ilaqai akhbaar itne ahem kyun?

تقسیم کرو، راج کرو کی پالیسی۔۔

تحریر: عرفان اطہر قاضی

معاف کیجئے گا میرے پاس آج کوئی مثبت خبر نہیں ہے، اخبارات کی بندش، صحافی کارکنوں کی بیروزگاری، مالی دشواری، ہر آنے والا دن تشویش بڑھا رہا ہے، مایوسی کا نہ تھمنے والا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ صبح سے شام تک ایک ہی کہانی ہے سر جی! نوکری ہے؟ بہت پریشان ہوں، گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑ چکا ۔ بچوں کے اسکول کی فیس ادا نہیں کی، دوائی کے پیسے نہیں، ایسے ایسے میرے پیارے صحافی کارکن دوست، شاگرد میرے پاس آتے ہیں جن کے بارے میں کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ بیروزگار ہوں گے۔ ابھی کل ہی ایک سیاسی رہنما کا فون آیا، خیریت پوچھنے کے بعد کہنے لگے:میرے ایک بزرگ دوست کالم نگار ہیں۔ پشاور سے ان کا تعلق ہے اور معروف مقامی اخبار میں عرصہ سے کالم لکھ رہے ہیں۔ اگر آپ مناسب سمجھیں تو انہیں خدمت کا موقع دیں۔ میں مزید پریشان ہو گیا، کوئی جواب نہیں تھا میرے پاس۔ میں نہ چاہتے ہوئے بھی مسکرایا اور کہا:آپ تو سب جانتے ہیں کہ کیسے حالات سے ہم آج کل گزر رہے ہیں۔ صرف میرا ادارہ ہی نہیں تمام میڈیا ہائوسز مالی بحران کا شکار ہیں اور اس بحران سے نکلنے کی کوئی تدبیر نہیں نکل رہی۔ میرا جواب سن کر وہ کچھ دیر خاموش رہے پھر کہنے لگے:ٹھیک ہے اگر مستقبل میں ضرورت ہو تو مجھے بتائیے گا۔ ایک نوجوان میرے کمرے میں داخل ہوا، اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، چہرے پر ایسی پریشانی کہ چھپائے نہ چھپ سکے۔ اس نوجوان کو میرے ایک شاگرد، دیرینہ دوست، معروف کامرس رپورٹر نے میرے پاس بھیجا تھا کہ اس کے روزگار کا کوئی بندوبست ہو سکے۔ درخواست گزار نوجوان جسمانی طور پر بھی معذور تھا اور عرصے سے ایک بڑے ادارے میں سب ایڈیٹر کے طور پر کام کرتا رہا۔ کہنے لگا بیروزگار ہوں، ضرورت مند بھی اور معذور بھی، کوئی اور کام زندگی میں کیا نہ آئندہ کر سکوں گا۔ صرف صحافت ہی میرا اوڑھنا بچھونا ہے اور اسی سے میری گزر بسر ہوتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، اسکول کی فیس تو کجا اب تو گھر میں فاقوں کا ڈیرہ ہے۔ سر! مجھے کسی بھی تنخواہ پر کوئی بھی نوکری دیدیں۔ بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہو گیا ہے۔ ہر دن نئی درد ناک کہانی سنتا ہوں اور یہ درد میرے دل کے درد کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ بے بسی، مایوسی چھا جاتی ہے۔ میں ان ضرورت مندوں کی ضرورت پوری نہیں کر سکتا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کوئی میرے پاس آئے اور میں اسے ناامید لوٹا دوں۔ میرا ایمان رہا ہے کہ ادارے میں کام کرنے والے تمام کارکن اپنا نصیب ساتھ لاتے ہیں اور میرا نصیب بڑھاتے ہیں لیکن آج میری امیدیں ٹوٹ رہی ہیں۔ میں کسی کے دکھ کا کیا مداوا کروں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ ادارے کو کیسے بچایا جائے یا کارکنوں کا تحفظ کیسے کیا جائے۔ ایسے لگتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کارکنوں اور مالکان کے درمیان ٹکرائو کی کیفیت پیدا کرکے پوری میڈیا انڈسٹری کو برباد کیا جا رہا ہے۔ ادائیگیوں کے نام پر شکوک و شبہات بڑھائے جا رہے ہیں۔ سرکاری اشتہارات کا حجم 97فیصد کم کر دیا گیا ہے، پرائیویٹ سیکٹر میں کاروبار نہ ہونے کے باعث مشتہرین نے بھی ہاتھ کھینچ لیا ۔ تنگ ذہن افراد اپنی تنگ نظری کو صحافت کے میدانوں میں بھی پھیلا رہے ہیں۔ ’’تقسیم کرو اور راج کرو‘‘ کی یہ پالیسی سب کچھ تباہ و برباد کر دے گی۔ صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ اخباری مالکان کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ ادارہ بچائیں یا کارکن، کارکنوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ مالکان کی مجبوریاں کیا ہیں اور ان کے مالی مسائل کتنے سنگین ہو چکے۔

جیسے جیسے میڈیا نے ترقی کی تو اس میں وسائل کا استعمال بھی اتنا ہی بڑھا اور سہولتیں اور مراعات بھی بڑھیں۔ دوسری طرف اخباری مالکان اور ایڈیٹرز کی تنظیموں کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلوں نے اس انڈسٹری کو مزید نقصان پہنچایا۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں الزام تراشیاں ہوئیں، غلط فہمیاں پیدا کی گئیں۔ احتساب کے نام پر ایڈورٹائزنگ ایجنسیوں کے لوگوں کو جیلوں میں ڈالا گیا، گویا کہ پورا میڈیا سسٹم ہی بیٹھ گیا۔ حق سچ کی آواز دبانے کی یہ سوچ سازشی ذہنوں کو کہاں لے جائے گی؟ ہمارے حکمران جس پالیسی پر حکومت چلا رہے ہیں، آنے والے دنوں میں آپ دیکھیں گے کہ ایسا شور مچے گا، ایسا طوفان برپا ہوگا کہ کسی کو کسی کی آہیں سسکیاں سنائی نہیں دیں گی، کچھ رہنمائوں کو زنداں میں ڈالا جائے گا، ان کی کردار کشی اس طرح کی جائے گی کہ حکومت کی نالائقیاں عوام بھول جائیں گے اور میڈیا پر صرف حکومت اپوزیشن کی ’’مولا جٹ‘‘ فلم چلے گی۔ جو لوگ اپنی حدود سے باہر ریلوے کے انجن پر بیٹھ کر سیٹیاں بجا رہے ہیں اور مستقبل کے نجومی بنے بیٹھے ہیں، مارچ سے پہلے جھاڑو پھرنے کی نوید سنا رہے ہیں انہیں مشورہ یہی ہے کہ وہ پہلے اپنے ’’پلیٹ فارم‘‘ پر ٹرین چلنے سے پہلے جو دھواں اٹھتا ہے، اس کی آلودگی سے بچائو کی کوئی تدبیر کریں۔ مختلف چلتی ٹرینوں کے رنگ برنگے ڈبے لگا کر انہوں نے جو ’’نئی ٹرینیں‘‘ چلائی ہیں، یہ ’’ ٹرینیں‘‘ نہ ماضی میں کبھی کامیاب ہوئی ہیں نہ آئندہ کامیاب ہوں گی۔ ایسی ٹرینوں کا انجام ہمیشہ ’’کباڑ خانہ‘‘ ہی ہوتا ہے اور ان کو گھسیٹنے والے پرانے انجن ایک دن تھک ہار کر دم توڑ دیتے ہیں۔ نئے ڈبوں والی رنگ برنگی ٹرین کا تو لوگ کبھی نام بھی یاد نہیں رکھتے۔ آپ بوسیدہ ڈبوں پر رنگ و روغن کرنے سے عوام کو دھوکہ تو دے سکتے ہیں مگر ان پر زبردستی سفر نہیں کرا سکتے۔ ایسے ایسے یوٹرن لئے جا رہے ہیں کہ قوم کو چکر آ رہے ہیں۔ جن حالات سے حکومت دوچار ہے اور جو تماشا آنے والے دنوں میں لگنے والا ہے، جس طرح اسمبلیوں میں قانون سازی کا عمل رکا ہوا ہے اور حکمرانوں کی سیاسی عدالتیں حقیقی عدالتوں کے فیصلوں سے قبل بڑے بڑے فیصلے سنا رہی ہیں، انتشار کی جو فضا پیدا کی جا رہی ہے ہمیں یہ ٹرین سمہ سٹہ اسٹیشن ’’مڈٹرم انتخابات‘‘ پر ہی رکتی نظر آ رہی ہے یا پھر نئے انجینئر بلا کر اس دھکا اسٹارٹ ٹرین کو چلانے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔ بقول شیخ صاحب ’’مارچ سے پہلے جھاڑو پھرنے والا ہے‘‘۔ پوچھنا یہ تھا کہ کہیں مارچ سے پہلے ’’کوئیک مارچ‘‘ کی طرف اشارہ تو نہیں کر رہے آپ؟(بشکریہ جنگ)۔۔

How to Write for Imran Junior website

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں