تحریر: ناصر جمال۔
ٹیکنو کریٹس، راستہ کیا ہے۔۔۔۔؟
تحریر: ناصر جمال۔
حافظ صاحب‘‘ کہہ رہے ہیں کہ معیشت اور دہشتگردی پر قومی اتفاق رائے چاہتے ہیں۔ وفاقی دارلحکومت کی غلام گردشوں میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت پر شور و غوغا برپا ہے۔ پہلے اسد قیصر اور اب رضا ربانی ٹیکنو کریٹ حکومت پر ایمان لانے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ دونوں تیر، اپنی اپنی قیادت کی جواب آں غزل ہیں۔
شنید ہے کہ سیکیورٹی کونسل کے گذشتہ اور آج ہونے والے اجلاس کی طرح ’’معیشت‘‘ ہی زیر بحث ہوگی۔ معاملات ’’معاشی نیوٹنز‘‘ کے ہاتھ سے نکل گئے ہیں۔ سُنا ہے پرانے حکیم ڈاکٹر حفیظ شیخ سے ایک بار پھر ’’نسخہ ہا کیمیا‘‘ طلب کیا گیا ہے۔ ویسے اس ملک کی بھی کیا قسمت ہے۔ حفیظ شیخ چار بار پہلے بھی وزیر خزانہ رہ چکے ہیں۔ ایسا انھوں نے کونسا انقلاب بپا کیا تھا کہ آج پھر سے انھیں ھی یاد کیا جا رہا ہے۔ شوکت عزیز، حفیظ شیخ، شوکت ترین، اسد عمر، شبر زیدی اور اسحاق ڈار نے اس ملک کے ساتھ ’’گینگ ریپ‘‘ کیا ہے۔ ویسے ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی کیا کمال شہ ہے۔ اس کے پاس یہی ہیرے ہمیشہ سے موجود ہوتے ہیں۔ پھر انھیں ہی ٹاسک دے دیا جاتا ہے۔ قوم اپنا اس پر، سر پیٹتی ہے۔ مجال ہے۔ ان کے کان پر جوں بھی رینگتی ہو۔
سیکیورٹی کونسل میں ’’معیشت نامی مردے‘‘ پر کافی بات ہوئی ہے۔ طب یونانی کے ماہر اسحاق ڈار نے باقاعدہ ہاتھ اٹھا دیئے ہیں۔ ان کے بقول پانچ دوست ملکوں سے مارچ میں امداد ملے گی۔ ایک دوست اسلامی ملک نے پہلے ورلڈ بینک سے بات کرنے اور پھر اُن سے رجوع کا مشورہ دیا ہے۔ اس صورتحال پر اسحاق ڈار کو آئی۔ ایم۔ ایف سے بات کرنے کا کہا گیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ میٹنگ بھی مارچ میں ہوگی۔ جس پر انھیں کہا گیا، مگر آپ ان سے، اجلد اجلاس بلانے کا کہہ سکتے ہیں۔ جس پر کھسیانا، جواب ملا کہ ہماری درخواست انھوں نے مسترد کردی ہے۔
وفاقی دارلحکومت کے باخبر لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ سیاستدانوں کو پتا ہے کہ معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ جونالائقی، اقربا پروری اور معاشی بارودی سرنگوں کی فصل بطور خاص بیس سالوں میں بوئی گئی ہے۔ اب اُس کے کاٹنے کا وقت آچکا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کی 73سالوں کی ناکامیاں، پھر سے اژدھا بن کر پُھنکار رہی ہیں۔ اس کے سیٹھوں کی ہوس، ریاست کی پشت میں گڑا خنجر ہے۔ ملک عملاً بینک کرپٹ ہوچکا ہے۔ مشرقی پاکستان کی طرح صرف اس کا اعلان ہونا باقی ہے۔
مشرقی پاکستان کی طرح یہ ایک دن کا کھیل نہیں ہے۔ اس میں گذشتہ بیس سال تو بہت اہم ہیں۔ 1988سے 2002تک کی تباہی اور تجربات الگ سے ہیں۔ملٹری، سیاسی اور سیاستدانوں کی انجینرنگ نے تباہی کی مکمل داستان لکھی ہے۔
نانگا مست کہہ رہے ہیں کہ اس بار سب کو جوتے لگیں گے۔ مارنے والے بھی نہیں بچیں گے۔ پہلے انھیں اپنے ہاں بھی صفائی کرنا ہوگی۔ سب اپنی حدود و قیود سمجھیں۔ صفائی ہوکر رہے گی۔ دوسری طرف صورتحال یہ ہے کہ ایک گیس کمپنی کی تین ہزار ڈالر کی ایل سی چار ماہ کے بعد کھلی ہے۔ پاکستان اور عرب ممالک میں دیسی ویاگرا متعارف کروانے والی سرکار، ایل۔ پی۔ جی ڈھونڈ تے پھر رہی ہے۔ عوام کو لاکھوں سلنڈر دینے چلے ہیں۔ گیس کمپنیوں، دیگر کمپنیوں اور توانائی سیکٹر میں تباہی کی داستانیں لکھنے والے کرائے کے مالک ان کی آنکھوں کے تارے ہیں۔ ایک غیر ملکی کمپنی کے سوائے تمام کمپنیاں ملک سے بھاگ چکی ہیں۔ جو کمپنی رہ گئی ہے۔ اُسے بھی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ تاکہ وہ بھی بھاگ جائے۔ مقامی تیل اور گیس کی تلاش اور پیداوار کے شعبے کو جان بوجھ کر تباہ و برباد کیا گیا ہے۔ یہ سب ایل۔ این۔ جی کے عاشقوں کی واردات ہے۔ جیسے تیل مافیا، زبردستی فرنس اور ڈیزل پر بجلی بنواتا ہے۔ کسی وزیر کے خالو کو نوازا جاتا ہے۔ کوئی کہیں سے سفارش لے آتا ہے۔ ہر حکومت عوام کی ہڈیوں میں سے تیل نکالنا شروع کر دیتی ہے۔ بے نظیر بھٹو کے، حبکو پاور سے، راجہ رینٹل کے معاہدوں اور میاں صاحبان سمیت پاکستانی سیٹھوں نے تھرمل میں اور شروع میں ونڈ پاور میں جو کھیل کھیلا ہے۔ اللہ کی پناہ ہے۔ مہنگی ترین بجلی کی پیداوار ان کی پسندیدہ مشغلہ رھا ہے۔
ہمارے دوست سہیل بھٹی نے انکشاف کیا ہے کہ پی ٹی آئی دور حکومت میں مہنگے فیول کے پاور پلانٹس چلانے کیلئے سستے پاور منصوبے روک کر قومی خزانے کو 183 ارب روپے کا ناقابل تلافی نقصان پہنچایا گیا۔ نیپرا کی تمام تر کوششوں کے باوجود 4سینٹ فی یونٹ بجلی کی پیداوار جان بوجھ کر روکی گئی۔ اصل میں اس ملک کو سیٹھوں، سیاستدانوں، بابوئوں اور ’’دوستوں‘‘ نے مل کر، بیلنے میں ڈال کر، اس کا جوس نکال لیا ہے۔ اب پُھوک بچا ہے۔ آج اس ملک میں انصاف لینا، کاروبار کرنا، حق لینا، حتی کہ جینا بھی ناممکن بنا دیا گیا ہے۔اسلام آباد میں کانسٹیبلز کی 16سو آسامیوں کے لئے 24 ہزار نوجوان آئے تھے۔ سپورٹس کمپلیکس کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ آپ تمام حکمرانوں سے پوچھ لیں اور ان کے دعوے دیکھ لیں۔ وہ کروڑوں نوجوانوں کو نوکریاں دے چکے ہیں۔ ان کے دور میں اس ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہہ رہی تھیں۔
باقی باتیں چھوڑیں۔ اب جو کرنا ہے۔ اس پر فوکس کریں۔ نیب، ایف۔ ائی۔ اے آپ کو ختم کرنا پڑے گا۔ نئی وائٹ کالر سپشیلائزڈ ایجنسی کھڑی کریں۔ چاہے، اس میں ایک ڈیڑھ سال لگا دیں کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ملک چلانا ہے۔ تو ’’پیپرا‘‘ کو ختم کرنا پڑے گا۔ حکومت کے ماتحت چلنے والے تمام کاروباری ادارے51فیصد شیئرز کے ساتھ نجی شعبے کو دے دیں۔ ریلوے اور پی۔ آئی۔ اے کو بھی پالنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔ فوج کو ہائوسنگ سمیت ہر کاروبار سے نکالیں۔ بہت ہوچکا۔ افواج پاکستان تمام ’’پرائم پراپرٹیز‘‘ حکومت کے حوالے کرے۔ وہ تو کہیں بھی جنگل میں منگل کرلے گی۔ پرائیویٹ شعبے کے ساتھ جوائنٹ وینچر میں ملک کے لئے پیسے بنائیں۔ بلڈنگ کنرول اتھارٹیز کے فراڈ کو ختم کیا جائے۔ سیدھا، سیدھا بلڈنگ کوڈ اور تھرڈ پارٹی انسپیکشن اور ثالثی فورم بنایا جائے۔ ریونیو کے تمام فیصلے ڈپٹی کمشنر کریں۔ ڈپٹی کمشنر تحصیل پر لگایا جائے۔ اس کے فیصلے پر اپیل ہائی کورٹ میں ہو۔ ہمیں یہاں گھنٹوں میں فیصلے کرنا ہونگے۔ تھانہ کلچر کے خاتمے کے لئے، واچ اینڈ وارڈز اور انوسٹی گیشن کا جدید تصور متعارف کروایا جائے۔ ایف۔ بی۔ آر کی تطہیر بہت ضروری ہے۔ یہاں رینکرز ختم کر دیئے جائیں۔ آفیسرز کو نیا نظام دے کر ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔ جی۔ ایس۔ ٹی رھنے دیا جائے۔ باقی ٹیکس ختم کر دیئے جائیں۔ ہر خریداری پر کسٹمر کے اکائونٹ میں جی۔ ایس۔ ٹی جمع ہو۔ اور اس کا پیغام بذریعہ ایس۔ ایم۔ ایس فوری کسٹمر کو ملے۔جیسے بینک ٹرانزیکشن پر بینک کا پیغام آتا ہے۔اتنا ٹیکس اکٹھا ہو گا حکومت پاگل اور انڈر انوائسنگ ختم ہوجائے گی۔ ہر شہری کو پتا ہوگا اس نے کتنا جی۔ ایس۔ ٹی دیا ہے۔ چاہے جی۔ ایس۔ ٹی کو دگنا کردیں۔ مگر تعلیم اور صحت فری کریں۔ اس ملک سے نادرا سے لیکر وھیکل رجسٹریشن تک سب فیسز ختم کریں۔ ٹیکس کا نظام سیدھا کریں۔ کسانوں کو ٹیکنالوجی، بیج، کھاد اور توانائی ترجیحی بنیادوں پر دیں۔ فصل آنے پر اپنے ٹیکس کی وصولی کریں۔ بجلی، گیس کے بلز ایڈوانس لیں۔ ایڈوانس پٹرول خریداری پر رعایت دیں۔ امپورٹ، ایکسپورٹ، سمیت کاروباری پرمٹ آسان بنائیں۔ کمپنی رجسٹریشن آسان بنائیں۔ قومی شناختی کارڈ کو سنگل شناخت بنا دیں۔ ڈومیسائل والے ڈرامے بند کریں۔ قانون کی حکمرانی قائم کریں۔ کہیں ملک میں تجاوزات نہ ہوں۔ ہر تحصیل اور یونین کونسل ماڈل ہو۔ ہر طرح کا ڈیٹا آن لائن ہو۔ کھیلوں اور سروسز سیکٹر میں وسیع پیمانے پر توسیع کریں۔ مینوفیکچرنگ کی حوصلہ افزائی کریں۔ انھیں سہولیات دیں۔ زرعی انڈسٹری میں سمیڈا کو بطور خاص متحرک کریں۔ لوگ تین سال کی بات کررہے ہیں۔ کم از کم دس سال کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت ہونی چاہئے۔ بلدیاتی انتخابات بھی دس سال کے بعد کروائے جائیں۔ قوم کام کرے۔
’’حافظ صاحب‘‘ کو چاہئے کہ اگر ملک چلانا ہے تو سردار احمد نواز سکھیرا جیسا شخص، ٹیکنو کریٹ حکومت کا سربراہ لے آئیں۔ ان کو ٹیم بنانے دیں۔ ملک عذابوں سے نکل آئے گا۔وگرنہ یاد رکھیئے گا کہ اس ملک میں بوٹ اور ستارے خریدنے کے لئے بھی پیسے نہیں ہونگے۔اور ھاں ”پٹاخے“ نہ بیچئے گا۔ یوکرائن کا انجام سب کے سامنے ھے۔غلطی کی تو آپ بھی یہی انجام دیکھیں۔یہ دیوار کا لکھا ہے۔ آخری بات،پتھر اس بار قوم کو نہیں اشرافیہ کو پیٹ پر باندھنے ہونگے۔(ناصر جمال)۔۔