خصوصی رپورٹ۔۔
سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے بیانیے کے حامی ٹی وی اینکر اور یوٹیوبر عمران ریاض کو گرفتاری کے بعد تین دنوں میں صوبہ پنجاب کے تین اضلاع کی پولیس حراست میں لے چکی ہے۔ انھیں تین اضلاع کی حوالات میں منتقل کیا جا چکا ہے۔عمران ریاض کو منگل کی شب اٹک کی پولیس نے اسلام آباد ٹول پلازہ کے قریب سے گرفتار کیا تھا۔ بدھ کے روز ان کا دن اور رات کا زیادہ تر حصہ راولپنڈی اور اٹک کی عدالتوں کے چکر کاٹتے ہوئے گزرا۔جمعرات کو اٹک کی عدالت نے انھیں رہا کر دیا مگر ساتھ ہی ضلع چکوال کی پولیس نے انھیں گرفتار کر لیا اور انھیں چکوال منتقل کر دیا گیا۔جمعہ کو چکوال پولیس نے انھیں عدالت میں پیش کر کے پانچ دن کا جسمانی ریمانڈ مانگا۔ لیکن عدالت نے پولیس کی درخواست مسترد کر دی اور عمران ریاض کو راہداری ریمانڈ پر ضلع لاہور کی پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ انھیں پولیس کی قیدیوں والی گاڑی میں چکوال سے لاہور منتقل کر دیا گیا۔
تمام اضلاع میں اینکر عمران ریاض کے خلاف پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ یعنی پیکا کے تحت مقدمات درج ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے یوٹیوب چینل کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان کی افواج کے خلاف ہرزہ سرائی کی اور افواج کی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے۔عمران ریاض کے ایک وکیل عبدااللہ قدیر جنجوعہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اب تک ان کے خلاف پنجاب کے مختلف اضلاع میں 18 کے لگ بھگ ایف آئی آر درج کی جا چکی ہیں۔اور ان تمام مقدمات میں ایک ہی نوعیت کا الزام ہے اور ایک ہی نوعیت کے قانون کی دفعات عائد کی گئی ہیں۔ یہاں تک کہ ان تمام مقدمات میں ایف آئی آر کا متن اور تحریر بھی بالکل ایک جیسی ہے۔ان کے خلاف الزامات کا جائزہ لینے کے بعد راولپنڈی کی ایف آئی اے کی سپشل عدالت نے ان کے خلاف اٹک میں درج ایف آئی آر میں شامل پیکا کی دفعات کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ اس کے بعد انھیں دیگر فوجداری دفعات میں ضمانت کے لیے اٹک کے سول جج کے سامنے پیش کرنے کا کہا گیا تھا۔
اٹک کی مقامی عدالت نے ان کے خلاف الزامات کا جائزہ لینے کے بعد ایک مختصر فیصلے میں ان کی رہائی کا حکم دے دیا تھا۔ اس کے بعد ان کی مزید گرفتاریوں اور ایک سے دوسرے اضلاع منتقلی کا سلسلہ شروع ہوا۔قانونی ماہرین کے مطابق ایک عدالت کی جانب سے رہائی کے بعد اسی الزام کے تحت درج مقدمے میں دوبارہ گرفتار کیے جانا یہ ظاہر کرتا ہے کہ اینکر عمران ریاض کے خلاف قائم مقدمات قانونی طور پر کمزور ہیں۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ پھر انھیں بار بار گرفتار کیوں کیا جا رہا ہے؟
کیا عمران ریاض کو مختلف مقامات پر گرفتار کرنا لازمی ہے؟:پولیس کے مطابق عمران ریاض کو اس لیے گرفتار کر کے متعلقہ ضلعے منتقل کرنا ضروری ہوتا ہے کیونکہ ان کے خلاف مقامی پولیس کے پاس مقدمات درج ہیں جن میں وہ تحقیقات کے لیے مطلوب ہیں۔تاہم ان کے وکیل عبداللہ قدیر جنجوعہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’عمران ریاض کے خلاف بنیادی طور پر ایک ہی شکایت ہے جس کو تمام اضلاع میں درج شکایات میں کاپی پیسٹ کیا گیا ہے۔ان کے خیال میں ان تمام شکایات میں کوئی ’بونافائیڈ‘ یعنی حقیقی یا مستند درخواست گزار بھی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران ریاض کے خلاف مختلف اضلاع میں ایک ہی شکایت پر ایک سے زیادہ مقدمات درج کرنا ’دہرے مقدمے‘ کے زمرے میں آتا ہے۔یہ سپریم کورٹ کی طرف سے سنہ 2018 میں صغراں بی بی کیس میں دیے گئے فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے جس میں یہ طے کیا گیا تھا کہ ایک ہی نوعیت کے واقعے پر ایک سے زیادہ ایف آئی آر درج نہیں کی جا سکتیں۔وکیل عبداللہ قدیر جنجوعہ کے مطابق یوں بنیادی طور پر عمران ریاض کے خلاف ایک سے زیادہ ایف آئی آر درج ہونا ہی غیر قانونی ہے۔
تاہم اگر شکایات ایک سے زیادہ مقامات سے موصول ہوں؟:وکیل اور ہیومن رائٹس کے حوالے سے کام کرنے والے قانونی ماہر اسد جمال کے مطابق بنیادی طور پر ایک ہی نوعیت کے واقعے میں درج مختلف مقدمات کو اکٹھا کر کے ملزم کے خلاف ایک ہی جگہ پر عدالت میں کارروائی کی جا سکتی ہے۔ایسی صورتحال میں جہاں شکایت کی نوعیت بھی ایک ہی ہو اور واقعہ بھی ایک ہی ہو تو اس میں سینٹرل پولیس آفس کو چاہیے کہ وہ تمام مقامات سے شکایات کو اکٹھا کر کے ایک مرکزی مقام پر عدالت میں ملزم کے خلاف کارروائی کو آگے بڑھائے۔اسد جمال کے خیال میں موجودہ صورتحال میں بھی پنجاب پولیس تمام اضلاع سے شکایات یا مقدمات کو ایک ہی جگہ لاہور میں اکٹھا کر کے لاہور کی عدالت میں ان کے خلاف مقدمہ چلا سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مختلف مقامات پر ایک ہی نوعیت کی شکایت پر مقدمات درج ہونا بنیادی طور پر ضابطہ فوجداری کے سیکشن 44 کے بے جا استعمال کے زمرے میں آتا ہے۔سیکشن 44 کے مطابق کوئی بھی شخص جو مجموعہ تعزیراتِ پاکستان کی چند دفعات کے تحت قابلِ گرفت کسی جرم کو ہوتا دیکھے یا کسی شخص کی طرف سے جرم کرنے کی نیت سے آگاہ ہو تو وہ اس کی شکایت پولیس کو درج کروائے۔وکیل اسد جمال کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر صرف کسی واقعے کے ہونے کا ایک بیان ہوتا ہے۔ اس کی تصدیق یا تردید اور اس کے حوالے سے شواہد صرف تحقیقات میں ہی سامنے آتے ہیں۔ان کے خیال میں عمران ریاض کو پاکستان کا قانون یہ حق دیتا ہے کہ ملزم کے طور پر ان کے ساتھ برا سلوک نہ کیا جائے۔
انھیں بنیادی حقوق نہیں دیے جا رہے:عمران ریاض کے وکیل عبداللہ قدیر جنجوعہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے عمران ریاض کو قیدیوں والی گاڑی میں ڈال کر لاہور سے چکوال منتقل کیا۔انھوں نے یہ بھی دعوٰی کیا کہ چکوال کے جوڈیشل کمپلیکس کو پولیس نے بند کر دیا تھا اور مقامی ڈسٹرکٹ بار کے ممبران کو بھی اس عدالت تک رسائی نہیں دی گئی تھی جس میں عمران ریاض کو پیش کیا گیا تھا۔ایڈووکیٹ عبداللہ قدیر کا کہنا تھا کہ ’ان کو بنیادی حقوق نہیں دیے جا رہے۔ انھیں سونے نہیں دیا جا رہا، ٹھیک سے کھانا نہیں دیا جا رہا اور ان کے دیگر آئینی حقوق بھی انہیں نہیں دیے جا رہے۔وکیل اور قانونی ماہر اسد جمال کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شہری چاہے اس کی شہرت کیسی بھی ہو قانون اسے ایک ملزم کے طور پر تشدد سے آزادی کا حق دیتا ہے اور اس کے وقار کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا۔
واضح طور پر ضابطے پر عمل نہیں ہو رہا:وکیل اور لاہور میں اے جی ایچ ایس لیگل ایڈ سیل کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر ندا علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بظاہر اینکر عمران ریاض کے کیس کا سرسری جائزہ لینے سے ہی یہ نظر آتا ہے کہ ’واضح طور پر ضابطے پر عمل نہیں ہو رہا۔ان کا کہنا تھا کہ بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ عمران ریاض کو ’وکٹمائزیشن‘ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ندا علی کا کہنا تھا کہ عمران ریاض بظاہر ایک متنازعہ شخصیت تھے جنھوں نے اپنے بیانات اور خیالات سے معاشرے کے کئی طبقوں کو ناراض کیا۔وکیل ندا علی سمجھتی ہیں کہ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر ملک میں صحافتی یا دیگر تنظیمیں زیادہ آواز بلند نہیں کر رہیں۔لیکن اس کے باوجود کہ ان (عمران ریاض) کا کردار کیا رہا ہے، کوئی بھی شعور رکھنے والا شخص ان کے ساتھ ناروا یا خلافِ قانون سلوک کیے جانے کی حمایت نہیں کرے گا۔‘ ندا علی کا کہنا تھا کہ ریاست کسی بھی شخص کو ’وکٹمائیزیشن‘ کا نشانہ نہیں بنا سکتی۔
کیا عمران ریاض تمام 18 مقدمات میں گرفتار ہوں گے؟:جمعے کو لاہور پولیس نے عمران ریاض کو چکوال سے لاہور منتقل کیا۔ ان کے وکیل عبداللہ قدیر نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ عمران ریاض کے خلاف ایک ہی واقعے میں ایک سے زیادہ ایف آئی آر درج کرنے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔اب انھیں لاہور منتقل کیا جا رہا ہے تو معاملہ لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ کار میں آ جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں چھٹیاں ہیں اور اس نوعیت کے معاملات کو عمومی طور پر ہنگامی بنیادوں پر شنوائی کیے لیے نہیں لیا جاتا۔وکیل اور اے جی ایچ ایس کی ایگزیکیوٹو ڈائریکٹر ندا علی کا کہنا تھا کہ ’یہ بھی ایک روایتی طریقہ تھا کہ جب ریاست کسی کو وکٹمائیز کرتی ہے تو اس کے خلاف مقدمات زیادہ تر ہفتہ وار چھٹی یا عین چھٹیوں کے موقعے پر بنائے جاتے ہیں تا کہ اسے زیادہ سے زیادہ اذیت میں رکھا جائے۔ندا علی کے خیال میں معاملہ تاہم اب عدالت کے پاس ہی جا کر رکے گا۔ تاہم ان کے خیال میں اگر ایک عدالت عمران ریاض کے خلاف مقدمہ ختم کر چکی ہے تو اسی شکایت پر درج ان کے خلاف دیگر مقامات پر مقدمات بھی کمزور پڑ جائیں گے۔(بشکریہ بی بی سی اردو)