maslon ka masla

توازن یا بیلنس،،

تحریر: خرم علی عمران۔۔

آج کل موبائل کا زمانہ ہے، جسے دیکھو بیلنس یا لوڈ کی فکر رہتی ہے،اور کہیں اگر بیلنس ختم ہوجائے تو پھر دیکھئے کہ کیسی بے چینی گھیر لیتی ہے ہر ایک یوزر کو کہ جب تک بیلنس نہ ڈلوالے چین ملنے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا،، لیکن یہ لفظ بیلنس ذرا معانی ء دگر بھی رکھتا ہے،،وہ کیسے؟ یہ تحریر اسی کی وضاحت ہے،،میرے ایک دوست نے میرے سامنے ایک اور دوست سے  کہا کہ یار ذرا  سیل فون تو دینا ایک کال کرنا ہے میرا بیلنس نہیں ہے تو ترت جواب ملا کہ میرے پاس بھی بیلنس نہیں ہے اور پھر جب مجھ سے کہا تو میرے پاس بھی بیلنس نہیں تھا اور یہ نہیں کہ ہم دونوں میں سے کوئی جھوٹ کہہ رہا تھا بلکہ واقعی ایسا ہی تھا تو پھر ہم تینوں مل کر گئے اور اپنے اپنے فونز میں بیلنس ڈلوایا لیکن یہ فقرہ یعنی بیلنس نہیں ہے جیسے ذہن سے چمٹ سا گیا اور جب وقت ملنے پر اس پر غور کیا تو کم از کم مجھ جاہل کو تو یہی لگا کہ ارے بھئی یہ تو ایک آفاقی اور ہمہ گیر نوعیت کا حامل کمال کا ایک فقرہ ہے جس کی معنویت بے مثال ہے اور جسکا عملی اطلاق  موجودہ دور کے لحاظ سے ہم ہر ہر سطح پر کر سکتے ہیں چاہے ہم بیلنس کے معنی توازن کے لیں یا مال،پیسے اور بینک بیلنس کے، دونوں اعتبار سے یہ تو ایک قبولیت عامہ رکھنے والا اور ایک عالمگیر سچائی کا اظہار کرنے والا چھوٹا سا جملہ ہے اور واقعی کہیں بھی کسی بھی طرح دیکھا جائے تو یہی پتہ سا لگتا ہے کہ بیلنس نہیں ہے۔

چلیں رویوں سے بات شروع کرتے ہیں تو رویوں میں،اخلاقیات میں،معاملات میں جذبات و احساسات میں بیلنس نہیں ہے توازن نہیں ہے اور یہ عدم توازن ہمیں قدم  قدم پر روز مرہ پیش آنے والے دیدہ اور شنیدہ واقعات میں چھلکتا نظر آتا ہے اور لوگوں کی ایک بڑی اکثریت اکثر و بیشتر آپے سے باہر ہونے میں اور جذباتی عدم توازن کا اظہار اور اسے اختیار کرنے میں ذرا نہیں چوکتی جس کی حالیہ مثال ایک ولیمے کی تقریب میں وقافی وزیر فواد چوہدری اور معروف اینکر پرسن مبشر لقمان کے درمیان ہونے والی ہاتھا پائی اور تھپڑ مارنے کا واقعہ ہے جو اس بیلنس کے نہ ہونے کی لاکھوں مثالوں میں سے صرف ایک مثال ہے ۔ ویسے چوہدری صاحب نے دوسری مرتبہ یہ ہاتھ چھوڑ جذباتی عدم توازن کا مظاہرہ کیا ہے پہلے سمیع ابراہیم صاحب اور اب مبشر صاحب جس پر سوشل میڈیا میں ایک صحافی دوست نے یہ دلچسپ تبصرہ کیا کہ اب جن تقریبات میں چوہدری صاحب کو بلایا جائے ان میں  دعوتی کارڈ پر  دیگر  معاملات جیسے کھانا رخصتی  وغیرہ کے ساتھ ساتھ تھپڑ مارنے کا وقت بھی اگر درج ہو تو کافی سہولت ہوجائے گی۔

خیر یہ تذکرہء بالا تو یونہی جملہء معترضہ کی طرح سے  درمیان میں آگیا موضوع کی جانب واپس آتے ہیں تو بات ہورہی تھی بیلنس نہ ہونے کی تو دیکھئے نا یہ فقرہ کہاں تک مار کرتا ہے۔ لوگوں کے پاس موبائل میں بیلنس نہیں ہے انکے آپسی معاملات میں بیلنس نہیں ہے ان کے بینکوں میں بیلنس نہیں ہے عوام کی جیب میں بیلنس نہیں ہے۔طلب و رسد میں بیلنس نہیں ہے جسکا نتیجہ روزافزوں مہنگائی ہے اور اس روز افزوں مہنگائی کا نتیجہ آپس میں عدم برداشت کا پیدا ہونا اور لڑائی جھگڑوں میں اضافے کا ہونا ہے کہ کہیں کا غصہ کہیں نا کہیں تو نکلتا ہی ہے۔ یہ تو عوامی سطح پر بیلنس نہ ہونے کی ایک مثال ہے کہ کیسے مہنگائی اور طلب و رسد میں بیلنس نہ ہونے کی وجہ سے سفید پوش طبقہ اَن بیلنس ہوتا جارہا ہے ۔ خواص کی سطح پر بھی بیلنس یا توازن نظر نہیں آتا، مختلف محکموں کے آپس کے تعاون ،اعتماد و اعتبار میں بیلنس نہیں ہے اور عدم اعتماد کا عدم توازن قریہ بہ قریہ جو بہ جو اور کو بہ کو نہ صرف نمایاں ہے بلکہ بعض دفعہ تو تصادم کی سی حالت اختیار کرجاتا ہے، پھر ہماری پیاری تبدیلی سرکار کی باتوں اور حرکتوں یا یوں کہہ لیں کہ اقوال و اعمال میں بیلنس ڈھونڈنے کے لئے اگر الیکٹرانک خوردبین جو بے حد چھوٹےذرات کو کم از کم دس لاکھ گنا تک بڑا کر کے دکھا سکتی ہے، کا اگر استعمال کیا جائے تو شاید کہیں بیلنس یا توازن کی کوئی رمق نظر آجائے وگرنہ انسانی آنکھوں کو اس ڈیڑھ سال کے عرصے میں ایسی کوئی چیز نظر سوء قسمت سے نہیں آ سکی، حتی کہ حکومتی وزراء کا ایک ہی مسئلے پر اکثر و بیشترمتضاد موقف ہونا اس بات کا غماز ہے کہ بیلنس نہیں ہے اور انہیں سوچنا چاہیئے کہ ماہر ڈرائیوروں کا قول ہے کہ یو ٹرن لیتے وقت اگر بیلنس خراب ہوجائے تو گاڑی الٹ بھی جاتی ہے یعنی یو ٹرن کے لئے بھی بیلنس ضروری ہے جوکہ نہیں ہے۔

پھر کار زار سیاست کی بی ٹیم یعنی جسے اپوزیشن کہا جاتا ہے وہاں تو بیلنس نہ ہونے کے ایسے ایسے مظاہر اور نمونے ملتے ہیں جو کہ بڑی سنجیدہ تحقیق کا تقاضہ کرتے نظر آتے ہیں کہ آخر بیلنس کیوں نہیں ہے اور گیا تو کہاں گیا،شنید ہے کہ متعقلہ شعبے کے  تحقیق دان اورماہرین اس تفتیش و تحقیق میں اب غیر ملکی ماہرین اور سپر کمپیوٹرز کا سہارا لینے پر غور کررہے ہیں  کیونکہ اس سے کم درجے کے کمپیوٹرز اس معمے کو حل کرنے میں قطعا ناکام رہے ہیں اور گرم ہوکر پھٹ جاتے ہیں،، ویسے اس بیلنس سے مراد بینک بیلنس نہ لی جائے بلکہ یہ توازن والے بیلنس کی بات کی جارہی ہے کیونکہ ایسے کمپیوٹرز تو شاید آئندہ سالوں ہی میں ایجاد ہوسکیں جو یہ حیرت انگیز تحقیق کما حقہ کر پائیں کہ بینک بیلنس کہاں سے کہاں کہاں گیا اور اب کہاں ہے اور اس والے بیلنس کے معاملات میں تو وہی حال ہے کہ تری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے یعنی کیا حکومت اور کیا اپوزیشن،کیا کوئی اور، سب ہی باون گزے ہیں۔

اب اگر بین الاقوامی سطح کی اور عالمی گاؤں کی بات کریں تو وہاں بھی بیلنس نہ ہونے کی عملی مثالیں نہ صرف پہلے سے ہی بہت سی موجود ہیں بلکہ آئے دن نت نئی تخلیق بھی کی جارہی ہیں۔ دنیا کے چند ٹھیکیدار ہیں جو اپنی اپنی ڈوریاں کبھی چھپ چھپا کر اور کہیں کھلے عام ہلا رہے ہیں اور ساری دنیا کو اپنے اپنے مفادات کے لئے زبردست عدم توازن کا شکار بنا دیا ہے اور جدھر دیکھیں بس شعلے سے بھڑکتے نظر آرہے ہیں چند لوگوں اور گروہوں کے فائدے کے لئے ساری دنیا  کے لوگوں کی ایک عظیم اکثریت ظلم،خوف ،بھوک ،انسانی المئیوں اور عدم تحفظ کا شکار ہے اور انسانیت کے پاس اب محبت،امن ،خوشحالی اور دیگر مثبت چیزوں کا بیلنس جیسے ختم سا ہی ہوگیا ہے اور اگر کچھ بچا کچا ہے تو یہ مفاد پرست ٹولے اپنے گروہی مفادات کے تحت اسے بھی ختم کر ڈالنے کی فکر میں جٹے ہر قسم کی چالیں چلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ تو بات کچھ یوں سمجھ آئی کہ افراد، گروہوں ،قوموں، رویوں، معاملات ،احساسات،شعبوں،اداروں اور ممالک میں توازن یا بیلنس کا شدید فقدان ہے اور جسے دیکھوں وہ توازن کو خیرباد کہہ کر اپنے اپنے سچ کو اٹھائے عدم توان یا انتہا پسند ہونے کا مظاہرہ کرتا نظر آرہا ہے اور یہ بات کہ بیلنس نہیں ہے کہ ایک فرد،خاندان،گلی محلے،علاقے،شہر صوبے،ریاست، ملک،براعظم اور ساری دنیا کے اعتبار سے بلکل درست نظر آتی ہے کہ بیلنس نہیں ہے اور بیلنس کا یہ نہ ہونا بڑی خطرناک بات ہے کیونکہ ہماری زمین سمیت ساری کی ساری کائنات ہی ایک زبردست بیلنس اور باریک توازن پر استوار ہے اور چل رہی ہے جس میں خفیف سی کمی یا بگاڑ سب کچھ تباہ کرسکتا ہے۔ اوردیکھیں نا ایک نادیدہ آفت یعنی کرونا وائرس کے جو بھی نقصانات ہیں وہ اپنی جگہ لیکن ایک بات تو تسلیم کرنی پڑے گی کہ قدرت کے اس نادیدہ سپاہی نے ساری دنیا کا نوے فیصد سے زیادہ پہیہ جام کرکے،جس میں فضائ پہیہ جام بھی شامل ہے،کم از کم ماحولیاتی عدم توازن کو تو بڑی حد تک ختم کرکے بیلنس بحال کردیا ہے اور شنید و دید دونوں ہیں کہ اب آسمان ذرا زیادہ صاف نظر آنے لگا ہے۔۔(خرم علی عمران )۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں