تحریر: فواد رضا
ہاں تو میرے دوستو! تنخواہ تو آئی نہیں ۔۔ آئیں کچھ ایسے ہی شغل بیٹھک لگاتے ہیں۔۔۔ میں پچھلے کچھ مہینوں سے متواتر دوستوں سے کہہ رہا ہوں کہ خدارا اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلیں، تنخواہوں کی ادائیگی نہ ہونا ، یہ سب صرف اس لیے ہے کہ آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں ہے۔ ایسا ہی کوئی خوفناک بحران ہے میڈیا انڈسٹری میں تو مالکان ادارے بند کریں اور خود بھی گھر بیٹھیں اور اسٹاف کے بھی پیسے آنے جانے میں ضائع مت کرائیں اگر تنخواہیں نہیں دینی تو۔۔ اب معاملہ یہ ہے کہ میری یہ پوسٹ مالکان نے تو پڑھنی نہیں ہے اور اگر غلطی سے کسی چینل کے مالک نے پڑھ بھی لی تو وہ اسے اعلان ِ بغاوت سے زیادہ کچھ نہ سمجھے گا۔ میں مخاطب ہوں خود سے اور آپ سے ، جو دوست مجھے قریب سے جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ میں کچھ اور آپشن استعمال کررہا ہوں جس کے سبب میں پریشان تو ہوں لیکن پریشانی کے اس درجے پر نہیں ہوں جہاں آپ ہیں، اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ میں اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکل آیا ہوں ۔۔ زمانہ ہوا میں دفتر سے گھر یا پریس کلب جاکر ذہنی سکون حاصل کرنے کے بجائے سڑکیں ناپتا ہوں اور شہر کی خاک سے اپنے لیے کچھ سہولتیں کشید کرتا ہوں۔۔۔ یہی مشورہ میں متواتر سب دوستوں کو دے رہا ہوں، کچھ نے ہمت بھی کی، کچھ مجھ سے رابطے میں ہیں اور کچھ اپنے طور پر کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جو مجھ سے رابطے میں ہیں ، ان میں سے جنہوں نے کام شروع کیا ، ان میں سے چند کو اندھیرے میں امید کی کرن نظر آنا شروع ہوچکی ہے لیکن زیادہ تر لوگ ابھی بھی مشکلات کا شکار ہیں۔۔ اور اس کا سبب یہی ہے کہ وہ کمفرٹ زون سے باہر آکر بھی باہر نہیں آ پارہے، وہ سوچتے ہیں کہ یہ کام تو محض وقتی ہے انڈسٹری کے حالات بہتر ہوجائیں گے تو پھر واپس اپنی نوکری ہی دل لگا کر کریں گے۔ یاد رکھیں !بہتر منصوبہ بندی اور ٹارگٹ کی جانب مسلسل جدوجہد ہی نجات کا واحد راستہ ہے اور ہمیں ہر صورت یہ ر استہ طے کرنا ہوگا۔۔۔ کچھ دوست جن کے ساتھ مجھے کچھ کام کرنے ہیں اور ہم نے ان پر ورکنگ بھی کررکھی ہے ، میں معذرت خواہ ہوں کہ میری ذہنی تھکاوٹ بے انتہا ہونے کے سبب وہ کام تاخیر کا شکار ہورہے ہیں۔ لیکن یقین رکھیے کہ وہ کام لازمی ہوکر رہیں گے۔۔ ایک چیز ہمارا ارادہ ہے اور دوسری چیز قدرت کی منشا ہے ، ہمارے بس میں ہمارا ارادہ ہے سو ہم اسے مضبوط رکھیں گے ۔۔۔۔۔ آج 22 تاریخ تک بھی جو دوست سیلری کا انتظار کررہے ہیں ، ان سے پھر یہی کہوں گا کہ اپنے کمفرٹ زون سے باہر نکلیں اور اپنے لیے کچھ کریں بصورت دیگر ، انڈسٹری اس حد تک سفاک ہوچکی ہے کہ پہلے جو کام ڈائریکٹر لیول کے حضرات کیا کرتے تھے ، اب نچلے مینیجرز بھی اپنی اوقات سے بڑھ کر صحافیوں کو وہی دھمکیاں لگاتے نظر آتے ہیں کہ کام کرنا ہے تو کرو ورنہ لوگ بہت ۔۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اب اس فیلڈ سے کام کرنے والے لوگ تیزی سے کم ہورہے ہیں اور ان کا خلا جو نا اہل پورا کررہے ہیں ، وہ جلد ہی میڈیا انڈسٹری نامی ٹائی ٹینک کو ڈبو دیں گے، اب فیصلہ آپ نے خود کرنا ہے ، اس جہاز کے ساتھ ڈوبنا ہے یا کشتی پکڑ کر تیر جانا ہے۔۔۔(فواد رضا)
(یہ تحریر فواد رضا کی فیس بک وال سے لی گئی ہے جس سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کا متفق ہونا ضروری نہیں،علی عمران جونیئر)