دوستو،یہ تو آپ کے علم میں ہوگا ہی کہ نون لیگی رہنما طلال چودھری تشدد کا شکار بنے، جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے، رات تین بجے تنظیم سازی کے لئے بلوایا تھا، جس کے بعد پھینٹی پڑگئی۔۔ اس حوالے سے بہت سی کہانیاں بھی مختلف اطراف سے سامنے آرہی ہیں لیکن ہمارے خیال میں یہ سب ”چسکے بازی“ ہے۔۔ ہر بندہ اپنی پسند کی کہانی لکھ کریہ ثابت کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ اصل کہانی صرف اسے ہی معلوم ہے۔۔باباجی نے دوران بیٹھک خدشہ ظاہر کیا ہے کہ لفظ ” تنظیم سازی“ جلد تمام سیاسی جماعتوں کے لئے ایک ”گالی“ بن کر رہ جائے گی، اب کسی بھی جماعت میں تنظیم سازی کی جائے گی تو اسے رکنیت سازی یا کوئی اور نام دیا جائے گا۔۔ تنظیم سازی سوشل میڈیا پر اتنا بدنام ہوچکا ہے کہ شاید ہی کسی سیاسی جماعت کی اب غیرت گوارا کرے کہ وہ اس نام سے کوئی مہم چلائے۔۔
ہمارے پیارے دوست نے تنظیم سازی کے رہنما اصول وضع کئے ہیں۔۔ ان کا کہنا ہے کہ۔۔ تنظیم سازی کرتے وقت کون سی باتوں کو مدنظر رکھنا چاہیے۔۔سب سے پہلے تو تنظیم سازی ”بالرضا“ ہونی چاہیئے، تنظیم سازی ”بالجبر“سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے ناصرف آپ اپنی پارٹی رکنیت سے محروم ہو سکتے ہیں بلکہ آپ کو اپنی سب سے قیمتی اور نازک چیز سے بھی ہاتھ دھونا پڑ سکتے ہیں (نئے قانون کی روشنی میں)۔ تنظیم سازی کا ایک اور اہم اصول یہ ہے کہ۔۔ تنظیم سازی ہمیشہ اپنے ڈیرے پر کرنی چاہئے، اگر باامر مجبوری تنظیم سازی کسی اور کے گھر کرنی پڑ جائے تو اپنے قابل بھروسہ گارڈز کو ضرور ساتھ لے جائیں۔۔ تنظیم سازی کا کام ہمیشہ یونین کونسل کی سطح سے شروع کروانا چاہئیے (یعنی چیئرمین یو سی کو تنظیم سازی کرنے دیں) ڈائریکٹ تحصیل یا ضلع کی سطح پر تنظیم سازی کرنے سے ہڈیاں بھی ٹوٹ سکتی ہیں۔ تنظیم سازی کے سلسلے میں جب بھی ملاقات کرنی ہو وہ ہمیشہ آفیشل جگہ / دفتر پہ ہو، کسی کے گھر میں اجلاس سے سختی سے پرہیز کیا جائے۔۔اجلاس کا وقت نماز مغرب سے پہلے یا اندھیرا چھا جانے سے پہلے اختتام پزیر ہو جائے۔۔ اگر تنظیم میں خواتین ممبر بھی رکھنی ہوں تو منتظم صاحب اپنے ساتھ کم از کم ایک خاتون ممبر رکھیں۔۔ اگر تنظیم میں خواتین امیدوار بھی ہوں تو اپنے ماضی کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ان کے بھائی گن لے۔ تنظیم سازی کا اجلاس پر تشدد ہو جائے تو کوئی اچھا سا بہانہ تیار رکھیں۔۔ ویسے تنظیم سازی سے اجتناب ہی کیا جائے تو بہتر ہوگا۔۔
تنظیم سازی کی سوشل میڈیا پر بہت دھومیں ہیں۔ ایک صارف نے نواز شریف کی پیروڈی میں لکھا کہ میرے محنتی پٹواری طلال چودھری رات کو اڑھائی بجے تنظیم سازی کر رہے تھے کہ کسی عائشہ نامی خاتون کے نامعلوم بھائیوں نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا۔ایک صارف نے طلال چودھری کاہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے لکھا اگلے چند روز اس کے گھر سے دور رہیں، اس کے بھائی تو درندے ہیں۔ایک منچلے نے پوسٹ کی پیارے پٹواریوں کیلئے مشورہ ہے کہ تنظیم سازی سے پہلے بھائیوں کی تعداد جان لیا کریں، بصورت دیگر ادارہ ذمہ دار نہیں ہوگا۔ تنظیم سازی صحت کیلئے مضر ہے۔ایک منچلے نے شہباز شریف کی تصویر لگا کر کیپشن لگایا کہ جس سڑک پر طلال چودھری کی پٹائی ہوئی ہے، الحمد للہ وہ سڑک بھی میاں محمد نواز شریف نے بنوائی ہے۔طلال چودھری کی ایک تصویر کا کیپشن تھا کہ میں اس ملک میں خود کو محفوظ تصور نہیں کر رہا۔کوئی بتارہا تھا کہ طلال چودھری اسپتال کا بل اداکئے بغیر پولیس کے آنے سے پہلے ہی خاموشی سے کسی نامعلوم مقام پر منتقل ہوگئے۔۔ جاتے جاتے اسپتال کی نرس کو کہہ گئے کہ۔۔میں گھر نہیں جارہا کیوں کہ بیگم کے بھائیوں نے بھی گھر میں تنظیم سازی کا بندوبست کررکھا ہوگا۔۔
اب کچھ باباجی کی نسلی باتیں بھی ہوجائیں، اس کے بعد دوبارہ تنظیم سازی پر توجہ دیں گے۔۔ باباجی فرماتے ہیں۔۔شادی شدہ بندہ کسی لڑکی کے بھائیوں سے پٹ جائے تو اس بے چارے کی اگلی پریشانی یہ ہوتی ہے کہ کس طرح اس بات کو چھپائے کہ معاملہ بیگم کے بھائیوں تک نہ پہنچ پائے۔۔ باباجی کا مزید کہنا ہے کہ۔۔ ویکسین کا انتظار کرتے کرتے، کورونا وائرس کا پہلا برتھ ڈے بھی نزدیک آن پہنچا ہے۔۔وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ۔۔کورونا وائرس کم ہواہے، ختم نہیں ہواہے، برائے مہربانی تنظیم سازی سے مکمل گریز کریں۔۔کنٹرول لائن پر مسلسل بھارتی خلاف ورزیوں پر باباجی جلال میں آکر فرماتے ہیں کہ۔۔بھارت ایک ایسی قوم کو للکار رہا ہے جو کب سے صرف یہ دیکھنا چاہتی ہے کہ آخر ایٹم بم چلتا کیسے ہے؟؟یہ بھی باباجی کا ہی فرمان ہے کہ۔۔پاکستانی عوام کو دنیا کی کوئی طاقت آگے بڑھنے سے نہیں روک سکتی، بس دعا کرو کہ راستے میں لنگر تقسیم نہ ہورہا ہو۔۔اپنے ملک کے حوالے سے باباجی کی رائے ہے کہ۔۔ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں کہ اگر ہم کسی دوست کو کچھ رقم قرض میں دیتے ہیں تو، ہم دونوں کو ہی کھودیتے ہیں۔۔
چلئے پھر تنظیم سازی کی جانب چلتے ہیں۔۔ کسی دوست نے ہمیں تنظیم سازی کے حوالے سے ایک تازہ غزل واٹس ایپ کی ہے، خوب صورت لفظوں کی خالق پروین شاکر کی غزل کی اس پیروڈی کا رائٹر کون ہے، یہ ہم باوجود کوشش کہ نہ جان سکے۔۔ غزل کچھ اس طرح سے ہے کہ۔۔۔کو بہ کو پھیل گئی بات اس ٹھکائی کی،اُس کے بھائی نے میری ایسی کچھ دُھنائی کی۔۔کیسے کہہ دوں کہ مجھے مروڑ دیا ہے اس نے،بات تو سچ ہے، مگر بات ہے رسوائی کی۔۔میری ہڈی، میری پسلی کی طرح چُور ہوئی،مجھ پہ گذری قیامت، ایسی ہی پٹائی کی۔۔اس نے ٹوٹی ہوئی ہڈی پہ جب پاؤں رکھا،فلک تک گونج گئی، آواز اس دہائی کی۔۔وہ اکیلی نہ تھی، اس ظلم و ستم میں ہرگز،اُس کو حاصل تھی مدد، اس کے بڑے بھائی کی۔۔اب کے دے چھوڑ تو آئیندہ نہ کبھی چھیڑوں گا،بات یہ دل سے ہے نکلی، ترے شیدائی کی۔۔اب تو ہر رات ہی ٹیسوں سے بدن دکھتا ہے،جاگ اُٹھتی ہیں سب دردیں ہی اُس کُٹائی کی۔۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔۔شرم سے پانی پانی ہونا سیکھ لیا جائے تو وطن عزیز میں پانی کی کمی دور ہوسکتی ہے۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔