تحریر: علی حسن(سابق صدر حیدرآباد پریس کلب)۔۔
کراچی کی چار میں سے ایک یونین آف جرنلسٹس نے ایک اخبار ی انتظامیہ کی جانب سے ملازمین کو عید کے موقع پر عدالتی نوٹس بھیجے جانے کی سخت الفاظ میں شدید مذمت کی ہے اور اسے مالکان اور ورکرز کے درمیان جنگ کا اعلان قرار دیا ہے۔ انتظامیہ نے ملازمین کے خلاف این آئی آر سی میں مقدمہ دائر کیا ہے اور عدالت سے احتجاج کے خلاف حکم امتناع دینے کی درخواست کی ہے۔یونین کے مطابق اس کی اپیل پر ملازمین نے لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں پر احتجاج شروع کیا تھا۔ وجہ تنازعہ یہ بتایا جاتا ہے کہ انتظامیہ کے ساتھ خصوصا تن خواہوں کی ادائیگی کے معاملات کا فیصلہ نہیں ہو رہا ہے۔ اخباری مالکان ہوں یا چینلوں کے مالکان ، سب سے ملازمین کو ایک ہی شکایت ہے کہ انہیں وقت پر تنخواہیں ادا نہیں کی جاتی ہیں۔ ہر بار زبانی وعدے کئے جاتے ہیں جن پر عمل در آمد نہیں کیاجاتا ہے۔ اس ملک میں سرمایہ دار ، صنعتکار یا آجر نے یہ وطیرہ بنالیا ہے کہ وقت پر تنخواہ ادا نہیں کرنا ہے اور صنعتی قوانین ملازمین کو جو مراعات اور سہولتیں فراہم کرتے ہیں، مالکان وہ بھی ادا ہی نہیں کرتے ہیں۔ ملازمین اور محنت کشوں کے پاس ایسا کوئی ہتھیار نہیں ہے کہ وہ مالکان کو مجبور کر سکیں کہ ان کے حقوق ادا کئے جائیں ۔
آج پاکستان میں چند ایک اخباری اداروں کے شائد ہی کوئی اخبار ہو جہاں ملازمین کو وقت پر تنخواہیں ادا کی جاتی ہیں۔جو ادارے مثالی قرار پاتے تھے وہ بھی ملازمین کو دی جانے والی سہولتوں کی اداائیگی سے پہلو تہی کر رہے ہیں ۔ اخبارات کو درپیش مالی مشکلات اپنی جگہ ضرور ہیں لیکن ایسی کوئی مشکلات یا ہوتی تو مالکان کے گھروں پر بھی فاقے پڑ رہے ہوتے۔ اخباری اور چینلوں کے مالکان کے شاہانہ اخراجات اپنی جگہ برقرار ہیں۔ کوئی ادارہ نقصان میں نہیں ہے۔ ملازمین کے گھروں پر تو فاقوں کے علاوہ دوسرے وقت کی روٹی کا کوئی یقین ہی نہیں ہوتا ہے۔ علاج معالجہ، بچوں کی تعلیم، وغیرہ کو تصور ہی محال ہے۔ ملازمین کو فاقہ کسی کی اس نوبت سے چھٹکارہ کس طرح مل سکتا ہے۔ بظاہر تین ہی راستے ہیں۔ ملازمین کی انجمنیں عدالتوں سے رجوع کریں۔ انجمنیں اس معاملہ میں بوجوہ کوتاہی کو شکار ہو جاتی ہیں۔ ملازمین بھی سست روی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جب مدعی ہی سست ہوگا تو وکیل یا عدالت کیا کریں گی۔ منقسم انجمنیں بھی اپنے ہمدرد وکلاءکہ خدمات حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔ اس ملک میں بڑے سلیقہ اور طریقہ سے محنت کشوں کی تمام انجمنوں کو تقسیم در تقسیم کیا گیا۔ ملازمین کے نام نہاد نمائندے بھی اپنی عہدے داری کے چکر میں تقسیم کا شکار ہو گئے۔ یہ انتظار کسی سے نہیں ہوا کہ باقائدہ انتخابات کے ذریعہ اپنی باری کا انتظار کر لیں۔ ملازمین کے رہنماﺅں کا حال ویسا ہی ہے جیسا پاکستان کے دولت مند سیاسی رہنماﺅں کا ہے ۔ وہ بھوکے ننگے عوام کی رہنمائی کے دعوی دار ضرور ہیں لیکن ان کی بھول اور افلاس کو ختم کرنے کے لئے اقدام تجویز کرنے پر تیا نہیں ہیں۔ ایسی صورت حال میں یہ خام خیالی ہے کہ ملازمین کی انجمنیں ملک میں اخباری اداروں میں اس قسم کی ہڑتال کر اسکتے ہیں جیسی ۰۷۹۱ میں متحد پی ایف یو جے مشرقی اور مغربی پاکستان میں کرا لی تھی۔
ذرائع ابلاغ خصوصا چینلوں میں روز روز کا اضافہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ ” پیشہ وارانہ قابلیت کے حامل مالکان “ کسی نظریہ کے پیش نظر اس ملک کے حالات میں تبدیلی چاہتے ہیں۔ ایک سے زائد بار قومی اسمبلی کے منتخب رکن اور ممتاز کالمسٹ ایاز امیر اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ” ویسے بھی اب تو یوں لگتا ہے کہ سارے نہیں تو بہت سے نئے آنے والے چینلز پراپرٹی کاروبار کی ایکسٹینشن ہیں۔جس بڑے پراپرٹی والے کو دیکھو ایک آدھ ٹی وی چینل کھول لیتا ہے‘ وہ شاید اس لیے کہ ٹی وی چینل کا مالک بننے سے تھوڑی معتبری مل جاتی ہے (ماضی میں یہ معتبری اخبار شائع کرنے سے مل جایا کرتی تھی جو اب اخبارات کی بھر مار کی وجہ سے محدود ہو گئی ہے اور اخبارات کا چینلوں کی خبروں کا چربہ ہونے کی وجہ سے بھی ان کی اشاعت پر بری طرح اثر انداز ہوا ہے) ‘ حالانکہ دیکھا جائے تو آج کے پاکستان میں معتبری کا سب سے بڑا ذریعہ پراپرٹی کا کاروبار ہے۔ دوسرے ممالک میں سائنس اور ریسرچ کی اہمیت ہوگی‘ یہاں تو ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہرسمجھدار شخص یہ سمجھ چکا ہے کہ مال بنانے کے دو ہی ذریعے ہیں‘ ایک تو آپ سرکار سے ٹھیکے لیں یاپراپرٹی کے کاروبار میں چلے جائیں۔یہ بھی ہے کہ جنہوں نے ٹھیکوں کا راستہ اپنایا وہ بھی آخر کار پراپرٹی کی وسیع دنیا میں آ گئے“۔
ذرائع ابلاغ کے ملازمین بھی کسی امید پر جینے کی بجائے اپنے رہنماﺅں کو مجبور کریں کہ وہ اپنے درمیان موجود تقسیم کو ختم کریں اور متحدہ ہو جائیں۔ ملک بھر میں ایک ہی وفاقی انجمن ہو، ہر ادارے میں مظبوط سودا کاری ایجنٹ موجود ہوں۔ ملازمین بھی اپنی ملازمت کا ادارہ تبدیل کریں تاکہ اپنے بچوں کو بھوک اور افلاس سے بچا سکیں۔یہاں تو ملازمین تنخواہیں ملنے کے انتظار میں اپنا وقت ضائع کر دیتے ہیں۔ موجودہ حالات میں ملازمت کا ادارہ تبدیل کرنا ایک طرح سے نا ممکن ہے کہ اداروں میں مواقع ہی محدود ہیں لیکن تعلیم یافتہ اور ہنر مند لوگوں کے لئے مواقع کبھی بھی محدود نہیں ہوتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے ایسے ملازمین کی کمی نہیں ہے جو سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کر لی ہے اور انہیں کسی مطالعہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے انہیں مواقع محدود نظر آتے ہیں۔ بے شمار ایسے صحافیوں کے نام سامنے آتے ہیں جو صرف اپنی قابلیت کی بنیاد پر ہی اپنے لئے نئی سے نئی ملازمتیں حاصل کرتے رہے ۔
نئی ملازمتیں حاصل کرنا آج ہی مشکل نہیں ہیں بلکہ ہمیشہ مشکل رہی ہیں۔ ایک مشہور اخبار نویس نے لکھا ہے ” سبھی کا خیال تھا کہ ہماری اخبار نویسی کا دور ختم ہوا ( یہ وہ دور تھا جب پہلے فوجی مارشل لا ءکے دوران ایوب حکومت نے پاکستان ٹائمز، امروز پر قبضہ کر لیا تھا) اور زندہ رہنے کے لئے ہم لوگوں کو کچھ اور کرنا چاہئے۔ روز انہ نئی نئی تجاویز پیش ہوتیں۔ مثلا یہ کہ ریگل چوک (لاہور) میں دہی بڑے کی دکان کھولی جائے۔ ایک روز اے حمید (اپنے وقت کے بڑے ناول نویس) آئے اور کہنے لگے ” اس ملک میں کھانے پینے کا شوق فراواں ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ (عالم دور اندیشی ملاحظہ ہو) اس لئے ایبٹ روڈ پر کبابوں چانپوں اور گردوں کی ساتھ نا گفتبہ اشیاءکو اضافہ کر کے ریڑھیاں لگائی جائیں تو مولا کا بڑا کرم ہوگا “۔ آج ذرائع ابلاغ میں کام کرنے والے پیشہ تبدیل کرنے میں قباحت محسوس کرتے ہیں۔ پیشے سے وابستہ لوگ ہی کہتے ہیں کہ اخبارات اور چینل کے ملازمین ایک طرح سے نشے کا شکا رہو جاتے ہیں ۔ بڑے لوگوں (نام نہاد) کے ساتھ کندھوں سے کندھے ملاکر چلنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے ملازمین کو تمام اداروں میں آمدنی اور اخراجات کے فارنزک آڈٹ کا مطالبہ بھی کرنا چاہئے اور مشترکہ طور پر بنیادی انسانی حقوق اور لیبر قوانین کی خلاف ورزیوں کے خلاف کارروائی کی مہم چلانے چاہئے۔ (علی حسن)