تحریر : علی عمران جونیئر
دوستو،خدا خدا کرکے عید اور عید کے چاند کا ’’لفڑا‘‘ختم ہوا۔۔اور کراچی والوں کا دھیان سمندری طوفان کی جانب منتقل ہوگیا۔۔ باباجی کی پیدائش چک جھمرا کی ہے، اور غصے میں پنجابی بولنے لگ جاتے ہیں، لیکن عمرعزیز کراچی میں کٹی ہے اور مزید کاٹ بھی رہے ہیں، ہم نے ایک روز باباجی سے پوچھا۔۔ باباجی، باسی عید کوپنجابی میں ٹرو ، تباسی عید کو ’’مرو‘‘ کہتے ہیں تو پھر عید کے چوتھے روز کو پنجابی میں کیا کہتے ہیں؟؟ باباجی نے برجستہ کہا۔۔’’سڑو‘‘۔۔یہ سن کر ہم نے چھت شگاف قہقہہ بلند کیا ، جس میں باباجی کی ہنسی بھی نمایاں تھی۔۔باباجی جس قسم کی باغ وبہار شخصیت ہیں، ان کے ساتھ گزرا ایک ایک لمحہ یادگار ہوتا ہے، ہر لمحے باباجی سے ہنسی مذاق میں کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔ بچپن سے ایک بات نوٹ کرتا آیا ہوں۔۔جب بھی رمضان ختم ہوتے ہیں، عید آجاتی ہے۔۔باباجی کا کہناہے کہ۔۔ اس بار عید سے قبل اتنا شدید لاک ڈاؤن لگا کہ ۔۔بیگم کی زبان کے سوا سب کچھ بند تھا۔۔انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ ۔۔رات بارہ بجے پہلی کے چاند دیکھنے کی ٹیکنالوجی امریکی خلائی ادارے ناسا نے پاکستان سے مانگ لی۔۔ جواب میں ناسا کو نسوار کی پڑیا بھیج دی گئی۔۔پھر ہنستے ہوئے کہنے لگے۔۔اس بار عید کا چاند نارمل نہیں ،وڈے آپریشن سے ہوا۔۔ پس ثابت ہوا کہ پاکستانی کسی وقت بھی چن چڑھا سکدے نیں۔۔۔ہمارے پیارے دوست جو ہمیشہ محفل میں چوکس موجود رہتے ہیں،کہنے لگے۔۔اس بار عید پر کچھ لڑکیوں نے لباس کے ساتھ میچنگ کے فیس ماسک پہن رکھے تھے، ان لڑکیوں کے لیے عرض ہے کہ کورونا کو پھنسانا نہیں بھگانا ہے۔۔ہمارے پیارے دوست کی ہی یہ تحقیق بھی ہے کہ ۔۔۔موبائل کی چارجنگ اور لڑکیوں کی شاپنگ کبھی پوری نہیں ہوتی ۔۔انہوں نے سوال کیا کہ۔۔وہ لوگ کدھر ہیں جو کہتے تھے کہ ۔۔عورت صرف پیسے پہ مرتی ہے۔۔ظالمو بل گیٹس توں پوچھو۔۔سنا ہے کہ اس بار سی این این سمیت کئی امریکی نیوزچینلز نے یہ بریکنگ چلائی کہ۔۔ستائیس سال بعد بل گیٹس نے آزادی کے ساتھ عید منائی۔۔ہمارے پیارے دوست کا کہنا ہے کہ۔۔ چلو ،بل گیٹس کی تو عید پر سسرال جانے اور سالیوں کو عیدی دینے سے جان چھوٹی۔۔پھر اچانک ہمارے پیارے دوست کو کچھ یاد آیا، اس نے اداکارہ شبنم کی طرح ایک گہری سسکی لی، پھر ہچکی لیتے ہوئے کہنے لگے۔۔اس عید پر میں تیار ہو کر سسرال جانے لگا ،پھر گھر والوں نے مجھے بتایا کہ تیری تو ابھی شادی نہیں ہوئی۔۔باباجی نے دوران گفتگو اچانک سوال داغا۔۔کوئی بتائے گا کہ یہ جو دل کی گہرائیوں سے عید مبارک کے مسیجز آتے ہیں ان کی گہرائی کیسے ناپتے ہیں؟ آپ نے اکثر دیکھا ہوگا اور یہ تجربہ خود بھی کیا ہوگا کہ جب آپ کوئی پھل خریدتے ہیں تو فروٹ والے سے لازمی پوچھتے ہیں، بھائی جی یہ میٹھا توہے؟ وہ آگے سے پھل کے میٹھا ہونے کی سوفیصد نہ صرف گارنٹی اور وارنٹی دیتا ہے بلکہ آپ کو ٹیسٹ کرانے کی آفر بھی کرتا ہے، لیکن ہماری قوم دنیا کی شاید واحد قوم ہے جو امرود خریدتے وقت پوچھتے ہیں کہ میٹھے ہیں یا نہیں اور بعد میں نمک لگالگاکرکھاتے ہیں۔۔لوجی، پھلوں کا ذکر آیا ہے تو چونکہ گرمیوں کی آمد ہورہی ہے اور اس موسم میں پھلوں کے بادشاہ کو ہم سب مل کر خوش’’آم۔دید‘‘ کہتے ہیں تو اسی حوالے سے ہمارے پیارے دوست نے کیا خوب کہا ہے کہ ، عام آدمی بھی ’’آم‘‘ کی طرح ہوتا ہے، کوئی آکر چوس لیتا ہے تو کوئی کاٹ لیتا ہے۔۔جہاں پیارے دوست کا ذکر آجائے اور باباجی کی بات نہ ہو،ایسا ہم ہونے نہیں دیں گے، باباجی فرماتے ہیں،انسان اگر چاہے تو ایک ایک کرکے ہر مسئلے سے نمٹ سکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسائل ایک قطار میں نہیں آتے۔۔باباجی کا مزید فرمانا ہے۔۔اگر آپ کا کہیں ’’جی‘‘ نہیں لگ رہا تو آپ میرے نام کے ساتھ جی لگاسکتے ہیں۔۔باباجی کا مزید کہنا ہے کہ ۔۔زندگی ہمیشہ عجیب و غریب سبق دیتی ہے جن میں سے اکثر میں بھول جاتا ہوں۔۔آپ لوگوں نے نوٹ کیا ہوگا کہ پہلے ڈاکٹرز کی پرچی پہ ’’اللہ ھوالشافی‘‘ لکھا ہوتا تھا اور آج کل کے ڈاکٹرز کی پرچی پہ ’’کْلّْ نَفسٍ ذَائقۃ المَوتِ ‘‘لکھا ہوتا ہے۔۔ میاں بیوی کے رشتے میں الزام تراشی نہیں ہوتی،بیوی کی غلطی شوہر کی غلطی ہوتی ہے اور شوہر کی غلطی تو شوہر کی ہی غلطی ہوتی ہے۔۔باباجی فرماتے ہیں کہ۔۔مجھ میں اور اس میں فرق بس چھوٹی بڑی ’’ے‘‘ کا تھا،میں پری کہتا رہا اور وہ پرے کہتی رہی۔۔باباجی نے اپنی پرانی یادوں کو کریدتے ہوئے بتایا کہ ایک بار انہوں نے اپنی محبوبہ کوصاف کہہ دیا کہ۔۔آخر کیوں نہ کہوں کہ تم بے وفا ہو،تمہارے بالوں کے بھی دو دو منہ ہیں۔۔باباجی کہتے ہیں کہ ۔۔آج زوجہ ماجدہ ہفتہ واری کپڑوں کو دھورہی تھیں، میں نے واشنگ مشین میں کپڑوںکا چکر دیکھ کر ایک بات سوچی کہ جو چکروں میں پڑتا ہے اس کی دھلای لازمی ہوتی ہے۔ زوجہ ماجدہ کا ذکر آنے پر ایک اور واقعہ سنانے لگے۔۔ بولے، اس بار عید کے دوسرے روز جب کہ ملک بھر میں ’’یوم سسرائیل ‘‘منایاجاتا ہے،زوجہ ماجدہ نے کہا۔۔یہ سوٹ سب نے دیکھا ہوا اس لیے میں یہ پہن کر نہیں جاسکتی مجھے نیا سوٹ چاہیے۔۔باباجی نے ایک نظر زوجہ ماجدہ کو دیکھا اور بے ساختہ بولے۔۔بیگم تمہیں بھی تو سب نے دیکھا ہوا ہے تو کیا میں بھی نئی بیوی کا مطالبہ کروں؟؟یہ واقعہ سنانے کے بعد باباجی فرمانے لگے کہ ۔۔جب تک خواتین سمجھتی رہے گی کہ لان کے سوٹ کو پہن کر میں بالکل اسی ماڈل کی طرح لگوں گی،یقین مانیے کپڑوں کی انڈسٹری کا بالکل زوال نہیں آئے گا۔۔بیویوں کی شان میں باباجی کا یہ قول بھی اقوال ذریں سے کم نہیں کہ۔۔ہاتھ کی کمائی کو ہاتھ کی صفائی سے اپنے پرس میں منتقل کرنے والی مخلوق کو بیوی کہتے ہیں۔۔ اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ہرچیز کاصدقہ ہوتا ہے، عقل کا صدقہ یہ ہے کہ بیوی سے بحث نہ کی جائے۔۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔