تحریر: جاوید چودھری۔۔
یہ ایک ڈاکٹر کی کہانی ہے‘ ڈاکٹر صاحب اس وقت آسٹریلیا میں ہیں اور یہ وہاں ایسی شان دار زندگی گزار رہے ہیں جس کا ان کے کسی کلاس فیلو نے خواب تک نہیں دیکھا تھا‘ ہم سب لوگ زندگی میں ٹاپ کرنا چاہتے ہیں‘ ہم ہر کلاس میں اول آنا چاہتے ہیں‘ ہم بازار کا مہنگا ترین لباس خریدنا چاہتے ہیں‘ ہم چاہتے ہیں جو جوتا پہنیں وہ کسی دوسرے کے پاس نہ ہو‘ شہر کی سب سے لمبی‘ مہنگی اور شان دار گاڑی ہمارے پاس ہونی چاہیے‘ ملک کا‘ شہر کا اور محلے کا سب سے بڑا اور مہنگا گھر ہمارا ہونا چاہیے‘ شہر کی سب سے خوب صورت لڑکی ہماری بیوی ہونی چاہیے۔
ہمارے بچے شہر کے تمام بچوں سے خوبصورت ہونے چاہییں‘ ہم ملک کی سب سے بڑی نوکری حاصل کریں اور ہم جب کاروبار میں قدم رکھیں تو وہ تیزی سے ترقی کرے اور لوگ ہمارے نام‘ ہماری شکل سے واقف ہوں لیکن ڈاکٹر صاحب ایک مختلف انسان تھے‘ وہ ایک ’’ایوریج‘‘ زندگی گزارنا چاہتے تھے‘ وہ کسی امتحان میں ٹاپ نہیں کرنا چاہتے تھے‘ وہ اس وقت جب ان کے تمام ساتھی راتوں کو جاگ جاگ کر پڑھتے تھے‘ وہ رٹے لگاتے تھے‘ اساتذہ سے نمبر حاصل کرنے کے لیے تعلقات بڑھاتے تھے‘ ڈاکٹر صاحب اس وقت صرف دو تین گھنٹے پڑھتے تھے۔
یہ امتحان کے دنوں میں بھی رات کو نیند پوری کرتے تھے اور ان کا کہنا تھا میں صرف زیادہ نمبر لینے کے لیے اپنی نیند قربان نہیں کر سکتا‘ یہ لمبی تان کر سوتے تھے اور ان کی اس درویشی کو ان کے ساتھی بے حسی اور بے وقوفی قرار دیتے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب خوش تھے‘ انھوں نے اس عالم میں درمیانے درجے کے نمبر لے کر ایم بی بی ایس کر لیا‘ یہ ڈاکٹر بن گئے‘ ڈاکٹر بننے کے بعد ان کے تمام ساتھی‘ تمام کلاس فیلوز اسپیشلائزیشن میں جت گئے لیکن ڈاکٹر صاحب نے مزید پڑھنے سے انکار کر دیا‘ یہ چھوٹے سے اسپتال میں فزیشن بھرتی ہو گئے اور سرکاری تنخواہ پر گزارا کرنے لگے‘ ان کے ساتھی اسپتال سے واپس آ کر بمشکل لنچ کرتے تھے۔
سہ پہر کو پرائیویٹ پریکٹس میں لگ جاتے تھے اور رات گئے تک نوٹ بنانے میں لگے رہتے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب اسپتال سے واپس آ کر آرام کرتے تھے‘ شام کو جاگنگ کرتے تھے‘ ٹی وی دیکھتے تھے‘ کتابیں پڑھتے تھے‘ میوزک سنتے تھے‘ دوستوں سے ملتے تھے اور اس دوران اگر کوئی مریض آ جاتا تھا تو یہ اس کا مفت علاج کرتے تھے‘ یہ ان دنوں اپنی آمدنی میں اضافے کے بارے میں بھی ہرگز ہر گز نہیں سوچتے تھے‘ یہ اپنی تنخواہ میں مزے کے ساتھ زندگی گزاررہے تھے‘ ان کا چھوٹاسا گھرتھا‘ گھر میں اے سی نہیں تھا‘ ان کے پاس چھوٹا سا فریج تھا اور یہ موٹر سائیکل پر سفر کرتے تھے‘ یہ ان سہولتوں کو اپنے لیے کافی سمجھتے تھے‘ انھوں نے زندگی کو ان چیزوں سے آگے نہیں دیکھا تھا۔
اس دوران ڈاکٹر صاحب کی شادی کا وقت آ گیا‘ ڈاکٹر صاحب نے اس معاملے میں بھی ’’میانہ روی‘‘ اختیار کی‘ اس وقت جب ان کے تمام ساتھی ‘تمام دوست اور تمام کلاس فیلو سب سے اچھی‘ سب سے خوب صورت لڑکی اور سب سے اچھے خاندان کے چکر میں تھے ڈاکٹر صاحب نے اس وقت ایک واجبی شکل و صورت کی عام سی لڑکی منتخب کی اور اس کے ساتھ شادی کر لی‘ یہ دونوں میاں بیوی اس چھوٹے سے گھر میں خوش رہنے لگے بعدازاں بچے پیدا ہو گئے‘ ڈاکٹر صاحب ان بچوں کے لیے بھی بڑے اسکولوں اور اعلیٰ ترین تعلیم کے پیچھے نہیں بھاگے‘ انھوں نے بچوں کو عام سے تعلیمی اداروں میں داخل کرایا کیوںکہ یہ پرائیویٹ پریکٹس نہیں کرتے تھے چنانچہ شام کے وقت ان کے پاس ٹھیک ٹھاک وقت ہوتا تھا۔
لہٰذا یہ بچوں کو خود پڑھا لیتے‘ ان کے بچے بھی زیادہ ذہین نہیں تھے‘ یہ درمیانے درجوں میں پاس ہوتے تھے اور ڈاکٹر صاحب نے اپنے بچوں کو کبھی ٹاپ کرنے یا اول پوزیشن حاصل کرنے کی ترغیب نہیں دی‘ یہ بس انھیں پاس ہونے اور تعلیم مکمل کرنے کا سبق دیتے تھے‘ ڈاکٹر صاحب کے بچے بھی اس اپروچ کے ساتھ خوش تھے کیوںکہ وہ اسکول سے واپس آ کر کھانا کھاتے تھے‘ آرام کرتے تھے‘ شام کو کھیلتے تھے‘ تھوڑا سا پڑھتے تھے‘ ٹی وی دیکھتے تھے اور سونے سے پہلے ڈاکٹر صاحب کے ساتھ واک کرتے تھے اور بس ۔ وہ بچے ٹاپ کی ریس سے الگ تھے چناںچہ ان کے پاس بھی خوش رہنے اور مطمئن رہنے کے بے شمار بہانے تھے لیکن آپ ہر گز ہر گز یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ یہ کہانی اسی طرح چلے گی۔ اس کہانی میں ایک بہت دلچسپ ٹرن آیا۔
ڈاکٹر صاحب نے ایک دن سوچا انھیں ملک سے باہر جانا چاہیے‘ اس وقت ان کے کولیگز‘ ان کے دوست بڑے بڑے ملکوں کی طرف جا رہے تھے‘ کوئی امریکی سفارت خانے کے سامنے قطار میں لگا تھا‘ کوئی برطانیہ جانے کے منصوبے بنا رہا تھا‘ کسی نے کینیڈا اور آسٹریلیا کی امیگریشن کے لیے اپلائی کر رکھا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب نے اس وقت ایسے ملک کا انتخاب کیا جہاں کوئی پاکستانی ڈاکٹر جانا پسند نہیں کرتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب اپنے پورے خاندان کے ساتھ مالدیپ چلے گئے‘ انھیں مالدیپ کے ایک چھوٹے سے اسپتال میں جاب مل گئی اور یہ فیملی سمیت مالدیپ شفٹ ہو گئے۔
وہاں بھی انھوں نے خاندان بھر کو سائیکلیں لے کر دیں اور یہ سارا خاندان مالدیپ کے قدرتی حسن کو انجوانے کرنے لگا‘ بچے اسکول میں درمیانے درجے کے طالب علموں کی طرح پڑھتے‘ بیگم صاحبہ منڈی سے سبزیاں‘ پھل اور اناج خریدیتیں اور سارا خاندان شام کو واک کرتا‘ قہقہے لگاتا اور زندگی کو بھر پور طریقے سے انجوائے کرتا‘ یہ لوگ ویک اینڈ مناتے اور خوب موج مستی بھی کرتے‘ ان کے لیے زندگی واقعی خوبصورت نعمت تھی اور انھوں نے مالدیپ کے دنوں کو بھر پور طریقے سے گزارا۔ پھر ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں ایک اور موڑ آیا۔ انھوں نے ایک دن اخبار میں پڑھا آسٹریلیا کے ایک دور دراز علاقے میں ایک فزیشن کی ضرورت ہے۔
آسٹریلوی حکومت کو اس پوسٹ کے لیے ایک ایسا ڈاکٹر چاہیے جو محض ڈاکٹر ہو اوراس نے کسی قسم کی اسپیشلائزیشن نہ کر رکھی ہو۔ یہ آسٹریلیا کی ایک غیر معروف جگہ تھی لہٰذا وہاں کوئی نہیں جاتا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب بھیڑ چال میں چلنے والے شخص نہیں تھے‘ یہ درمیان میں رہنے والے ایک ایسے معتدل شخص تھے جنھوں نے کبھی اول آنے کی دوڑ میں شامل ہونے کی کوشش نہیں کی چنانچہ انھوں نے اس جاب کے لیے اپلائی کر دیا‘ یہ اس علاقے کے پہلے فارنر ڈاکٹر تھے‘ علاقے کے لوگ اور مقامی انتظامیہ ان کے ٹیلنٹ سے متاثر ہوئی اور انھوں نے انھیں پورے علاقے کے اسپتالوں کا انچارج بنا دیا‘ یہ پانچ ہندسوں میں تنخواہ لینے لگے‘ حکومت نے انھیں دو ہزار ایکڑ زمین بھی دے دی۔
انھوں نے اس زمین میں فارم بنا لیا‘ یہ فارم ان کے لیے سونے کی کان ثابت ہوا اور یہ چند برسوں میں اس علاقے کے امیر ترین شخص بن گئے اور آج ان کے پاس دنیا کی مہنگی ترین گاڑیاں بھی ہیں‘ یہ ہیلی کاپٹر کے مالک بھی ہیں‘ ان کے پاس ایکڑوں پر محیط گھر بھی ہے اور اس گھر میں آبشاریں اور ندیاں بھی ہیں اور ان کا بینک بیلنس بھی ہے لیکن یہ اس کے باوجود ایک ایوریج زندگی گزار رہے ہیں‘یہ دوپہر کو آرام کرتے ہیں‘ سہ پہر کے وقت بچوں کے ساتھ جاگنگ کرتے ہیں‘ شام کو ٹی وی دیکھتے ہیں‘ کتابیں پڑھتے ہیں‘ میوزک سنتے ہیں‘ دوستوں کے ساتھ گپ لگاتے ہیں اور گولیوں کے بغیر صبح شام گزارتے ہیں اور آج ان کے وہ تمام کلا س فیلوز ‘ وہ تمام ساتھی سکھ‘ خوشی‘ اطمینان‘ صحت‘ دولت‘ کام یابی اور کامرانی میں ان سے بہت پیچھے ہیں‘ جو کبھی راتوں کو جاگ جاگ کر رٹے لگاتے تھے۔
جو اول آنے کی دوڑ میں اپنی آنکھیں سرخ کر لیتے تھے‘ جو بڑے فریج‘ بڑی گاڑی‘ بڑے گھر‘ بڑے بینک بیلنس اور واہ جی واہ کے لیے اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرتے تھے‘ جو اسپتال جاتے تھے‘ شام کو کلینک کرتے تھے اور دواؤں سے پیسے کھاتے تھے اور جنھوں نے میڈیکل کے پروفیشن کے ساتھ ساتھ پارٹ ٹائم کام بھی شروع کر دیا تھا لیکن’’ایٹ دی اینڈ آف دی ڈے‘‘ ہمارے یہ ڈاکٹر صاحب دنیاوی کاموں میں بھی ان سے آگے نکل گئے‘ ان کے ساتھیوں کی وہ بیگمات جن کے لیے انھوں نے زمین آسمان ایک کر دیا تھا‘ وہ بیمار‘ بوڑھی اور بدصورت ہو گئیں لیکن ان کی بیگم بوڑھی ہو کر بھی ایوریج رہی‘ ان کے ساتھیوں کے وہ بچے جن کی تعلیم کے لیے انھوں نے بڑے بڑے پاپڑ بیلے تھے وہ سب تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے والدین کو چھوڑ کرچلے گئے لیکن ڈاکٹر صاحب کے ایوریج بچے آج بھی ان کے ساتھ ہیں چنانچہ ڈاکٹر صاحب کا ماضی بھی خوشیوں سے بھرپور تھا‘ حال بھی اور مستقبل بھی۔
ہمارے پاس ٹاپ کی دوڑ کے علاوہ بھی ایک راستہ ہوتا ہے‘ اعتدال کا راستہ‘ ایوریج زندگی کا راستہ اور درمیان کا راستہ اور یہ وہ راستہ ہوتا ہے جس میں خوشیاں ہوتی ہیں لیکن ہم لوگ ٹاپ کی دوڑ میں لگ کر اپنی زندگی کو عذاب بنا لیتے ہیں‘ ہم اپنے ماضی‘ اپنے حال اور اپنے مستقبل تینوں کو زہریلا کر لیتے ہیں اور آخر میں جا کر ہمیں اچانک محسوس ہوتا ہے ٹاپ کی اس دوڑ میں ہمارے ہاتھ تو کچھ بھی نہیں آیا‘ ہم تو بیلنس شیٹ کے سوا زندگی سے کچھ نہیں کما سکے۔ کاش ہم لوگ ڈاکٹر صاحب کی طرح سوچیں‘ ہم خوشی کو کام یابی پر فوقیت دیں‘ ہم درمیان کا راستہ منتخب کرلیں۔(بشکریہ ایکسپریس)۔۔