی کا یہ ملبہ کراچی پریس کلب کے ان ارکان پر بھی ضرور گرے گا جن کے پلاٹس تیسر ٹاﺅن میں ہیں ہاکس بے کا معاملہ بھی طویل عرصے بعد نمٹا ہے لیکن تیسر ٹاﺅن والا یہ معاملہ شاید ان ممبران کے لئے بھی ”ٹائم بم “ثابت ہوسکتا ہے۔(عرفان ساگر)۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں