تحریر: جلال الدین مغل۔۔
آزاد کشمیر میں صحافیوں کی تنظیمیں ایک قومی اخبار میں شائع ہونے والے اس اشتہار کے خلاف احتجاج کر رہی ہیں، جس میں اخبار نے تین سال قبل انتقال کرنے والے ایک رپورٹر سمیت اپنے ایک درجن سے زائد نمائندگان کو ’ناقص کارکردگی‘ کی بنیاد پرفارغ کر دیا ہے۔۔اطلاعات کے مطابق یہ نمائندگان کئی سالوں سے بغیر تنخواہ کے کام کر رہے تھے بلکہ ان میں سے بعض نے اخبار کو اعزازی نامہ نگار کے طور ہر کام کرنے کے لیے سکیورٹی کی مد میں رقم بھی جمع کروا رکھی تھی۔۔روزنامہ ’خبریں‘ اخبار کے انچارج نمائندگان نوید چوہدری نے اس حوالے سے کسی قسم کی تفصیلات فراہم کرنے سے گریز کیا ہے، تاہم فارغ کیے گئے نمائندگان میں سے کچھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ ادارے نے انہیں اشتہارات جمع کرنے کا ٹارگٹ دے رکھا تھا اور وہ پورا نہ ہونے پر انہیں ’توہین آمیز‘ انداز میں فارغ کر دیا گیا۔ چوبیس فروری کو شائع ہونے والے اشتہار میں جن 14 صحافیوں کے نام شامل ہیں ان میں سے ایک چوہدری شبیر رچیال تین سال قبل انتقال کر چکے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ وہ وفات سے قبل تین سال تک کومہ کی حالت میں رہے۔ میرپور کے علاقے چکسواری سے تعلق رکھنے والے چوہدری شبیر رچیال کی وفات کے بعد ان کا خاندان برطانیہ منتقل ہو چکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق آزاد کشمیر میں مقامی نامہ نگاروں کی کل تعداد سات سے آٹھ سو کے درمیان ہے اور ان کی واضح اکثریت بغیر تنخواہ کے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اخبار معمولی کمیشن کے عوض ان نامہ نگاروں کو اشتہارات جمع کرنے کا ٹارگٹ دیتے ہیں۔ مطلوبہ تعداد میں اشتہارات جمع نہ کر سکنے والے نمائندگان کو اس طرح ادارے سے نکالے جانے کی مثالیں ماضی میں بھی موجود ہیں، تاہم ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ صحافیوں کی تنظیموں نے اس نوعیت کے واقعے پر احتجاج کرتے ہوئے اسے مقامی نامہ نگاروں کی تذلیل قرار دیا ہے۔صحافیوں کی تنظمیوں کے نمائندگان نے الزام عائد کیا ہے کہ روزنامہ خبریں کی شہرت اس حوالے سے پہلے بھی اچھی نہیں۔ اخبار کا ڈیکلیریشن مظفرآباد سے جاری ہوا مگر یہاں ان کا کوئی دفتر ہے اور نہ ہی اخبار یہاں سے تیار ہوتا ہے۔ اخبار ہر چھ ماہ بعد اپنے نمائندگان اور بیوروچیف کو تنخواہ ادا کیے بغیر فارغ کردیتا ہے، تاہم اس مرتبہ تو تمام حدیں عبور کرلی ہیں۔
اس سے قبل سینٹرل یونین آف جرنلسٹس کے عہدیداروں نے ایک علیحدہ پریس کانفرنس کے دوران اعلان کیا ہے کہ وہ اس اخبار کے اشتہارات بند کرنے کے لیے محکمہ اطلاعات کو متحرک کریں گے اور اگر اخبار کے مالکان نے اس طرز عمل پر معافی نہ مانگی تو پاکستان کے زیر انتطام کشمیر میں اخبار کی سرکولیشن بند کر دی جائے گی۔صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم نیم سرکاری ادارے آزاد جموں و کشمیر کے وائس چیرمین سردار ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک قومی اخبار کی طرف سے اپنے نمائندگان کے ساتھ اس نوعیت کا توہین آمیز سلوک نا قابل برداشت ہے اور اس معاملے پر اخبار کے خلاف کارروائی کے لیے مشاورت جاری ہے۔ پریس فاؤنڈیشن کی تحریک پر محکمہ اطلاعات پہلے ہی اس نوعیت کے اشتہار شائع کرنے پر پابندی عائد کر چکا ہے، جن سے کسی صحافی یا اخباری کارکن کی عزت نفس مجروح ہونے کا احتمال ہو۔
پاکستان میں صحافیوں کی اجرت کا تعین کرنے کے لیے ویج بورڈ لاگو ہے، تاہم آزاد کشمیر کی متنازع حیثیت کے باعث اس کا اطلاق یہاں نہیں ہوتا۔ قومی اخبارات اس آئینی ابہام کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کارکن صحافیوں کا استحصال کرتے ہیں۔ آزاد کشمیر میں مزدو کی کم سے کم ماہانہ اجرت 17500 روپے مقرر ہے تاہم بہت کم اخبارات اپنے نامہ نگاروں کو اس شرح کے مطابق تنخواہ ادا کرتے ہیں۔ بیشتر اخبارات تو اپنے نمائندگان اور نامہ نگاروں کے ساتھ معاہدے تک نہیں کرتے۔
اگرچہ آزاد کشمیر میں محکمہ اطلاعات نے سرکاری اشتہارات کا اجرا صحافیوں کو تنخواہوں کی ادائیگی سے مشروط کر رکھا ہے تاہم ان اخبارات کی جانب سے محکمے کو اپنے نمائندگان کی غیر مصدقہ فہرستیں فراہم کی جاتی ہیں۔وفاقی اشتہارات میں آزادکشمیر کا کوٹہ اڑھائی فیصد ہے، جو سالانہ تقریباً 25 کروڑ روپے بنتا ہے تاہم یہاں سے شائع ہونے والے اخبارات کو اس میں سے بمشکل چند لاکھ روپے ملتے ہیں۔ باقی کے سرکاری اشتہارات پاکستان سے شائع ہونے والے وہ اخبارات لے جاتے ہیں جنہوں نے آزاد کشمیر میں فرضی ڈیکلیریشن حاصل کر رکھے ہیں، تاہم ان کا یہاں کوئی دفتر موجود ہے اور نہ ہی باقاعدہ تنخواہ دار ملازمین، بلکہ یہ اخبارات تیار اور شائع بھی راولپنڈی، اسلام آباد یا لاہور میں ہوتے ہیں۔
آزاد کشمیر میں سرکاری اشتہارات کا سالانہ بجٹ 17 کروڑ روپے کے لگ بھگ ہے۔ جن میں سے 70 فیصد حصہ پاکستان سے شائع ہونے والے اخبارات کو ملتا ہے۔ میڈیا لسٹ پر موجود ایسے اخبارات کی تعداد 80 کے لگ بھگ ہے تاہم اشتہارات کا زیادہ تر کوٹہ چار بڑے اخبارات روزنامہ جنگ، روزنامہ نوائے وقت، روزنامہ خبریں اور روزنامہ اوصاف لے جاتے ہیں۔حیرت انگیز طور پر آزاد کشمیر کی کل آبادئ 42 لاکھ کے لگ بھگ ہے اور اس میں سے 15 لاکھ کے لگ بھگ لوگ پاکستان کے مختلف شہروں یا بیرون ملک مقیم ہیں تاہم آڈٹ بیورو آف سرکولیشن کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں فروخت ہونے والے اخبارات کی روزانہ کی سرکولیشن 68 لاکھ کے قریب ہے جو کل آبادی سے دوگنا ہے۔(بشکریہ انڈی پینڈنٹ )۔۔