crime free city 2

تحریک لبیک جوائن کرنے لگا ہوں

تحریر: جاوید چودھری۔۔

خواجہ خورشید انور پاکستان کے سب سے بڑے موسیقار تھے‘ پاکستانی موسیقی میں ایک ایسا دور بھی آیا تھا جسے ’’خواجہ کا وقت‘‘ کہا جاتا تھا‘ وہ دھن نہیں بناتے تھے دل کی دھڑکن بناتے تھے اورجب یہ دھڑکنیں دھڑکتی تھیں تو ان کی آواز روح تک جاتی تھی۔

خواجہ صاحب نے 1958 میں جھومر کے نام سے فلم شروع کی‘ گانے نورجہاں نے گانے تھے لیکن میڈم جھومر میں ہیروئن آنا چاہتی تھیں‘ خواجہ صاحب مسرت نذیر کو زبان دے چکے تھے‘ وہ اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں تھے لہٰذا نورجہاں نے گانوں سے انکار کر دیا‘ خواجہ صاحب بحران کا شکار ہو گئے۔

اس وقت ریڈیو پاکستان پر سترہ اٹھارہ سال کی ایک لڑکی نے گانا شروع کیا‘ خواجہ صاحب نے اس کی آواز سنی اور اپنے اسسٹنٹ کو بلا کر کہا ’’مجھے نورجہاں کا متبادل مل گیا‘ تم یہ لڑکی تلاش کرو‘‘ پتا کرایا گیا تو معلوم ہوا لڑکی کا نام ناہید نیازی ہے‘ خاندان پڑھا لکھا اور شریف ہے‘والد ریڈیو پاکستان کراچی میں ڈائریکٹر ہیں‘ خواجہ خورشید انور کراچی گئے‘ناہید نیازی کے والد سرور نیازی سے ملے اوران کی بیٹی کو جھومر کے لیے گانا گانے کے لیے قائل کر لیا یوں ناہید نیازی نے فلموں کے لیے گانا شروع کیا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے صف اول کی گلوکارہ بن گئیں۔

اس زمانے میں مصلح الدین نام کے ایک نوجوان موسیقار ہوتے تھے‘ یہ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھتے تھے‘ بنگالی تھے اور کمال دھنیں بناتے تھے‘ ناہید نیازی نے مصلح الدین سے شادی کر لی‘ یہ باقاعدہ ’’ارینجڈ میرج‘‘ تھی‘ ناہید نیازی نے 1960 سے لے کر 1970 تک بے انتہا عروج دیکھا‘ 1971ء کا سانحہ پیش آیا اور ملک اچانک مصلح الدین کے لیے اجنبی بن گیا۔

ناہید نیازی مغربی پاکستانی تھیں اور مصلح الدین مشرقی پاکستانی‘ یہ دونوں بیٹھے اور انھوں نے دونوں ملکوں کو خیرباد کہہ دیا‘ لندن گئے اور ہاں بس گئے‘ ناہید نیازی نے صرف ملک نہیں چھوڑاتھا انھوں نے فلموں کے لیے گانا بھی ترک کر دیا‘ انھوں نے آخری بار 1972 میں بدگمان فلم کے لیے گانا گایا تھا‘ مصلح الدین 2003 میں لندن میں انتقال کر گئے جب کہ ناہید نیازی اس وقت بھی برطانیہ میں ہیں اور ان کی عمر 81 سال ہے۔

یہ صرف ناہید نیازی کی کہانی نہیں‘ ہم اگر تحقیق کریں تو یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ناہید نیازی جیسے لاکھوں ٹیلنٹڈ‘ پڑھے لکھے اور شان دار انسان مختلف اوقات میں ملک سے نقل مکانی کرتے رہے‘ آپ امریکا‘ کینیڈا یا برطانیہ جائیں آپ کو وہاں لاکھوں پڑھے لکھے اور کام یاب پاکستانی ملیں گے‘ یہ لوگ مختلف ادوار میں ملک سے نکلے‘ وطن سے دور آباد ہوئے اور ایک مطمئن زندگی گزارتے چلے گئے‘ اسلام آباد میں ای سیون‘ ایف سیون‘ ایف ایٹ اور جی سکس پوش ترین علاقے ہیں‘ ای سیون مہنگا اور پرسکون ترین سیکٹر ہے۔

ایوب خان اور بھٹو صاحب کے دور میں ملک کے اعلیٰ ترین بیوروکریٹس‘ جرنیل ‘ بزنس مین اور دانشور اس سیکٹر میں رہائش پذیر تھے‘ ایف ایٹ اور ایف سیون میں بھی ملک کی کریم رہتی تھی‘ لاہور میں چھاؤنی‘ گلبرک اور ماڈل ٹاؤن اشرافیہ کی بڑی آبادیاں تھیں اور کراچی میں کلفٹن کا علاقہ کروڑ پتیوں کی بستی تھی لیکن آج وہ تمام خاندان کہاں ہیں؟ اسلام آباد کے چاروں مہنگے سیکٹرز کے گھر چالیس برس میں تین تین بار بک چکے ہیں اور وہ عظیم لوگ اور خاندان جنھیں ملنے کے لیے لوگ دوسرے ملکوں سے آتے تھے وہ مدتوں پہلے نقل مکانی کر چکے ہیں۔

دوسرا اسلام آباد کی مختلف سڑکیں مختلف مشاہیر سے منسوب ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی یہ سڑکیں جن سے منسوب ہیں ان میں سے کسی سڑک پر اس عظیم شخص کا گھر یا خاندان موجود نہیں حتیٰ کہ شاہراہ دستور سے دستور بھی نقل مکانی کر چکا ہے‘ تیسراہم نے ملک کی تمام چھاؤنیوں کی مختلف سڑکیں بھی مختلف بہادر اور نامور افسروں سے منسوب کر رکھی ہیں لیکن ان میں سے بھی 98 فیصد افسروں کی اولاد برسوں پہلے ملک چھوڑ گئی تھی اور چوتھا آپ تحقیق کر لیں ایوب خان کے دور کے 22 خاندان کہاں ہیں؟ بھٹو صاحب کے اسٹار جیالوں کے خاندان کہاں ہیں۔

جنرل ضیاء الحق کے عظیم رفقاء کی اولادیں کہاں ہیں‘ جنرل پرویز مشرف کے ساتھیوں کے خاندان کہاں چلے گئے اور محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کی اپنی اولادیں‘ اثاثے اور گھر کہاں ہیں اور ان کے ساتھی بھی کہاں کہاں آباد ہو رہے ہیں؟

آپ کسی دن ٹھنڈے دل ودماغ سے تحقیق کیجیے‘ آپ آج سویلینز میں سے 19ویں گریڈ اور آرمڈ فورسز میں کمانڈنگ افسروں سے دیکھنا شروع کیجیے اور پھر آرٹ‘ کلچر‘ ادب‘ تعلیم‘ سائنس‘ بزنس‘ میڈیکل انجینئرنگ اور سیاست ملک کے تمام اداروں کو کھنگال کر دیکھ لیجیے آپ کو ہر شعبے کے کام یاب لوگ اور ان کے خاندان ملک سے باہر جاتے نظر آئیں گے‘ آپ جس دن دہری شہریت‘ ریزی ڈینسز اور تعلیم کے نام پر نقل مکانی کا ڈیٹابھی جمع کریں گے تو آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے‘ اچھے اور سمجھ دار نوجوان بیوروکریٹس تک نوکری چھوڑ کر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں۔

کیوں؟ ملک ماں کی طرح ہوتے ہیں اور کیا ماؤں کو چھوڑنا آسان ہوتا ہے؟ دوسرا والدین اپنی اولاد سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کو فتنہ اور آزمائش قرار دیا لہٰذا پھر ہمارے والدین اپنے بچوں کو اپنے آپ سے الگ کر کے دوسرے ملکوں میں کیوں بھجوا تے ہیں‘ پاکستانی والدین اپنی اولاد کے بغیر کیسے سروائیو کرتے ہوں گے؟ صفدر محمود ہمارے بزرگ تھے‘ وفاقی سیکریٹری کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے‘ دانشور بھی تھے‘ کالم نگار بھی‘ محقق بھی اور مصنف بھی‘ وہ پوری زندگی پاکستان اور پاکستانیت پر لکھتے رہے لیکن ان کا صاحبزادہ بھی امریکا میں تھا‘ ڈاکٹر صاحب اس سے ملنے گئے‘ بیمار ہوئے اور صرف دفن ہونے کے لیے پاکستان آئے‘ جنرل پرویز مشرف کی بیٹی اور بیٹا بھی مدت سے باہر ہیں اور شوکت عزیز لندن سے آئے‘ وزیراعظم بنے اور لندن واپس چلے گئے۔

اولاد بھی باہر رہی اور یہ صرف چند مثالیں نہیں ہیں‘ ایسے لاکھوں لوگ ہیں لیکن سوال پھر وہی ہے‘ یہ لوگ اپنا ملک‘ اپنی زمین‘ جائیداد‘ گھر‘ فیکٹریاں‘ والدین اور عزیز رشتے دار چھوڑ کر ان ملکوں میں کیوں چلے جاتے ہیں جہاں ان کی زبان ہوتی ہے‘ کلچر اور نہ ہی رہن سہن‘ یہ اذان کی آواز تک نہیں سن سکتے اور پوری زندگی اوئے‘ ابے اور تیری … سننے کے لیے ترس ترس کر مر جاتے ہیں‘ ہمیں بہرحال ماننا ہو گا اس ملک میں کوئی نہ کوئی آسیب‘ کوئی نہ کوئی سایہ اور کوئی نہ کوئی ایسی وبا موجود ہے جس کی وجہ سے راجہ صاحب محمود آباد سے لے کر صبیحہ خانم تک کوئی اہم شخص اس ملک میں نہیں ٹکتا اور اگر وہ کسی مجبوری سے یہاں رہ بھی جائے تو وہ اپنے خاندان‘ اپنے بچوں کو باہر منتقل کر دیتا ہے۔

کیوں؟ ہم نے کبھی سوچا اور ہم نے اگر آج تک نہیں سوچا تو پھر ہم کب سوچیں گے؟ اور یہ سلسلہ اگر اسی طرح جاری رہا تو یہ ملک دس بیس سال بعد کیا ہوگا! کیا ہمیں سمری اور ڈرافٹ لکھنے کے لیے بھی باہر سے لوگ نہیں منگوانا پڑیں گے؟ آپ یہ بھی ضرور سوچیے اور یہ بھی سوچیے ناہید نیازی جیسے لوگوں نے ملک سے کب نقل مکانی شروع کی تھی؟ آپ یہ جان کر حیران رہ جائیں گے ملک سے 90فیصد نقل مکانی مارشل لاؤں اورنفاذ اسلام کی کوششوں کے دوران ہوئی‘ ہمارے ملک کی آخری بڑی شخصیت ڈاکٹر عبدالقدیر تھے اور وہ بھی یہ کہتے ہوئے دنیا سے رخصت ہو گئے ’’میں نے پاکستان آ کر غلطی کی تھی۔‘‘

ہم اگر اس صورت حال کی وجوہات تلاش کریں تو بے شمار وجہیں ہو سکتی ہیں لیکن دو وجوہات ان وجوہات کی ماں ہیں‘ غیریقینی صورت حال اور مذہب کی اپنی اپنی تشریح‘ آپ ملک کا کوئی شعبہ اٹھا لیں آپ کو وہ بری طرح غیریقینی صورت حال کا شکار ملے گا‘ ہمارے ملک میں صدر‘ وزیراعظم اور چیف جسٹس سے لے کر اے سی اسلام آباد تک کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا ’’میں کل بھی اس سیٹ پر ہوں گا یا نہیں‘‘ پارلیمنٹ تک کو یہ یقین نہیں ہم نے 17 نومبر کو جو 33 بل پاس کرائے ہیں وہ اگلے سال تک قائم رہیں گے یا نہیں یا ڈالر 178 روپے پر رہے گا یا 250 تک پہنچے گا؟اس غیریقینی صورت حال کے ساتھ تو مرغی بھی انڈہ نہیں دیتی اور ہم ریاست چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ کیسے چلے گی؟ اور دوسرا اس ملک میں 21 کروڑ لو گ اور 21 کروڑ ہی اسلام کی تشریحات ہیں اور ہر شخص اپنی تشریح کی بنیاد پر دوسرے شخص کو قتل کرنے کے لیے تیاربیٹھا ہے اور ریاست اپنا منہ چھپاتی پھر رہی ہے لہٰذا پھر یہ ملک کیسے چلے گا؟ ملک کی حالت یہ ہے میں نے کل اپنے ایک دوست کو سعد رضوی سے ملاقات کرتے دیکھا‘ دونوں کے نظریات میں مشرق اور مغرب کا فرق تھا‘ میں نے دوست سے اس یوٹرن کے بارے میں پوچھا تو اس نے کمال جواب دیا۔

اس کا کہنا تھا ’’ملک میں اب سعد رضوی کے سوا کوئی شخص مجھے میری جان اور مال کا تحفظ نہیں دے سکتا‘‘ اس نے مجھے بھی مشورہ دیا ’’تم بھی اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو چپ چاپ ٹی ایل پی جوائن کر لو‘‘ آپ یقین کریں میں بھی اس کے بعد سنجیدگی سے دو آپشنز پر غور کر رہا ہوں‘ میں ملک سے چلا جاؤں یا پھر ٹی ایل پی جوائن کر لوں‘میرے پاس اس کے علاوہ کیا آپشن ہے؟ میرا آپ کو بھی مشورہ ہے بھاگ کر بچ جائیں یا پھر ٹی ایل پی کی پناہ لے لیں‘ اس کے علاوہ آپ کے پاس بھی اب کوئی آپشن نہیں بچا۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔

How to write on Imranjunior website
How to write on Imranjunior website
Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں