تحریر: علی حسن ۔۔
ٍمسلمانوں کے دنیا میں سب سے بڑا ملک پاکستان دو لخت ہو چکا تھا۔ ۰۷۹۱ کے پہلے عام انتخابات کے وسیلے سے تین سو آراکین کی قومی اسمبلی میں سے صرف ۷۳۱ سابق مغربی پاکستان کا حصہ تھے۔ اکثریت (۲۶۱ آراکین )بنگلہ دیش نامی قائم ہونے والے نئے ملک کا حصہ بن گئی تھی۔ مغربی پاکستان میں اقتدار پاکستان پیپلز پارٹی (پارٹی کے منتخب آراکین کی تعداد ۲۸ تھی) کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس لئے کہ بچے کھچے ہوئے ملک کو چلانا تھا۔ پاکستان میں ۶۵۹۱ٍ کا آئین پارلیمنٹ نے بنایا تھا جسے ایوب خان نے ۸۵۹۱ میں مارشل لا ءنافذ کر کے منسوخ کر دیا تھا۔ انہوں نے ۲۶۹۱ میں صدارتی طرز حکومت کا آئین نافذ کیا تھا جسے ۹۶۹۱ میں جنرل یحیی خان کے نافذ کر دہ مارشل لاءکے نفاذ کے بعد منسوخ قرار دے دیا گیا تھا۔ موجود حکومت ۳۷۹۱ کے پاکستانی آئین کا پچاس سالہ جشن منا رہی ہے۔ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس دس اپریل کے روز منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں پاکستان کے مستقبل کے ممکنہ آئندہ چیف جسٹس جسٹس فائز عیسی کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ یہ بحث اپنی جگہ ہے کہ مستقبل قریب کے ممکنہ چیف جسٹس کو پارلیمنٹ کے اجلاس میں شرکت کرنا چاہئے تھی یا نہیں؟ کنونشن میں اپنے خطاب کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ وہ اور ان کا ادارہ سپریم کورٹ آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آئین پاکستان میں سب سے اہم بنیادی حقوق ہیں۔انہوں نے کہا کہ وہ یہ سوچ کر آئے تھے کہ یہاں سیاسی نہیں آئینی باتیں ہوں گی، وہ اپنی موجودگی کے دوران یہاں ہونے والی سیاسی باتوں سے متفق نہیں ہیں۔ آپ کی طرح میں نے بھی آئین پر عمل اور اس کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے، کل آپ یہ نہیں کہیے گاکہ ہم نے آپ کو بلایا پھر بھی ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا۔ ہمیں اس آئین کو اپنے دل سے لگانا چاہیے، اس میں سب سے اہم بنیادی حقوق ہیں۔ ایک بات انہیں نے بہت زیادہ اہم کہی کہ ہم دشمنوں سے اتنی نفرت نہیں کرتے جتنی آپس میں ایک دوسرے سے کرتے ہیں۔ قاضی صاحب کو اپنی شرکت کی وجہ سے خفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
پہلے تو یہ تذکرہ کہ تہتر کا آئین او ر اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو کی کوشش کے بعد منظور ی پا سکا تھا ۔ ان کی کوشش اور خواہش تھی کہ آئین متفقہ طور پر منظور ہو جائے۔ اسمبلی میں موجود حزب اختلاف کے آرکین حکومت سے تعاون کر نے پر آمادہ نہیں تھے کہ وہ اول تو سابق مشرقی پاکستان کے بحران میں بھٹو کے کردار سے مطمعن نہیں تھے اور پھر بھٹو حکومت کے طرز حکمرانی سے مطمعن نہیں تھے۔ بھٹو حکومت نے ۳۷۹۱ کے آئین کی منظوری سے قبل ایک عارضی آئین نافذ کیا تھا جس کے خند و خال صدارتی طرز حکومت جیسے تھے۔ بھٹو چونکہ ایوب کابینہ کا حصہ ہونے کی وجہ سے اپنی ابتدائی تربیت کی وجہ سے ذہنی طور پر صدارتی طرز حکومت قریب تھے۔ پارلیمنٹ میں موجود بعض اکابرین نے اس کے نفاذ کی شدید مزاحمت کی تھی۔ آئین کی منظوری کی صرف مزاحمت ہی نہیں بلکہ بعض آراکین نے اس پر دست خط کرنے سے ہی انکار کر دیا تھا۔ اس پارلیمنٹ میں پنجاب، بلوچستان، خیبر پختون خوا، اور سندھ کے اس وقت کے قد آور اہم سیاست دان موجود تھے۔ ان میں سے کئی ایسے تھے جو قیام پاکستان کے وقت سے پاکستان میں سیاسی کھیل کود کا تماشہ دیکھتے رہے تھے۔ بعض آراکین ایسے تھے جو پہلی بار ہی ۰۷۹۱ کی قومی اسمبلی کے لئے منتخب ہو ئے تھے۔ ان میں حیدرآباد سے جمیعت علماءپاکستان کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے مولانا سید محمد علی رضوی بھی تھے۔ جب اسمبلی نے آئین کو منظور کر لیا تو مولانا موصوف نے ایوان میں موجود آراکین سے اپنی کاپی پر بطور سوینئر دستخط کرائے۔ اس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو اور قومی ا سمبلی کے اسپیکر چوہدری فضل الاہی نے بھی ان کی کاپی پر دستخط کئے تھے۔ خیبر پختون خوا کے ایک رکن عبدالخالق خان تھے۔ عبدالخالق خان پاکستان نے ایک معروف سرکاری افسر روئیداد خان کے بھائی تھے۔ انہوں نے اپنے دست خط کے ساتھ تبصرہ میں ایک جملہ لکھا کہ یہ آئین ملک کے عوام کی ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکے گا۔ ایک اور رکن عبدالحکیم نے بھی تبصرہ میں لکھا کہ یہ آئین ہزار وال کو کچھ نہیں دے سکے گا۔ ان کے اندیشے کسی حد تک درست نکلے۔
آئین کے ابتدائی سالوں میں ہی بعد ترامیم نے اسے متنازعہ بنا دیا تھا۔ پھر اس آئین کی موجودگی میں ہی بلوچستان اور صوبہ خیبر پختون خوا کی جمہوری طور پر منتخب حکومتوں کو گھر بھیج دیا گیا تھا۔ بلوچستان میں فوجی آ پریشن کئے گئے۔ اہم قومی معامات پر فیصلے پارلیمنٹ سے نہیں کرائے گئے بلکہ حکومت ہی فیصلہ صادر کرتی رہی۔پار لیمنٹ کو چاہئے کہ اس نکتہ پر غور کرے کہ آخر آئین ملک کو ماورائے آئین اقدامات سے کیوں نہیں روک سکا۔ یہ بھی تو غور کرنے کی بات ہے کہ کیا وفاق کی مختلف اکائیوں خصوصا چھوٹے صوبے اس آئین سے مطمعن رہے یا نہیں۔اگر مطمعن نہیں رہے تو ان کے اطمینان کے لئے اقدامات تجویز کرنا چاہئے۔ ملک میں رہائش رکھنے والے مختلف طبقات بھی انہیں حقوق نہ ملنے کی شکایت ہی کرتے رہے۔ کسانوں اور ہاریوں اور محنت کشوں، طالب علموں کو ان کے حقوق اور تحفظ مل پایا ؟ سندھ میں ۳۷۹۱ میں ہی کوٹہ سسٹم دس سال کے لئے نافذ کیا گیا تھا جسے طول دیتے دیتے پچاس سال ہو گئے ہیں۔ سندھ میں آبادی کو ایک حصہ (اردو زبان بولنے والے عوام) عدم اطمینان ظاہر کرتا ہے۔ حکومت میں شامل عناصر اس پر توجہ دینے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔ دو ایوانی مقننہ کے باجود ایسے سیاسی اور غیر سیاسی عناصر موجود ہیں جو آئین سے مطمعن نہیں ہیں۔بعض حلقے تو نئے عمرانی معاہدہ کی تجویز لئے پھرتے ہیں۔
تہتر کے آئین میں ایک شق آرٹیکل چھہ مستقبل میں مارشل لاءکے نفاذ کو روکنے کے لئے ڈالا گیا تھا لیکن آئین میں جس مقصد کے لئے آرٹیکل چھ رکھا گیا تھا وہ آئین کے نفاذ کے تین سال کے دوران ہی اس وجہ سے ناکام ہو گیا تھا کہ جنرل ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لاءنافذ کر دیا۔ انہوں نے آئین کو کاغذ کی کتاب قرار دیا تھا۔ حکومت ختم کر دی گئی تھی۔ بعد میں تو قتل کے ایک مقدمہ میں سابق وزیر آعظم کے خلاف مقدمہ چلایا گیا اور انہیں عدالت کے تقسیم شدہ فیصلہ کے باوجود پھانسی کی سزا پر عمل درآمد کرا دیا گیا۔ ضیاءکے مارشل لاءکے خاتمہ کے بعد ۹۹۹۱ میں جنرل پرویز مشرف نے براہ راست مار شل لاء نافذ کرنے کی بجائے ملک کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور خود چیف مار ش لاء ایڈمنسٹریٹر کی بجائے چیف ایگزیکیٹو کے عہدے پر براجمان ہو گئے تھے ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا جس کے دوران ملک میں عام انتخابات بھی کرائے گئے ۔ پار لیمنٹ کو چاہئے کہ اس نکتہ پر غور کرے کہ آخر آئین ملک کو ماورائے آئین اقدامات سے کیوں نہیں روک سکا۔ یہ بھی تو غور کرنے کی بات ہے کہ کیا وفاق کی مختلف اکائیوں خصوصا چھوٹے صوبے اس آئین سے مطمعن رہے یا نہیں۔
آئین پاکستان کی گولڈن جوبلی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہبازشریف کا البتہ کہنا تھا کہ آج پاکستان کی تاریخ میں ایک بہت اہم دن ہے،آج جمہوریت کیلئے انتہائی اہم دن ہے،50 سال گزرنے کے باوجود آئین میں مختلف اوقات میں ترمیم کی گئی،آئین 50 مختلف آمریتوں کا سامنا کرنے کے باوجود آج بھی زندہ ہے،یہ تاریخی کارنامہ تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔وزیر دفاع خواجہ محمد آصف عدلیہ میں موجود حالات کو آئین کے لئے خوش آئند تصور نہیں کرتے ہیں۔ پیپلزپارٹی کے سینئر رہنماءسنیٹر رضا ربانی نے کہاہے کہ دستور پاکستان عوام کے حقوق اور ریاستی اداروں کے فرائض کی کتاب ہے، ملکی تاریخ میں آئین میں بار بار ترامیم سے نقصان ہوا۔سینیٹر رضا ربانی نے کہاکہ ملکی تاریخ میں آئین میں بار بار ترامیم سے نقصان ہوا،دستور پاکستان عوام کے حقوق اور ریاستی اداروں کے فرائض کی کتاب ہے،دستور پاکستان عدل و انصاف، مساوات ، اتحادواتفاق اور آزادی کا ضامن ہے،آئین پاکستان عوام کے حقوق اور ریاستی اداروں کے فرائض کااحاطہ کرتا ہے۔ آئین میں آٹھارویں ترمیم کے سلسلے میں رضا ربانی نے ہی خدمات انجام دی ہیں ۔ اس ترمیم کو بھی بعض عناصر اطمینان بخش قرار نہیں دیتے ہے۔ (علی حسن)