سینئر صحافی، کالم نویس اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے انکشاف کیا ہے کہ ۔۔ گیم آن ہے ترامیم کے بعد جلد ہی تبدیلیوں کے اشارے شروع ہو سکتے ہیں۔روزنامہ جنگ میں اپنے تازہ کالم میں وہ لکھتے ہیں کہ۔۔شہباز حکومت مقتدرہ کی اُس وقت تک مجبوری ہے جب تک تحریک انصاف کی طاقت ٹوٹ نہیں جاتی جونہی تحریک انصاف کا خطرہ کم ہوگا شہباز حکومت کے خلاف تین نکاتی چارج شیٹ کا ڈھول دھیمے سروں میں بجنا شروع ہو جائے گا۔ پہلا نکتہ سیاسی بیانئے کی عدم موجودگی اور مقتدرہ کو عوامی حمایت فراہم نہ کرنا، دوسرا نکتہ فیصلہ نہ کرسکنے کی صلاحیت اور وزیراعظم سیکرٹریٹ کی ہر وزیر کے راستے میں رکاوٹیں اور عملدرآمد نہ کرنے کا بڑھتا ہوا الزام، تیسرا نکتہ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت میں رابطے کا فقدان اور متضاد راستوں پر چلنا، میرا ناقص تجزیہ یہ ہے کہ اگر واقعی یہ چارج شیٹ سیاسی حکومت اور مقتدرہ کے تعلقات میں دراڑ ڈالتی ہے تو پارلیمان کے اندر سے ہی قومی حکومت کی راہ ہموار ہونا شروع ہو جائے گی۔ اس قومی حکومت میں کمزور تحریک انصاف، ناکام نون لیگ، مقتدرہ کی دو فیورٹ سندھی جماعتیں پیپلز پارٹی اور متحدہ کے علاوہ جمعیت علمائے اسلام اور دوسری جماعتیں شامل ہوں گی۔ یہ حکومت دو سال کیلئےبننے کا امکان ہے۔ میرے اندازے کے مطابق اس قومی حکومت کے متوقع وزیراعظم کا نام ایک اہم وفاقی وزیر، بلاول بھٹو اور شاہد خاقان عباسی میں سے کسی ایک کا ہو سکتا ہے۔ شاہد خاقان عباسی پارلیمان کے رکن نہیں ہیں مگر وہ اچھی شہرت کے حامل ہیں اور قومی حکومت بنانے کے حامی۔ ہو سکتا ہے کہ شاہد خاقان عباسی کو بھی کسی نہ کسی طرح پارلیمان کا رکن بنوا دیا جائے۔ میرا یہ تجزیہ کسی انفارمیشن یا خفیہ خبر کی بنیاد پر نہیں،یہ تضادستان کے بدلتے حالات اور ادارہ جاتی دبائو کی روشنی میں ہے، ماضی میں بھی یہی عناصر تبدیلیوں کا باعث بنتے رہے ہیں۔ مستقبل میں بھی یہی عناصر تبدیلی کا باعث بنیں گے۔ شہباز شریف حکومت کی بقاء تحریک انصاف کے طاقتور رہنے میں ہے جبکہ تحریک انصاف کا مفاد شہباز حکومت کے کمزور ہونے میں ہے اور مقتدرہ کا مفاد سب جماعتوں کی ’’نام نہاد قیادتوں‘‘ سے چھٹکارے میں ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ گیم آن ہے ترامیم کے بعد جلد ہی تبدیلیوں کے اشارے شروع ہو سکتے ہیں۔