تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،نئی حکومت اور نئی نویلی دلہن میں کافی قدرمشترک پائی جاتی ہیں۔۔جس طرح ہر نئی حکومت کے آنے سے پہلے اس کی تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں اس کے لئے ماحول بنایاجاتا ہے، اسی طرح نئی دلہن کے لئے شادی سے قبل جس کی تعریفیں کرکے زمین آسمان کے قلابے ملائے جاتے تھے مگر جیسے ہی شادی ہوتی ہے اسی لڑکی میں انہیں خامیاں نظر آنے لگتی ہیں،اسی طرح حکومت بن جانے کے بعد عوام کی آنکھیں کھل جاتی ہیں اور خامیاں نظرآنے لگتی ہیں۔ لڑکی کو شادی کے بعد یہ سب برداشت کرکے اپنا گھر بچانا پڑتا ہے۔ اگر لڑکی یہ کام نہیں کرپاتی اور جلد ہار مان لیتی ہے یا اگر پہلے دن شوہر کو قابو کرلیتی ہے یا شوہر خود ہی نئی دلہن سے متاثر ہو جاتا ہے تو یہ لڑکی کی قسمت ہوتی ہے ورنہ اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ والدین اور رشتہ دار اس طرح کی حرکتیں کرکے اس نئے گھر کو وقت سے پہلے برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں جسے آباد ہوئے چند دن ہی گزرے ہوتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگر لڑکی کا شوہر اور دیگر سسرال والے اچھے ہوں تو رشتہ دار ’’بی جمالو‘‘ کا کردارادا کرتے ہیں اور لڑائی یا پھوٹ ڈلوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رشتہ دارحسد کرتے ہیں کہ آخر یہ لوگ اس طرح ہنسی خوشی کیوںرہ رہے ہیں۔بس کچھ ایسا ہی حال حکومت کا بھی ہوتا ہے، اپوزیشن رشتے داروں والا کام کر رہی ہوتی ہے۔اس وقت دنیا میںلوگوں کی اکثریت اسی طرح کی سوچ رکھتی ہے اور اسی فلسفے کے زیر اثر ہے۔اگر کہیں لڑکے کے والدین، رشتہ دار اور بہنیں وغیرہ اچھی ہوںتو لڑکی کے گھر والے یا رشتہ دار اس حوالے سے غلط فہمی پیدا کرنے کی بنیاد بنتے ہیںجو آہستہ آہستہ یا انجانے میں گھر تباہ کرنے کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر سب طرف سے امن و سکون ہوتا ہے تو لڑکے کے دوست معاملات کی خرابی کا باعث بنتے ہیں،بالکل اسی طرح جیسے وزیراعظم کے نادان مشیراور کچن کیبنٹ ارکان معاملات کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ وہ لڑکے کو بعض اوقات یہ کہہ کر طیش دلاتے ہیں کہ تم تو شادی کے بعد بیوی کے غلام ہوکر رہ گئے ہو یا اتنا بھی بیوی سے مت ڈرو یا اتنا بھی بیوی سے کیا دبنا کہ اپنا مردانہ وقار ہی پامال کر ڈالا۔۔کچھ اسی طرح کے طعنے وزیراعظم کو دیئے جاتے ہیں لیکن بیوی کی جگہ ’’طاقتور‘‘کا نام لیاجاتا ہے۔ ہر میاں بیوی کو شادی کے بعد اپنی زندگی جینے کا حق ہے کیونکہ شادی کے ابتدائی مہینوں میں نئے نویلے جوڑے کو ایک دوسرے کو سمجھنے ا ور پرکھنے کا موقع ملتا ہے۔اس میں دوسروں کی دخل اندازی سے بعض اوقات معاملات سدھرنے کے بجائے بگڑنے لگتے ہیں۔ اسی طرح حکومتی معاملات میں دخل اندازی بھی بگاڑ پیدا کر دیتی ہے۔ شادی کے بعد دولہا اور دلہن کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ اپنے معاملات کو حد میں رکھیں اورباہمی روابط کی’’مٹھی‘‘ کو جتنا ہوسکے،بند رکھنے کی کوشش کریں کیونکہ مثل مشہور ہے کہ ’’بند ہومٹھی تولاکھ کی، کھل گئی تو پھر خاک کی۔‘‘
ہر نئی حکومت عوام پر ایک الزام تو لازمی لگاتی ہے کہ یہ لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔۔پتہ نہیں ان لوگوں نے کس چیز کا نام ’’ٹیکس ‘‘ رکھا ہوا ہے۔؟؟ کیا ٹول پلازے پر عوام ٹیکس نہیں دیتے؟؟شناختی کارڈ بنانے کے نام پر فیس کسے کہتے ہیں؟ پاسپورٹ بناتے وقت جو پیسے لئے جاتے ہیں اسے کیا کہتے ہیں؟ جب ہوٹل میں کھانا کھانے جاؤ تو وہاں بائیس فیصد الگ سے چارج کیا جاتا ہے،کیا وہ ٹیکس نہیں ہوتا؟ بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کی بھرمار کبھی دیکھی ہے؟ موبائل سیٹ پر کیا لیاجارہا ہے؟ فون کارڈ لوڈ کرائیں تو کٹوتیوں کا نام کیا رکھا ہے؟گیس کے بلوں میں الگ سے جو رقم لگ کرآتی ہے وہ کیا ہے؟گاڑی کی خریداری پر بھاری رقم کیوں لی جاتی ہے؟ پراپرٹی کی خریدوفروخت میں جو رقم خزانے کے نام پر لی جاتی ہے اسے کیا کہتے ہیں؟پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسوں کی بھرماریاد نہیں رہتی،پھر بھی ہر ماہ اسے مہنگا کئے جاتے ہیں؟ منرل واٹر، کولڈ ڈرنکس پر ٹیکس عائد نہیں ہوتا کیا؟ سگریٹ ہو یا ماچس ٹیکس پھر بھی لیا جاتا ہے۔دوائی خریدیں یا موٹروے پر سفر کریں، کپڑے خریدیں یا جوتے، ہسپتال میں داخل ہوں اس وقت بھی سب کا الگ الگ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔سائیکل،موٹرسائیکل خریدو تو پہلے ٹیکس دو، پیدائش سے لے کر موت کاسرٹیفیکٹ بنوانے تک سب پر ٹیکس لیاجاتا ہے۔۔ زمینوں کی رجسٹری کرانی ہو، نہرکا پانی استعمال کرنا ہو، گھر میں استعمال ہونے والے پانی تک کا عوام سے ٹیکس لیاجاتا ہے۔ہاؤس ٹیکس،پراپرٹی ٹیکس، پی ٹی وی کی لائسنس فیس بجلی کے بلوں سے زبردستی منہا کرنا، کالجوں،یونیورسٹیز کی فیسوں پر بھی ٹیکس، گاڑیوں کے سالانہ ٹوکن کیا ٹیکس نہیں کہلائے جاتے؟؟ڈرائیونگ لائسنس ہویا اسلحہ کا لائسنس، تجدید کے لئے فیس لازمی دینا پڑتی ہے، انٹرنیٹ استعمال کرو اس پر بھی ادائیگی کرو۔۔شادی کے لئے نکاح نامے کی فیس، بچوں کی پیدائش پر ب فارم کی فیس یہ سب کیا ہے؟ایسی ہزاروں مثالیں دی جاسکتی ہیں، لیکن حکومت پھر بھی یہی راگ الاپتی رہتی ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔۔اگر عوام ٹیکس نہیں دیتے تو پھر یہ کیا ہے جو عوام برسوں سے مسلسل دے رہے ہیں؟ بجائے اس کے عوام کے ٹیکس نہ دینے کا رونا روئیں پہلے تو عوام کو اس کا جواب دیں کہ یہ ساری رقم جاتی کہاں ہے؟
سیاست کہیں کی بھی ہونرالی ہوتی ہے ،لازمی سی چیز ہے پھر سیاست کرنے والے یعنی سیاست دان ’’نرالے‘‘ ہی ہوتے ہوں گے۔۔ہمارے ملک کا حال سب کے سامنے ہے لہسن ادرک چین سے منگائے جارہے ہیں، ٹماٹر ایران دے رہا ہے، پیاز اور کیلے بھارت سے آرہے ہیں اور پھر ہمارا دعویٰ ہے کہ ’’ زراعت ہماری ریڑھ کی ہڈی ہے‘‘۔۔۔ہم نے انسانی تاریخ کی سب سے لمبی جنگ پاکستان میں دیکھی ہے کیونکہ جب یہ ملک بنا ہے اسے ہم نے ’’حالت جنگ‘‘ میں دیکھا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ ، جس ملک میں عوام کو گدھے، کتے اور مردار کھلائے جارہے ہوں وہاں کرپٹ لیڈرز منتخب نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا ؟۔۔آپ جس طرح سانپوں سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ پھنکارنا اور ڈسنا چھوڑ دیں اسی طرح سیاست دانوں سے درخواست بھی نہیں کرسکتے کہ وہ جھوٹ بولنا اور کرپشن کرنا چھوڑ دیں۔۔ ہمارے یہاں گوالے اور ادارے پچھلے ستر برس سے عوام کو خالص دودھ اور اصلی احتساب کے نام پر مسلسل چونا لگارہے ہیں۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔باباجی کہتے ہیں، مطلب کے بغیررابطے میں رہنا ہر کسی کے بس سے باہرہوتا ہے۔ خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔