تحریر: رؤف کلاسرا۔۔
کرکٹر شاہد آفریدی کی ویڈیو دیکھ رہا تھا جس میں وہ ڈرے ڈرے اپنے اس بیان کی وضاحت دینے کی کوشش میں مصروف تھے کہ انہوں نے عمران خان پر تنقید اور شہباز شریف کو وزیراعظم بننے پر مبارکباد کیوں دی۔ان پر سوشل میڈیا میں سخت تنقید ہورہی تھی۔ پاکستان میں تنقید کا مطلب کسی کی رائے سے اختلاف کرکے اپنی رائے دینا نہیں بلکہ سیدھا گالی دینا تنقید سمجھا جاتا ہے۔ اکثریت لوگوں کیلئے یہ نارمل سی بات ہے کیونکہ ساری عمر انہوں نے تنقید کے نام پر گالیاں کھائی ہوتی ہیں‘ لہٰذا انہیں کسی سے ناپسندیدگی یا نفرت کا یہی اظہار سمجھ آتا ہے کہ اسے گالی دی جائے۔
شاہد آفریدی بھی اس وقت اسی صورت حال کا شکار ہیں۔ مشہور کھلاڑی، اداکار یا کسی بھی فیلڈ کے کامیاب لوگ ہمیشہ لوگوں کی تالیوں کے محتاج ہوتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اچھے کمنٹس سننے کے عادی ہو جاتے ہیں‘ لہٰذا آج کے سوشل میڈیا کے دور میں جب ان کو رائے یا تنقید کے نام پر گالیاں دی جائیں اور خصوصی طور پر جب آپ کے بچے بھی سوشل میڈیا پر موجود ہوں تو پھر وہ لوگ جو اپنے امیج بارے حساس ہوتے ہیں وہ یا تو ڈپریشن میں چلے جاتے ہیں یا پھر وہ وضاحتیں دینے کی کوشش کرتے ہیں جیسے شاہد آفریدی دے رہے تھے۔
کوئی اپنے فین نہیں کھونا چاہتا۔ یہی وجہ ہے کہ انڈیا میں سلمان خان، عامر خان یا شاہ رخ خان بھی اپنے فین فالوئنگ کے ڈر سے بھارت میں جاری مسلمانوں یا دیگر اقلیتوں کے خلاف اقدامات پر نریندر مودی پر بات نہیں کرتے‘ جس پر کچھ طبقات کی طرف سے تنقید ہوتی ہے کہ انہیں انسانیت سے زیادہ اپنے فلمی کیریئر عزیز ہیں۔ اس کے برعکس امریکہ یا ہالی ووڈ میں دیکھا۔ وہاں بڑے اداکاروں نے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف آسکر ایوارڈز کی تقریب ہو یا دیگر مواقع وہاں کھل کر تنقید کی۔ وہ نہیں گھبرائے کہ پاکستان میں عمران خان، اور بھارت میں نریندر مودی کے فالورز کی طرح ٹرمپ کے فالورز آن لائن ان کا کیا حشر کریں گے یا ان کی عوام میں مقبولیت کم ہوگی۔ یہ نشانی ہوتی ہے کہ آپ ذہنی طور پر اور انٹلیکچولی کتنے کلیئر اور پاورفل انسان ہیں کہ آپ کے نزدیک آپ کے خیالات اہم ہیں نہ کہ یہ ڈر کہ آپ کے خیالات کی وجہ سے لوگ کیا رائے رکھیں گے۔
دنیا کی تاریخ میں بہت لوگوں نے اپنے نظریات، خیالات یا ازم کی وجہ سے سزائیں بھگتیں، جانیں دیں، پھانسیاں لگے لیکن کمپرومائز نہیں کیا۔ وہی کہا جو ان کے خیال میں کہا جانا چاہیے تھا چاہے جو بھی قیمت چکانی پڑے۔ قدیم تاریخ میں جس بندے نے اپنے نظریات یا خیالات کی وجہ سے موت کو خود گلے لگایا وہ سقراط تھا۔ اس پر بھی یہی الزام لگا تھا کہ وہ ایلیٹ اور حکمران طبقے پر تنقید کررہا تھا جس سے سلطنت میں بغاوت اور انتشار کا خطرہ تھا‘ لہٰذا اس کا ٹرائل ہوا اور اسے دو آپشن دیئے گئے۔ سلطنت چھوڑدو یا زہر کا پیالہ پی لو۔ریکارڈڈ انسانی تاریخ میں کسی نے اپنے نظریات یا اپنی رائے کیلئے سب سے پہلے موت کو گلے لگایا تو وہ سقراط تھا۔
شاہد آفریدی نے اگر عمران خان پر چند تنقیدی الفاظ کہہ بھی دیئے ہیں تو کون سی قیامت آ گئی۔ خود عمران خان بھی کھلاڑی سے اٹھے اور سب پر تنقید شروع کی۔ ان پر بھی اسی طرح نواز لیگ کے حامیوں نے حملے کیے جیسے آج شاہد آفریدی پر عمران خان کے حامی کررہے ہیں۔ خود عمران خان کے اس مقام پر پہنچنے کی بڑی وجہ ان کا رولنگ ایلیٹ پر تنقید کرنا ہے‘ جو ان کے خیال میں بہتر لوگ نہیں تھے۔ شاہد آفریدی پر یہ بھی غصہ ہے کہ اس نے شہبازشریف کو وزیراعظم بننے پر مبارکباد کیوں دی۔ یہ شاہد آفریدی کی اپنی رائے ہے اور ضروری نہیں کہ ہم اس سے اتفاق کریں لیکن یہ کیا طریقہ اختیار کر لیا گیا ہے کہ جو عمران خان، مریم نواز یا نواز شریف پر تنقید کرے گا اس کی خیر نہیں؟ ان کے پیروکار ان کا جینا حرام کر دیں گے۔
خود عمران خان ان تمام سیاسی حکمرانوں سے فائدے لیتے رہے جنہیں بعد میں وہ ڈاکو یا چورکہتے رہے۔ آج بھی وہ نواز شریف کو جمائما سے طلاق کا سبب سمجھتے ہیں کہ ان کے خلاف کمپین چلائی گئی جس سے ان کا گھر ٹوٹ گیا۔ تین سال بعد اگست 2007 میں وہی عمران خان انہی نواز شریف کو منانے لندن پہنچے ہوئے تھے کہ پاکستان کو آپ کی ضرورت ہے۔ میں عینی شاہد ہوں۔ اس وقت انہیں یاد نہ رہا ان کا گھر انہی کی وجہ سے ٹوٹا تھا۔ گیلانی صاحب کو وہ نمل کالج میں وزیراعظم کے طور پر لے گئے اور انہوں نے مالی گرانٹ کا اعلان کیا۔ جنرل مشرف کو ہسپتال کی تقریب میں بلایا اور کروڑوں کی گرانٹ لی۔ آج وہ ان پر تبرہ پڑھتے ہیں۔ جنرل مشرف کو بھی امریکہ کی وار آن ٹیرر کا ساتھ دیئے ہوئے تین سال گزر چکے تھے۔ جب عمران خان لندن میں نواز شریف کو پاکستان واپس لانے گئے تھے تو اس وقت شریف خاندان این آر او لے کر پہلے سعودی عرب اور پھر لندن رہ رہا تھا۔ وہ این آر او جس پر وہ اب ہر وقت تنقید کرتے ہیں۔
اب پاکستان میں ایک نیا کلچر ڈویلپ ہورہا ہے کہ عمران خان پر تنقید نہیں ہوسکتی۔ اگر عمران خان پر تنقید نہیں ہوسکتی تو پھر عمران خان دوسروں پر تنقید کا حق کیسے رکھتے ہیں؟ جس آزادی رائے کا حق انہیں حاصل ہے وہی ان کے مخالفوں کو بھی ہے۔ یہی جمہوریت ہے۔ ہاں اگر آپ جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے اور آپ کے اندر ایک بادشاہت یا فاشسٹ سوچ موجود ہے کہ صرف آپ ہی سچے ہیں اور آپ کے ناقدین قابل گردن زدنی ہیں تو یقین کریں آپ پھر ایک جدید دنیا میں نہیں رہتے بلکہ شاید صدیوں پہلے کے یورپ یا ہندوستان میں رہتے ہیں جب بادشاہتیں تھیں اور بادشاہ کے ایک حکم پر سر قلم کر دیا جاتا یا زندان میں ڈال دیا جاتا تھا۔ اگر بادشاہت یا فاشزم والی سوچ سے معاشرے ترقی کرتے تو آج پوری دنیا میں جمہوریت نہ ہوتی۔ انگلینڈ میں Tudors خاندان اور ہندوستان میں مغل بادشاہت چل رہی ہوتی جو مخالفوں کی گردن اڑا دیتے تھے۔ پھر تو کوئی بھی سیاست میں داخل ہوتے ہی ختم کرا دیا جاتا۔ معاشرہ مختلف خیالات کے حامل افراد سے چلتا ہے۔ تصور کریں‘ بائیس کروڑ عوام عمران خان کو پسند کرنا شروع کر دیں یا نواز شریف یا مریم نواز کے حامی بن جائیں تو کیا حشر ہوگا؟
ایسا معاشرہ جہاں لوگ ایک جیسا سوچتے ہیں‘ کچھ عرصے میں اپنی موت آپ مرجاتا ہے۔ وہ معاشرہ ایک ایسے تالاب کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو بدبو دینے لگ جاتا ہے۔ اس لیے آپ نوٹ کریں وہ معاشرے اس جدید دنیا کو لیڈ کررہے ہیں جہاں لوگوں کو رائے دینے کی آزادی دی گئی۔ مذہب اور ریاست اور سیاست کو الگ کیا گیا۔ جہاں سیاسی حکمرانوں کو محض ایک انسان سمجھا گیا جو غلطیاں کرسکتا ہے اور جس پر تنقید ہوسکتی ہے اور غلط کاموں پر اس کی جواب طلبی بھی ہوسکتی ہے۔ ان معاشروں نے پاکستان یا بھارت جیسے معاشرے نہیں بننے دیئے جہاں عمران خان اور نریندر مودی جیسے لیڈروں پر تنقید گناہِ عظیم سمجھ لیا گیا ہے۔ اب آپ کو سمجھ جانا چاہیے کہ بھارت اور آج کے پاکستان پر ہزاروں سال تک بیرونی حملہ آوروں نے کیسے حکمرانی کی۔ جس معاشرے اور ملک میں انسانوں کو بت کا درجہ دے کر ان کو پوجا جاتا ہے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ بادشاہ سلامت غلطی نہیں کرسکتے وہی معاشرے تباہ ہوتے ہیں۔ وہ اصلی غلام ہوتے ہیں۔ پاکستان بھارت میں تو صدیوں کی غلامی کی تاریخ ہے کہ جو گھوڑے ہاتھی پر سوار ہے اس کے سامنے لیٹ جائو، اسے دیوتا بنا لو اور ساری عمر اس کے پچاری بن کر گزارو۔
ویسے ہمارے پاکستانی بادشاہ کتنے خوش قسمت ہیں جن کے لاکھوں پجاری اکیسویں صدی میں بھی یقین رکھتے ہیں کہ ان کا بادشاہ گناہ یا غلطی نہیں کرسکتا۔ تنقید نہیں ہو سکتی۔ سب گناہ اور غلطیاں ان کے چیلے، عوام اور پجاری کرتے ہیں اور سزا کے حقدار بھی وہی ہیں‘ بادشاہ سلامت نہیں۔(بشکریہ دنیانیوز)۔۔