تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،شوال کے ہر چاند پر جھگڑا ہوتا ہے کہ چاند نظر آیا نہیں آیا، اسلامی کلینڈر کے بارہ ماہ میں صرف رمضان المبارک اور شوال المعظم کے چاند پر ہی ہماری قوم میں تفریق نظر آتی ہے ورنہ باقی دس ماہ تو اتنے خاموشی سے گزرجاتے ہیں کہ جیسے اسلامی مہینوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں۔سارا سال چاند پر کوئی پھڈا نہیں ہوتا لیکن جیسے ہی رمضان کاانتیس واں روزہ ہوتا ہے، سب اپنے اپنے ’’چاند چڑھانے‘‘ میں لگ جاتے ہیں۔۔ اس بار بھی چاند پر جھگڑے کی وجہ سے ملک میں تین عیدیں منائی گئیں۔۔ شمالی وزیرستان والوں نے تو حد ہی کردی اٹھائیس ویں روزے کو ہی چاند دیکھ لیا اور اتوار کو عید منالی، پوپل زئی نے مسجد قاسم خان میں بیٹھ کر اتوار کی رات کو چاند چڑھا دیا اور خیبر پختونخوا حکومت نے سرکاری طور پر پیر کی عید کا اعلان بھی کردیا جب کہ مرکزی رویت ہلال کمیٹی نے اتوار کو پہلے ہی اعلان کردیا تھا کہ ملک بھر میں کہیں چاند نظر نہیں آیا اس لئے عید منگل کے روز منائی جائے گی۔ پیر کے روز جو اخبارات شائع ہوئے اس کی ہیڈنگ کچھ یوں تھی کہ۔۔پاکستان میں عید کا چاند نظر نہیں آیا، کے پی میں کل عید ہوگی۔۔۔ خبر پڑھ کر ایسے لگ رہا تھا جیسے خیبرپختونخوا پاکستان سے باہر کسی دوسری جگہ واقع ہے۔ ۔چلیں اب عید کے حوالے سے کچھ چٹ پٹی باتیں کرلیتے ہیں۔۔ یہ وہی باتیں ہیں جن کی وجہ سے ہم مشہور ہیں۔۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ اتنی اوٹ پٹانگ باتیں کیسے کرلیتے ہیں؟ اب انہیں کون سمجھائے کہ جو خود اوٹ پٹانگ ہوتو پھر وہ اوٹ پٹانگ باتیں کیوں نہ کریں۔
ایک نجی ٹیلی وثرن پر بہت سے لوگوں کو ایک دوسرے کی جانب دیکھ کر اور کچھ وقفے کے بعد ہنستے ہوئے دیکھا پھر بعد میں پتہ چلا کہ سامنے ایک حضرت پرانے وقتوںکی اسلوب میں ایک عام مزاحیہ گفتگو کر رہے تھے تو ہمیں عید کی نماز یاد آئی کہ اکثر لوگوں کو اس کی تکبیروں کی تعدادیاد نہیں ہوتی اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہاتھ باندھتے ہیںیا سجدے میں جاتے ہیں سب اس طرح بیٹھے گفتگو سن رے تھے جیسے سمجھ رہے ہیں۔ ایک کنجوس عاشق نے اپنی محبوبہ کو عید کا تحفہ بھجوانے کیلئے ایک گلدان کا انتخاب کیا۔لیکن وہ پیمنٹ کرنے کے بعد وہیں گر کر ٹوٹ گیا۔ اس نے سوچا کہ میری محبوبہ سمجھے گی کہ راستے میں ٹوٹ گیا،یہی سوچ کر اس نے گلدان پارسل کرنے کیلئے الگ سے ادائیگی کی اور محبوبہ کا ایڈریس دے کر گھر آگیا۔۔۔کچھ دن بعد محبوبہ کا خط ملا۔جس میں لکھا ہوا تھا۔عید کا تحفہ بھجوانے کا شکریہ۔اور جس احتیاط سے اْپ نے دونوں ٹکڑوں کو الگ الگ لپیٹ کر بھیجا اس کا بھی شکریہ۔۔دو ملازمائیں اپنی اپنی مالکن کے بچے کو پارک میں بچہ گاڑی میں گھما رہی تھیں۔ایک نے دوسری سے پوچھا۔۔عید آرہی ہے۔۔۔کیا اس مرتبہ بھی تم عید کی چھٹیوں میں اپنے گاوں جاؤگی؟۔۔دوسری ملازمہ نے قدرے افسردہ لہجے میں جواب دیا۔۔ نہیں، اس مرتبہ نہیں جاسکوں گی۔پہلی ملازمہ نے حیرت سے پوچھا۔۔کیوں۔۔۔؟کیا تمہاری یہ نئی مالکن بہت سخت ہے؟کیا یہ تمہیں عید کی چھٹیاں نہیں دے گی؟اس سے پہلے تو تم ہر سال عید کی چھٹیوں پر اپنے گاؤں جاتی تھیں۔۔دوسری ملازمہ نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہا۔۔نئی مالکن سخت تو نہیں ہے۔۔اگر میں چھٹی مانگوں تو دے ہی دیں گی لیکن اس بچے سے مجھے بہت پیار ہوگیا ہے۔اس نے بچہ گاڑی میں لیٹے بچے کو پیار کیا اور مزید کہا۔۔میں اسے بیگم صاحبہ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جانا نہیں چاہتی۔۔ایک ملازم نے اپنے باس سے کہا۔۔ سر، کیا مجھے کل کی چھٹی مل سکتی ہے؟ مجھے عید کی شاپنگ کے سلسلے میں بیوی کے ساتھ بازار جانا ہے۔۔۔ باس نے ماتحت کو گھورا اور انتہائی سخت لہجے میں کہا۔۔ہرگز نہیں۔۔دیکھ نہیں رہے ہو، دفتر میں کتنا کام باقی ہے۔۔ملازم نے باس کا غصہ نظرانداز کرتے ہوئے گہری سانس لیتے ہوئے کہا۔۔ بہت بہت شکریہ سر۔۔عید کا موقع تھا، ایک شخص کے گھر میں چوری ہوگئی، عید کے تمام کپڑے جوتے چور اٹھاکر لے گئے، گھر کے سارے افراد جمع تھے کہ اتنے میں ڈاکیہ ایک عید کا رڈ دے گیا، اس پر لکھا تھا۔۔آپ کوعید مبارک ہو، اللہ پاک آپ کوہمیشہ ایسی ہزاروں عیدیں دکھائے۔۔عید کے حوالے سے ہی تازہ شگوفہ پیش خدمت ہے۔۔ جب ٹارزن جنگل میں ایک مرا ہواچیتا دیکھتا ہے تو پتہ ہے کیا سوچتا ہے؟؟ ٹارزن سوچتا ہے، چلو یار، عید کے کپڑوں کا انتظام تو ہوگیا۔
موٹاپے سے مجبور ایک شخص نے خود سے وعدہ کیا کہ اب سے وہ برگر،پیزے،چٹ پٹی چیزوں کا بائیکاٹ کرے گا،کولڈڈرنک تو بالکل بھی نہیں پیئے گا۔عید کی شام بیوی بچوں نے ضدکی کہ، پیزا اور آئس کریم کھانی ہے، اس شخص نے سوچا ،قسم تو اپنے لئے کھائی ہے، بچوں پر نافذ کیوں کروں؟ وہ بیوی بچوں کو قریبی پیزا شاپ لے گیا، وہاںسے اپنی فیملی کے لئے دو لارج پیزے ،کچھ آئس کریم اور کولڈ ڈرنکس لیں، فیملی کے ارکان نے جب مال مفت پر بے رحمی سے حملہ کیا تو وہ ساتھ والی میز پر بیٹھ گیا اور اپنے بیوی بچوں کو کھاتے پیتے دیکھنے لگا۔۔اگلی صبح جب اس نے اپنی فیس بک کھولی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ۔۔کسی پیج کے ایڈمن نے اس کی فیملی کی پیزا کھاتے ہوئے تصویر اپنے پیج پر لگائی ہوئی تھی ،جس میں وہ موٹا الگ کرسی پر بیٹھا نظر آرہا تھا ،اس پر سرخ دائرہ بنایا ہوا تھا اور لکھا تھا۔۔ ظلم کی انتہا دیکھیں،امیر لوگ خود تو مزے دار پیزے، آئس کریم اور کولڈ ڈرنکس کے مزے لوٹ رہے ہیں اور اپنے غریب ملازم کو بھوکا پیاسا الگ کرسی پر بٹھایاہوا ہے۔
یہ بات بھی سوفیصد حقیقت ہے کہ گھر میں چھوٹا بھائی ہو یا چھوٹا بیٹا وہ بالکل یوفون کا اشتہار معلوم ہوتا ہے، کوئی بھی کام ہوسب اسی کی طرف دیکھتے ہیں گویا کہہ رہے ہوں۔۔تم ہی تو ہو۔۔باباجی فرماندے نے، ساری رات سو سو کے بندہ تھک جاتا ہے اس لئیے دن میں بھی آرام بہت ضروری ہے۔۔ان کایہ بھی فرمان عالی شان ہے کہ ۔۔خوش گوار ازدواجی زندگی کے لئے میاں بیوی کے درمیان ہم آہنگی بہت ضروری ہے لیکن ہمارا معاشرہ اسے ’’زن مریدی‘‘ قراردے کر اس کی تذلیل کرتا ہے۔۔آپ بھی ہماری اس بات سے متفق ہوں گے کہ ،پریشانی بتا دینے سے بندہ اتنا پریشان نہیں ہوتا جتنا اس جملے سے ہوتا ہے کہ۔۔میں پریشانی بتا کے آپ کو بھی پریشان نہیں کرنا چاہتا۔۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ۔۔انگریزی بولنے میں کوئی حرج نہیں،لیکن یقین کریں نہ بولنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔۔پیارے دوست مزید فرماتے ہیں کہ ۔میں نے جوتا پسند کرتے وقت کبھی قیمت نہیں دیکھی کہ کم ہے یا زیادہ،بس جس جوتے میں پاؤں سکون محسوس کرے ،جمعہ کے بعد وہی پہن کے گھر آ جاتا ہوں۔۔اسی پر ماضی کا سپرہٹ پنجابی سانگ کا مکھڑا یاد آگیا۔۔چلو چلیے مسجد دی اس نکرے۔۔جتھے جتیاں دی لمبی قطار ہو وے۔۔اک تو چک لے اک میں چک لاں۔۔ ساڈی عید فیر بڑی مزے دار ہو وے۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔سب سے بڑی کنفیوژن عید ملنے کے وقت ہوتی ہے، ہر ملنے والے کی ’’جپھیوں‘‘ کی تعداد مختلف ہوتی ہے۔۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔