تحریر: عبید بھٹی۔۔۔
ہرشروع ہونے والا مہینہ تنخواہوں سے محروم صحافیوں کی امیدوں کے چراغ روشن کرتاہے، لیکن جوں جوں اختتام کی جانب رواں ہوتاہے، امیدیں دم توڑتی رہتی ہیں، پاکستان میں صحافت بطور پیشہ بدترین سطح پہ ہے ۔۔۔ چند گنے چنے ادارے اپنے ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی بروقت کررہے ہیں، یہ گنے چنے ادارے تنخواہوں سے محروم صحافیوں کیلئے بلکل ویسی حیثیت رکھتے ہیں جو یورپ اور امریکہ کی برصغیر کے باسیوں کیلیے ہے
صحافتی اداروں میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ چھ چھ ماہ کی تنخواہ واجب الاداء ہے، بے روزگار صحافی اگر ادارے کو خیرباد کہنا چاہے تو بھی واجبات کی ادائیگی قسمت اورحالات پرمنحصر ہے، مالکان اور افسران واضح الفاظ میں کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ جس کو استعفی دینا ہے دے، واجبات تب ہی ادا ہونگے جب ادارے کے پاس دینے کیلیے کچھ ہوگا، صحافی کو صحافت کے علاوہ کوئی دوسرا کام آتانہیں، نوکریاں بھی یوں نایاب ہیں جیسے مغلیہ سلطنت کے ہیرے جواہرات، کبھی تو تنخواہ ملے گی، اس امید پر ملازمین بغیر اجرت کام کرنے پرمجبورہیں۔
جو ادارے وقت پر تنخواہوں کی ادائیگی کررہے ہیں وہاں تنخواہوں پرتیس سے پچاس فیصد تک کمی کے علاوہ ریشنلائزیشن کے نام پر ملازمین کی کثیرتعداد فارغ کی جاچکی ہے، شاید ہی کوئی ادارہ بچا ہو جہاں ملازمین کو نوکری سے نہ نکالا گیاہو یا تنخواہوں میں کٹوتی نہ کی گئی ہو۔۔
صحافتی اداروں کے اندرونی معاملات کی بات کی جائے تو کاروبارکے تحفظ کی خاطر قائم کیے گئے میڈیاہاوسزاپنی غیرمرئی طاقت کے بل بوتے ہرطرف سے مالی و سماجی فوائد سمیٹنے کے علاوہ ٹیکس کی چوری بھی کررہے ہیں، جس کا جہاں تک بس چلا لمبا مال بناچکاہے، اعلی افسران بھی اپنا حصہ بقدر جثہ وصولتے ہیں، یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ سابقہ حکومتوں کے ادوارمیں میڈیامالکان نے حکومتی چاپلوسی اور ذاتی لونڈیوں کی طرح خدمت گزاری کے صلے میں مال و متاع کا ڈھیر جمع کیا لیکن جیسے ہی حکومت بدلی، اپنے اداروں کو خسارے میں ظاہرکرکے ملازمین پرعرصہ حیات تنگ کردیا، جبکہ مالکان کے گھروں میں وہی عیش و عشرت کا سماں رہا جو پہلے ہوا کرتاتھا، مالی حالات بس ملازمین کی حد تک دگرگوں ہوئے ہیں۔۔
میڈیا ہاوسز کی ٹیکس چوری کی بات کی جائے تو نوے کی دہائی کے آخرمیں جاری ہونے والی سرکاری رپورٹس کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے صحافتی ادارے جنگ گروپ نے اربوں روپے ٹیکس کی مد میں چوری کیے، ہرسال حکومت کو آمدنی سے متعلق غلط اعداد و شمار دیے گئے، ٹیکس چوری کرنے میں اس وقت کی حکومتیں بھی ادارے کی یوں مددگار رہیں کہ کوئی تادیبی کاروائی نہ کی گئی، البتہ جب کبھی صحافتی حلقوں سے ناراضی ہوئی تو ڈرانے دھمکانے کی خاطر احتساب کا ڈراوا دیا گیا، حالات یہ ہیں کہ دو دہائیاں مزید گزر جانے کے بعد بھی جنگ گروپ مالی حالات کا رونا روتا ہے جبکہ سابقہ دورحکومت میں جنگ گروپ کو بے انتہا نوازا گیاتھا، موجودہ حکومت نے جنگ گروپ کو پینتالیس کروڑروپے سے زائد واجب الاداء ٹیکس کیلیے نوٹس بھیجا، ادائیگی میں ناکامی کی صورت ایف بی آر نے جنگ گروپ کے اکاونٹس سیز کردیے، جس کے بعد جنگ گروپ نے حکومت سے معاملات طے کیے ۔۔۔ ادائیگی ہوئی یا نہیں،یہ تاحال راز میں ہے ۔۔۔
ملکی صحافت کا دوسرا بڑا نام اے آروائی گروپ پہلا پرائیویٹ سیٹلائٹ نیوز چینل تھا جوتقریبا دودہائی قبل قائم ہوا ۔۔۔ لیکن اس کے سابقہ مالی معاملات سے متعلق کوئی معلومات دستیاب نہیں، البتہ موجودہ دورحکومت میں اے آروائی گروپ کو تقریبا ایک ارب روپے واجب الاداء ٹیکس کیلیے نوٹس جاری کیا گیا جس کے بعد صحافت کرنے والے اس ادارے نے حکومت مخالف پراپیگنڈہ کرکے دباو ڈالنے کی کوشش کی، اے آر وائی گروپ نے واجب الاداء ٹیکس ادا کردیا یا نہیں، اس بارے میں راوی دونوں جانب سے خاموش ہے ۔۔
دیگردرجنوں صحافتی ادارے ایسے ہیں جو بالخصوص سابقہ دور حکومت میں پیسوں کی بہتی گنگامیں ہاتھ دھو چکے لیکن موجودہ دور حکومت کے شروع ہونے کے بعد انکے مالی حالات دگرگوں دکھائی دیتے ہیں، انکے مالی معاملات سے متعلق کوئی واضح معلومات دستیاب نہیں کہ ان کے ذمہ کتنا ٹیکس واجب الاداء ہے
ایک میڈیا ہاوس ایسا بھی ہے جو خالصتا کاروباری مقاصد کیلیے چند سال قبل وجود میں آیا،اسکے مالکان گھی، اسٹیل، آئل ریفائنری، میڈیکل کالجز، یونیورسٹی اور سکولز کا کاروبار کرتے ہیں، ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایک فلاحی فاونڈیشن بھی قائم کررکھی ہے، کچھ کچھ سال قبل اخبار بھی لانچ کیا جبکہ اپنے صحافتی ادارے کا دائرہ کار ملک سے باہر بھی پھیلایا، لیکن سب سے اہم ترین بات یہ ہے یہ ادارہ اپنے صحافتی ادارے کے ملازمین کو فاونڈیشن کے ملازمین ظاہرکرتاہے۔۔۔۔صحافیوں کو آدھی تنخواہ بذریعہ بینک اکاونٹ جبکہ آدھی تنخواہ نقد ادا کی جاتی ہے تنخواہوں کی نقد ادائیگی کیلیے ملازمین کو کئی کئی روز قطاروں میں لگنا پڑتاہے، ٹی وی چینل اور اخبار کے ملازمین کی تعداد ایک ہزار سے زائد ہے، ملازمین کی تنخواہوں سے واجب الاداء انکم ٹیکس بوقت ادائیگی کاٹ لیاجاتاہے لیکن ایف بی آر کے ریکارڈ میں ملازمین کا ٹیکس ادا نہیں ہورہا، کیونکہ آدھی تنخواہ بذریعہ بینک جبکہ آدھی نقد دی جاتی ہے، ملازمین کو ہرممکن حد تک سیلری سلپ ادا نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے ملازمین کو اپنے گوشوارے جمع کرواتے ہوئے شدیدمسائل کا سامنا کرناپڑتاہے، اسی گروپ کی دیگرفیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد کتنی ہوگی یہ اندازہ حکومت ہی لگاسکتی ہے، جبکہ نقد ادائیگی کا مقصد کیا ہوسکتاہے یہ اندازہ لگانا بھی حکومت کا کام ہے، یہ بات تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ ملک خداد میں چیریٹی فاونڈیشنز اور ٹرسٹ بنانے کا مقصد بالعموم مالی معاملات میں ہیرپھیر اور ٹیکس چوری ہوتاہے۔
حکومت کی ذمہ داری تو ایک الگ بات ، شرافت, دیانت اور صداقت کےعلمبردار صحافی ،جو دن رات ہر چینل پہ بیٹھے کرپشن کے خلاف بھاشن دیتے اور سٹوریز بریک کرتے نظر آتے ہیں ۔۔ وہ سب بھی یہا ں آکر گونگے ہوجاتے ہیں ۔۔ روف کلاسرا ہو، ارشد شریف ہو، کامران خان ہو یا شاہ زیب خانزادہ ۔۔۔ کسی نے بھی آج تک صحافتی اداروں کی مالی کرپشن, ٹیکس چوریوں اور بلیک میلنگ کے حوالے سے کبھی کوئی سٹوری بریک نہیں کی ۔۔۔حتی کہ ایک ٹویٹ تک بھی نہیں ۔۔ اپنے معمولی معاشی مفاد کی خاطر یہ افراد پیغمبری پیشہ کہلانے والے شعبے کی حرمت کو بھی بیچنے سے باز نہیں آتے۔ کیونکہ نوکری تو انہی سیٹھوں کے ہاں کرنی ہے نا!!!
حیرانگی تو اس بات کی ہے کہ جب یہ تحقیقاتی صحافی ٹی وی پہ بیٹھ کر دوسروں کی ٹیکس چوری پہ بات کرتے اور ان کی عزت کی دھجیاں اڑا رہے ہوتے ہیں تو عین اسی وقت اِن کے نیوزروم یا ادارے میں بیٹھے افراد ان کے متعلق کیا سوچتے ہونگے؟؟؟؟؟
یہ واقعی مسیحا ہیں یا اداکار؟؟آپ بھی ضرورسوچیے گا(عبید بھٹی)۔۔
(عبید بھٹی کی تحریر سے عمران جونیئر ڈاٹ کام اور اس کی پالیسی کامتفق ہونا ضروری نہیں۔۔علی عمران جونیئر)۔۔