علی عمران جونیئر
دوستو، ملک کے معاشی حالات سدھرنے کا نام نہیں لے رہے، ملکی و غیرملکی قرضوںکا تخمینہ ایک سو اکتیس ارب ڈالر بتایاجارہا ہے، گزشتہ روز ایک خبر یہ بھی سامنے آئی کہ حکومت کی اتنی آمدن نہیں جتنا قرضوں کا سود ادا کرنا ہے۔حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ ٹیکس چوروں یعنی نان فائلر کی پانچ لاکھ سمیں بند کی جارہی ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے اربوں ڈالر قرضہ لیا، قیام پاکستان سے لے کر آج تک قرضے لے کر اسے اپنی مرضی سے خرچ کرتے رہے، ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں۔ لیکن غریب جو دن رات دو وقت کی روٹی کی فکر میں رہتا ہے، اس کے پیچھے یہی ٹیکس ہڑپنے والے پڑے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ عوام مزید ٹیکس دیں تاکہ ان کی عیاشیاں چلتی رہیں، تعیشات سے گھربھرا رہے ، یعنی دھندا ہے پر گندا ہے یہ۔۔ہمارے پیارے دوست نے ہمیں اس معاملے پر ایک خوب صورت میسیج واٹس ایپ کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ حکومت و ریاست کو اس جانب بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔۔ایک عام شہری کو حکومت کیا سہولت دیتی ہے؟ دوائی سے لے کر تعلیم اور یہاں تک سیکورٹی بھی خود اپنی رکھنی پڑتی ہے۔
ہمارے پیارے دوست سوال کرتے ہیں کہ کیا عام شہری ٹیکس نہیں دیتا؟ پھر ہم ٹول پلازے پرکیا دیتے ہیں؟؟جب شناختی کارڈ بنواتے ہیں تو جو فیس لی جاتی ہے وہ کیا ٹیکس نہیں ہوتا؟جب پاسپورٹ بنواتے ہیں تو اس وقت جو پیسے لیے جاتے ہیں اسے کیا کہتے ہیں؟ہوٹل پر کھانا کھانے جاتے ہیں تو بائیس فیصد بل میں کیا لگایاجاتا ہے؟بجلی کے بلوں میں درجن بھر مختلف اقسام کے ٹیکسوں کی مد میں جو رقم اینٹھی جاتی ہے وہ کیا ہے؟موبائل سیٹ پر پی ٹی اے کیا ٹیکس نہیں لیتا؟جو لوگ اپنے فون میں کارڈ کے ذریعے یابراہ راست ایزی لوڈ کراتے ہیں وہ کیا ہوتا ہے؟ سو روپے کا بیلنس ڈلوانے پر تیس سے پینتیس روپے کاٹ لئے جاتے ہیں۔سوئی گیس کے بل پر جو لگائے جاتے ہیں کیا وہ ٹیکس نہیں؟جب ہم نئی گاڑی خریدتے ہیں یا پراپرٹی لیتے ہیں اس وقت جو لیتے ہو وہ کیا ہوتی ہے؟پراپرٹی فروخت کرتے وقت حکومت کا حصہ الگ سے نکالنا پڑتا ہے، پراپرٹی کرایہ پر دو یا اپنے پاس رکھو، کیا پراپرٹی ٹیکس نہیں لیا جاتا؟جب اپنی موٹرسائیکل یا گاڑی میں پٹرول ڈلواتے ہیں توعالمی مارکیٹ میں نوے سے سوروپے فی لیٹر فروخت ہونے والا پٹرول ہم پونے تین سو روپے لیٹر خرید رہے ہوتے ہیں یہ اضافی پیسے کس مد میں لیے جاتے ہیں؟ جب منرل واٹر۔ کوک۔ اسپرائیٹ۔ پیپسی پیتے ہیں تو اسے پینے سے پہلے حکومت کی مقرر کردہ فیس پہلے لازمی ادا کرنا پڑتی ہے۔سگریٹ لیں تو ہر پیکٹ پر ٹیکس، ماچس کی ڈبیہ خریدیں اس پر بھی ٹیکس۔۔ ادویات خریدنے پر بھی حکومت کی عائد کردہ فیس پہلے لازمی ادا کرناپڑتی ہے۔۔موٹروے پر سفر کریں تو ٹوکن کے نام پر ادائیگی لازمی ہے۔ نئے کپڑے لیں یا جوتے،حکومت کو ٹیکس پہلے چاہیے۔ اسپتال میں داخل ہوں تو وہاں بھی ٹیکس لگا ہوا ہے۔موٹرسائیکل خریدیں یا سائیکل حکومتی ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر اسے چلانا ممکن نہیں۔ بچے کی پیدائش سے لے کراس کے اسکول میں داخلے تک کبھی برتھ سرٹیفیکٹ کے نام پر، کبھی ب فارم کے نام پر اور کبھی اسکولوں کی فیس کے نام پر ہر جگہ ،قدم قدم پر ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔یہاں تک کہ مرنے پر قبر کی خریداری، ڈیتھ سرٹیفیکٹ سب کی الگ الگ فیس مقرر ہے۔زمین کی رجسٹری کرانی ہو، نہر کا پانی استعمال کرنا ہو،جب کسان کو اپنی فصل منڈی لے جانا ہو، کوئی کام بغیر ٹیکس ادا کئے نہیں ہوسکتا۔۔ٹی وی لائسنس کی ماہانہ فیس تک بجلی کے بلوں میں لگا کر زبردستی وصول کی جاتی ہے۔سرکاری اسکولوں میں تعلیم مفت ملنی چاہیے لیکن وہاں بھی فیس کے نام پر کمائی کا سلسلہ جاری ہے۔گاڑیوں کے سالانہ ٹوکن، اسلحہ کے لائسنس، ڈرائیونگ لائسنس بنوانے سے لے کر ہر سال اس کی تجدید تک، حکومت کو اپنا حصہ لازمی چاہئے۔۔ جو تم انٹر نیٹ پر کٹوتی کرتے ہو اسکا کیا نام ہے؟ہر سرکاری محکمے سے جو بھی عوام نے لائسنس یا این او سی لیناہو، نکاح نامہ رجسٹرڈ کرانا ہو فیس تو لازمی دینی ہوگی۔۔ یہ نیلم سرچارج بجلی کے بلوں میں لگ کر آتا ھے اسکا کیا نام ہے۔ ؟؟ہر چیز پر جی ایس ٹی لینا ٹیکس نہیں تو اور کیا ہے؟بارڈر ایریا سے درخت کاٹنے، مالک کی اپنی زمین سے مٹی یا ریت نکالنے ،عدالت میں دعویٰ دائر کرنے پر ٹیکس وصولی کا سلسلہ جاری ہے۔۔کسی کو اپنا گھر تعمیر کرانا ہو تو نقشے کی منظوری سے لے کر اس کے لئے سیمنٹ، سریا، ریتی بجری ، بلاکس کی خریداری تک ہر جگہ ٹیکس لازمی ہے۔۔
حکومتی وزرا ہوں یا حکمران سب یک زبان ہوکر ٹی وی چینلز پر دھڑلے سے کہتے ہیں کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔اگر عوام ٹیکس نہیں دیتے تو پھر اوپر جو کچھ بتایا ہے ، جسے عوام آج تک دیتے آئے ہیں وہ سب کیا ہے؟عوام کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے کسی دن عوام کے ساتھ آمنے سامنے بیٹھ جائیں اور پوری ایمانداری سے حساب کتاب کریں کہ آج تک جو عوام سے لیا وہ کہاں گیا؟اوپر جتنے ٹیکسوں کا بتایا ، یہ تو سرسری ذہن میں آئے تو نشاندہی کرتی، بہت سارے ٹیکس ایسے ہیں جو عوام سے وصول کیے جاتے ہیں جن کا عوام کواور ہمیں علم نہیں۔اب یہاں سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سارے ٹیکس لے کر عوام کو سہولت کیا دیتے ہو؟ کیا سستا اور بروقت انصاف دیتے ہو؟کیا جان ومال کی امان دیتے ہو؟ کیا بوقت ضرورت مدد کو آتے ہو؟ اگر آتے ہوتے تو مری میں لوگ سردی سے ٹھٹھر ٹھٹھر کر نہ مرتے۔عوام کو سچ سچ کیوں نہیں بتاتے کہ تمہیں مزید ٹیکس چاہیے اپنے شاہی پروٹوکول کے لئے اپنے شاہانہ محلات کے لیے۔۔ ہم غریب ملک ہیں نہ تو پہلے خود سے شروع تو کرو سادگی پر آؤ پھر مزید ٹیکس کا تقاضہ کرو۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔مصر والوں کو اہرام مصر میں پڑا مردہ فرعون اربوں روپے سالانہ کما کر دیتاہے جب کہ ہمارے زندہ فرعون اربوں روپے سالانہ کھاجاتے ہیں۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔