تحریر: خیراللہ عزیز۔۔
نوٹ: میرا اور اشفاق کا تعلق2007 سے ہے۔ اپنے ایک ایک لفظ کےلیے روز قیامت خدا کو جواب دہ ہوں۔ جو جانتاہوں صرف وہی لکھ رہاہوں۔
مشہور اینکر پرسن رابعہ انعم نے اے آر وائی نیوز کے اینکر اشفاق کی اہلیہ کی تصویروں کے ساتھ ان کا طویل پیغام شیئر کیا۔ وہ تصویریں دیکھ کر ہر کسی کا دل دہل گیا اور اشفاق اسحاق کو ظالم، جانور ،بے شرم، بے غیر اور پتہ نہیں کیا کیا لکھا۔
تصویر کا دوسرا رخ دکھانے سے پہلے اس پوسٹ پر مختصر تبصرہ:
رابعہ انعم نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ مظلومہ نمائیکہ تین سال سے اشفاق کی اہلیہ ہیں کیا یہ پہلی بار ہوا ہے یا اس سے پہلے بھی ہوا۔ اس تشدد یا مبینہ طور پر قتل کرنے کی کوشش کی وجہ کیابنی ؟پہلے 19 تاریخ پھر 23 تاریخ کو واقعہ پیش آیا نمائیکہ نے28 تاریخ تک انتظار کیوں کیا؟ نمائیکہ نے یہ نہیں بتایا کہ انہوں نے اشفاق کے سات سالہ بیٹے(پہلی بیوی سے) کا گلا دبایا اور اسے مارنے کی کوشش کی(یہ اشفاق کا دعویٰ ہے) نمائیکہ نے یہ نہیں لکھا کہ انہوں نے بیٹ اٹھاکر اشفاق کی والدہ کو مارنے کی کوشش کی، بزرگ خاتون نے کمرہ لاک کرکے اپنی اور بچوں کی جان بچائی۔(اشفاق کی والدہ نے فون کرکے یہ اسی وقت یہ بتایا باہر سے شور کی آوازیں آرہی تھیں) نمائیکہ نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے دو بھائی، والد اور ایک بہنوئی نے کئی گھنٹے تک اشفاق کی والدہ اور بچوں کو گھر پر یرغمال بنایا تھا۔اس وقت اشفاق گھر پر نہیں تھا۔ اشفاق نے فون کرکے پولیس کو اطلاع دینے کی دھمکی دی تو نمائیکہ بھائی اور بہنوئی کے ساتھ چلی گئیں۔ گھر سے سارا سامان بھی لیکر گئیں۔ جبکہ ان کا ایک بھائی اور والد اشفاق کا انتظار کرتے رہے۔ جب اشفاق گھر پہنچا تو نمائیکہ کے والد کا کہنا تھا کہ نمائیکہ کا موبائل رہ گیا ہے وہ دے دیں۔ اشفاق نے موبائل ٹریس کیا۔ وہ ماڈل کالونی کا تھا جہاں نمائیکہ کے والدین کا گھر ہے۔ اس کے باوجود ان کے والد اور بھائی کا کہنا تھا کہ اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک آپ موبائل نہیں دیں گے۔ورنہ نمائیکہ دوبارہ آجائے گی اور پھر ہنگامہ ہوگا۔(الفاظ پر غور کرلیں) رات ایک بجے اشفاق نے ایک لاکھ روپے آن لائن ٹرانسفر کیے اور انہیں رخصت کیا۔ اس دوران اشفاق کی والدہ اور تین بچے مغرب سے رات تک بھوک سے نڈھال کمرے کے اندر موجود تھے۔( مندرجہ بالا واقعے کا پورا محلہ گواہ ہے) نمائیکہ نے یہ نہیں بتایا کہ وہ اشفاق کی پہلی بیوی کے بچوں کو مزید ساتھ رکھنے پر تیار نہیں۔۔ نمائیکہ نے یہ نہیں بتایا کہ اس کا مطالبہ اشفاق کی تیسری بیوی کو طلاق دلوانا ہے۔ نمائیکہ نے یہ نہیں بتایا کہ ایک بار رات کو دس بجے نمائیکہ کلفٹن میں واقع اس کے گھر پر اسے مارنے(لڑنے جھگڑنے) گئی تھی۔ فلیٹ کے گیٹ پر منتظر تھی کہ جب خاتون آئیں گی تو یہ دو دو ہاتھ کریں گی۔ نمائیکہ نے یہ بھی نہیں بتایا کہ تین برسوں میں آئے روز دونوں میاں بیوی میں فائٹ ہوتی رہتی تھی۔ نمائیکہ نے کئی بار اشفاق کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ کئی بار اشفاق اگلے دن ٹی وی پر آن ائیر ہونے کے قابل نہیں رہا ۔(اس کی تصدیق اشفاق کے کولیگز اور کو ہوسٹ سے کی جاسکتی ہے)۔ زخم ایسے کہ میک اپ سے بھی نہیں چھپائے جاسکے۔
اب آتے ہیں اصل کہانی کی طرف جو بہت مختصر ہے۔
نمائیکہ اشفاق کی پہلی بیوی کے تین بچوں کو رکھنے پر تیار نہیں تھی اس لیے اشفاق نے چند ماہ بعد بچوں کی کفالت کےلیے تیسری شادی کی (یہ اشفاق کا موقف ہے سچ ہے یا جھوٹ اشفاق جواب دہ ہے) جب نمائیکہ کو پتہ چلا تو یہ بچوں کو رکھنے پر بھی تیار ہوئیں اور ساتھ میں مطالبہ کیا کہ تیسری بیوی کو طلاق دو۔ اسی بات پر ان کے درمیان تلخ کلامی شروع ہوئی۔ بات گالم گلوچ سے لیکر ہاتھا پائی تک پہنچی۔ اس کے بعد اشفاق کی تیسری بیوی کے گھر جانے پر پابندی لگائی۔ اشفاق کہیں بھی جاتا تو لوکیشن اور تصویر نمائیکہ سے شیئر کرتا اپنی موجودگی کا ثبوت دیتا۔ اشفاق نے نمائیکہ کو اپنے والدین کے ساتھ رکھا جبکہ تیسری بیوی کو الگ۔۔ اس کی کوشش تھی کہ معاملہ سیٹل ہوجائے اس لیے وہ تیسری بیوی سے بھی چھپ کر ملنے جاتا تھا۔ پبلک فیگر ہونے کی وجہ سے اشفاق یہ سب برداشت کرنے پر مجبور تھا اور ان کی اہلیہ کو پتہ تھا کہ یہی ان کی کمزوری ہے۔ حالیہ واقعے کی وجہ یہ بنی کہ اشفاق کی پہلی بیوی کے بچے تیسری بیوی کے گھر گئے تھے۔ اس پر نمائیکہ نے شور مچایا کہ یہ کیوں گئے۔ اس کی آڈیو بھی موجود ہے۔ میاں بیوی میں تکرار ہاتھا پائی تک پہنچی۔ دونوں نے ایک دوسرے کو مارا پیٹا۔ صنف نازک ہونے کی وجہ سے نمائیکہ کو زیادہ چوٹیں آئی ہوں گی۔ یہ ہے کل کہانی۔۔۔
اس پوسٹ کا مقصد اشفاق کے اقدام کو جسٹیفائی کرنا نہیں۔ بیوی پر ہاتھ اٹھانا ایک مکروہ فعل ہے لیکن اگر معاملہ دو طرفہ ہو تو کسی فریق کا ہاتھ کہیں بھی لگ سکتاہے۔ سوشل میڈیا پر اشفاق کو ظالم اور جانور جبکہ نمائیکہ کو مظلوم ثابت کرنا غلط ہے۔ایف آئی آر کے بعد بھی نمائیکہ کے والد نے اشفاق سے رابطہ کیا ہے اور معاملہ افہام و تفہیم سے حل کرنے کی تجویز دی ہے لیکن اپنی بیٹی کے آگے وہ بے بس ہیں۔(خیر اللہ عزیز)