تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
پاکستانی سیاستدان اگر حکومت میں آ جائیں تو وہ کتنا عرصہ اپنی عزت اور ساکھ بچا سکتے ہیں؟ عموما ًحکمرانوں کا ہنی مون پریڈ تین ماہ ہوتا ہے۔ کوئی بھی نیا حکمران آتا ہے تو لوگ پہلے تین ماہ خاموش رہتے ہیں۔ اس کے بعد دھیرے دھیرے سرگوشیاں اور سوالات شروع ہو جاتے ہیں۔ آخرکار عوام ان حکمرانوں سے تین سال بعد اُکتا جاتے ہیں اور حکومت کا چل چلائو شروع ہوجاتا ہے۔ لوگ پوچھنا شروع کر دیتے ہیں کہ حکومت کب جارہی ہے۔ اگر آپ اس سلسلے کو 1985ء کے بعد دیکھیں تو آپ کو یہی پیٹرن نظر آئے گا۔ کوئی ایک وزیراعظم بھی پانچ سال پورے نہ کرسکا۔ اب یہ الزام آپ اداروں پر ڈال سکتے ہیں کہ وہ ان سیاستدانوں کو نہیں چلنے دیتے اور انہیں گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ ان کی جگہ دوبارہ اُسی پرانے وزیراعظم کو لا کر بٹھا دیا جاتا تھا جسے تین سال پہلے گھر بھیجاتھا۔یوں یہ سائیکل آج تک چل رہا ہے۔
عمران خان کے بارے میں تھا کہ وہ نہ صرف پانچ سال پورے کریں گے بلکہ ان کی پارٹی رہنما کہتے تھے کہ وہ 2028ء تک ہیں۔خیر کبھی کبھار پی ٹی آئی کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ انہیں تکبر‘ غرور اور بھڑکیں لے ڈوبیں۔ جب انہوں نے دعوے سے کہنا شروع کر دیا کہ اگلے دس سال بھی خان صاحب وزیراعظم رہیں گے تو اپنا گڑھا خود کھود رہے تھے۔ اقتدار اور حکومت میں تو زبان بند اور کان کھلے رکھنے پڑتے ہیں۔ خان صاحب کے بڑے بڑے حامی بھی مانتے ہیں کہ خان صاحب نے زبان کھلی اور کان بند رکھے۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ خیر بولنے اور بڑھکیں مارنے کا کام تو سب نے کیا اور بھگتا بھی۔ اچھا حکمران بولتا کم اور دوسروں کو سنتا زیادہ ہے۔خیر پاکستان کے تین مقبول ترین وزرائے اعظم کا حال دیکھیں تو حیرانی ہوتی ہے۔ بھٹو صاحب 50‘51برس کی عمر میں پھانسی لگ کر قبرستان میں دفن ہوئے‘ تین دفعہ کے وزیراعظم نواز شریف اس وقت سزا یافتہ‘ نااہل اور اشتہاری کا ٹائٹل ماتھے پر سجائے لندن میں خودساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہیں جبکہ سابق عمران خان تین سال کیلئے اٹک جیل میں ہیں۔
اس پورے معاملے میں قصور کس کا ہے؟ بھٹو صاحب کا‘ نواز شریف‘ عمران خان یا ان کا جنہوں نے ان تین سابق وزرائے اعظم کو اس حال تک پہنچایا؟ یقینا جو لوگ سیاست اور سیاستدانوں سے ہمدردی رکھتے ہیں وہ یہی کہتے ہیں کہ سیاست اور سیاستدانوں کو اس ملک میں کب موقع ملا ہے یا موقع دیا گیا ہے کہ وہ کام کر سکیں۔ ہر دفعہ وہ لوگ جنہیں بھٹو یا نواز شریف یا عمران خان نے بڑے عہدے دیے انہوں نے ہی انہیں تخت سے اتار دیا۔یہ بات یقینا درست ہوگی لیکن بھٹو نے اگر جنرل ضیاکو فہرست میں سے چھٹے ‘ساتویں نمبر سے اٹھا کر آرمی چیف بنایا تو ان کے ذہن میں کیا تھا؟ میرا خیال ہے واحد میرٹ ذاتی وفاداری تھی۔ نواز شریف نے بھی جنرل علی قلی خان کو نظر انداز کر کے پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا تو بھی وجہ پروفیشنل ازم یا سنیارٹی نہیں تھی بلکہ چوہدری نثار اور شہباز شریف کی یقین دہانی تھی کہ اردو سپکینگ جنرل زیادہ پاپولر نہیں‘ وفادار رہے گا کہ اسے وہ عہدہ مل رہا ہے جس کا وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔اس طرح جب عمران خان جنرل باجوہ کو مدتِ ملازمت میں توسیع دے کر جنرل فیض کو باقی سینئر افسران پر ترجیح دے کر ڈیڑھ سال پہلے ہی انہیں آرمی چیف بنا ئے پھرتے تھے تو آپ کا کیا خیال ہے اس کی وجوہات پروفیشنل تھیں یا خان صاحب کے ذہن میں بھی یہی تھا کہ وہ جرنیلوں کے ذریعے 2028ء تک وزیراعظم رہیں گے۔
اہم تعیناتی کرتے وقت جب وزرائے اعظم کا دھیان اس بات پر تھا کہ وہ ذاتی وفادار رہیں گے تو پھر انسانی تاریخ میں وفاداریاں تو تبدیل بھی ہوتی رہتی ہیں۔ ہوسکتا ہے جن وجوہات کی بنیاد پر کوئی بندہ آپ کا وفادار بنا ہو‘ کچھ عرصے بعد اسے آپ میں وہ خوبیاں نظر آنا بند ہوجائیں اوروہ خود کو بدل لے۔ انسان بدلتے ہیں‘ ان کی سوچ بدلتی ہے‘ ان کی وفاداریاں بدلتی ہیں۔عمران خان بھی بھٹو اور نواز شریف کے انجام سے نہیں سیکھے کہ وہ بھی ان دونوں کی طرح اپنا وفادار آرمی چیف لگانا چاہتے تھے اوراس کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار تھے‘ بلکہ تیار کیا تھے وہ اس حد کو عبور کر گئے اور جیل جا بیٹھے۔
میں ہمیشہ دوستوں کی محفل میں کہتا تھا کہ عمران خان خوش قسمت تھے کہ جنرل فیض کو آرمی چیف نہیں لگا سکے ورنہ انہوں نے وہی کرنا تھا جو جنرل ضیااور پرویز مشرف نے بھٹو اور نواز شریف کے ساتھ کیا۔لیکن شاید ہر وزیراعظم سمجھتا ہے کہ پچھلے بیوقوف تھے وہ زیادہ سمجھدار ہے۔ وہ جرنیلوں کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔ پچھلے وزیراعظم اپنے آرمی چیف کو نہ سمجھ سکے لیکن وہ سمجھ گیا ہے۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ مجھے ان سیاسی حکمرانواں خصوصا ًوزرائے اعظم سے زیادہ ہمدردی کیوں نہیں رہتی؟اس کا سیدھا جواب ہے کہ یہ سیاستدان سے زیادہ دکاندار والی سوچ رکھتے ہیں جوکاروبار میں صرف اپنا فائدہ دیکھتا ہے۔ اُسے گاہک سے غرض نہیں کہ وہ کس مزاج کا ہے‘ حلیہ کیا ہے یا کیا کرتا ہے۔یہ بات ہم نے سیاسی وزرائے اعظم میں دیکھی ہے۔ بھٹو کو ضیا الحق میں ایک کمزور اور خوشامد کرنے والا آدمی نظر آتاتھا جو اُن کے اشاروں پر چلے گا۔ ایک دن وہی بھٹو اتنا کمزور ہوگیا کہ 1977ء کے الیکشن کے بعد چلنے والی احتجاجی تحریک کے پی این اے لیڈروں کے ساتھ مذاکرات میں اپنے ساتھ اسی جنرل ضیاکو لے گیا تو نوابزادہ نصراللہ خان نے کہا کہ وہ سیاسی ملاقاتوں میں فوجی افسران کو مت لائیں۔ جنرل ضیاکو باہر بھجوا دیا گیا۔ جنرل ضیاکو اب پتہ تھا کہ بھٹو فارغ ہوچکا ہے‘ جسے اپنے سیاسی مخالفوں سے نبٹنے کے لیے فوج کی ضرورت ہے۔ بھٹو کو فارغ کر دیا گیا۔ بھٹو نے فوج اور سیاسی مخالفین میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا ‘اس نے فوج کا کیا۔نواز شریف نے بھی یہی کچھ کیا اور ہر دفعہ خود جیل جا بیٹھے اور جمہوریت ہائی جیک ہوگئی۔ بارہ اکتوبر کے روز جنرل ضیاالدین بٹ کو آرمی چیف بنا دیا۔ وجہ ان کا بٹ ہونا تھا‘مگر وہی پرویز مشرف جنہیں کمزور سمجھ کر لایا گیا تھا انہوں نے انہیں دس سال کے لیے سیاست سے آئوٹ کر دیا۔آپ کا کیا خیال ہے نواز شریف نے سبق سیکھا؟ اس سوال کا جواب جنرل راحیل اور جنرل باجوہ کی تقرری سے دیکھ لیں کہ ان کو لگانے کا کرائیٹریا کیا تھا اور کون کون لوگ ان کے ضامن تھے کہ وہ مشرف والا کام نہیں کریں گے۔ لیکن جنرل راحیل نے توسیع نہ ملنے پر ڈان لیکس کو استعمال کیا توجنرل باجوہ نے اس پراجیکٹ کو مکمل کر کے نواز شریف کو جیل میں ڈالوایا اور وزیراعظم کو نااہل کرایا۔
عمران خان کو لانے کی وجہ جنرل باجوہ کا خواب تھا کہ اپنے استاد جنرل کیانی کی طرح توسیع لینی ہے۔ خان نے توسیع دی تاکہ وہ 2028ء تک وزیراعظم رہیں۔ وجہ وہی اِن سکیورٹی تھی جو بھٹو اور نواز شریف میں تھی کہ جرنیلوں کو ساتھ ملا کر تاحیات وزیراعظم رہنا ہے۔ خیر ماننا پڑے گا کہ عمران خان‘ بھٹو اور نواز شریف سے زیادہ سمجھدار نکلے۔ وہ تو جنرل باجوہ کو تین سال توسیع دینے کے بعد اپنے اگلے آرمی چیف کا انتخاب بھی وفادار فیض حمید کی صورت میں کر چکے تھے‘ جس نے فوج کے اندر بے چینی پیدا کی اور ان کا انجام اٹک جیل میں سب کے سامنے ہے۔(بشکریہ دنیانیوز)
تین وزیراعظم ‘ تین کہانیاں
Facebook Comments