تحریر: انور حسین سمرا، تحقیقاتی صحافی۔۔
ماما صدیق سر جھکائے پرشان حال بیٹھا دل ہی دل میں کوئی خواہش کر رہا تھا کہ میں نے پوچھا خیر ہے اتنی گہری سوچ میں گم ہو. جواب دیا کہ اللہ کرے ساڈے ضلع سے کوئی ایم پی اے وزیراعلیٰ بن جائے ضلعے میں توقیاتی کام ہونگے اور ہماری محرومیاں بھی دور ہو جائیں گی. میں نے سوال کیا ترقیاتی کاموں کے لئے وزیر اعلی ضلع سے ہونا ضروری نی تو ماما صدیق ہڑبڑا اٹھا اور کہا پتر تسی دیکھا نی کہ گزشتہ 20 سال سے صوبے میں ترقیاتی کام اس ضلع میں ہونے جس سے وزیر اعلی یا وزیراعظم منتخب ہوئے. مزید کہا کہ اس روش کی بنیاد بھی شریفاں نے رکھی تھی اور بڑھے منصوبے بڑھی دہاڑی کا نیا فارمولا بھی دیا جس پر آج تک عمل ہورہا ہے. میں نے کہا کہ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے لئے علاقے کی آبادی، پسماندگی، بنیادی سہولیات کے فقدان اور رقبے کے میعارات کو سامنے رکھا جا تا ہے جس پر مامے صدیق کا جواب تھا یہ سب کتابی باتیں ہیں پتر۔ میں نے کہا کہ اس اصول کے پیش نظر علاقے کی ترقی اور عوام کی فلاح وبہبود ہوتی ہے تاکہ معاشرے میں توازن پیدا کیا جاسکے اورعوام کی محرومیوں کو دور کرکے ان کو قومی دارے میں لایا جاسکے۔ معاشرہ ترقی کرتا ہے تو ملک و معیشت بھی ترقی کرتی ہے ۔ لیکن مامے صدیق نے کہا کہ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پنجاب میں ترقی اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے لئے خاندانی فارمولے پر عمل کیا گیا ہے اور دل کھول کر حکمرانوں نے آپنیاں تجوریاں بھری۔ پنجاب میں جب شہباز شریف پہلی مرتبہ وزیراعلی بنے تو لاہور پر فوکس کیا گیا اور صوبے کے ادھے سے زائد ترقیاتی فنڈز استعمال کیے گئے اور پنجاب حکومت نے اس امتیازی سلوک کی وجہ سے تخت لاہور کا ٹائٹل بھی حاصل کیا۔ ان ترقیاتی فنڈز کے استعمال سے لاہور میں اگرچے انفراسٹریکچر کو بہتر بنایا گیا لیکن دیگر اضلاع میں محرویوں میں اضافہ ہوا۔ اگرچے شہباز شریف نے گڈ گورننس کا نعرہ لگایا تھا جس کے تحت شفافیت اور ضرورت کے تحت فنڈز کی تقسیم کو اضلاع کے درمیان رکھنے کا عزم کیا گیا تھا لیکن عملی طور پر لاہور ہی ترقیاتی فنڈز کے استعمال کا مرکز بنا۔ تحریک انصاف کی حکومت پنجاب میں قائم ہوئی تو امید بندھی کہ عمران خان کی قیادت میں ترقیاتی فنڈز کی منصفانہ تقسیم سے تمام اضلاع میں پسماندگی کو دور کرنے اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ وسیم اکرم پلس کی قیادت نے پنجاب حکومت نے جنوبی پنجاب خاص طور پر ڈیرہ غازی خان ، تونسہ اور بہارتی ( وزیر اعلی کے گاون ) پر فوکس کیا اور تین سال میں 80ارب کے فنڈز ترقیاتی کاموں کے نام پر خرچ کردیے گئے۔ اس دوران لاہور کو بری طرح نظر انداز کیا گیا او ایک بارش سے لاہور جوہڑ بن جاتا تھا بلکہ مین سڑکوں پر گڑھے بن گئے. بزدار اتنے خوش قسمت ہیں کہ سیلاب آیا اور تمام ترقیاتی منصوبہ جات پانی کی نظر ہوگئے اور کرپشن کی کہانیاں زبان زدے عام ہونے کے باوجود اب خیالی کہانیاں نظر آنے لگی ہیں۔ کرپشن کے ثبوت بھی مٹ گئے اور بزدار کو کلین چٹ بھی مل گئی ہے۔ عوام کی حالات تو بہتر نہ ہوئی لیکن بزدار ٹھیکیداروں کی غربت دور ہو چکی ہے. اب پنجاب میں رجیم چینج کے بعد چوہدری پرویز الہی کا دور ہے جس میں ترقیاتی فنڈز کا رخ گجرات اور ان کے پرنسپل سیکرٹری کے ضلع منڈی بہاوالدین کی طرف مڑ دیا گیا ہے۔ گجرات کے عوام کی محرومیاں شائد دور ہوں نہ ہوں گجرات اور منڈی کے ٹھیکیداروں اور سیاستدانوں کی غربت ضرور دور ہو گی. ماما صدیق یہ کہتا ہے کہ اب ہر جنرل الیکشن میں ہر ضلع کی عوام کو دعا کرنا ہوگی کہ ان کا منتخب نمائندہ وزیر اعلیٰ بن جائے تو ان کی محرومیاں دور کر کے ان کی زندگی میں بہتری لائی جا سکدی اے ورنہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتتے رہیں گے. اس ترقیاتی ماڈل سے صوبے کے تمام اضلاع میں ترقیاتی منصوبوں پر عمل 33 جنرل الیکشن کے بعد ممکن ہوگا جس میں 165 سال لگ سکتے ہیں. اب سوال یہ ہے کہ اگر وزیر اعلی لاہور، گجرات اور جنوبی پنجاب کے علاوہ نی بنتا تو دیگر اضلاع کی عوام کا کیا قصور ہے وہ بھی اس صوبے کے باسی ہیں اور ٹیکس بھی دیتے ہیں۔۔( انور حسین سمراء، تحقیقاتی صحافی)۔۔