tankhua dar tabqa or kam hoti mehengai

تنخواہ دار طبقہ اور “کم ہوتی” مہنگائی

تحریر: محمد عرفان شیخ۔۔

کافی وقت سے شور سن رہا تھا کہ مہنگائی کم ہو گئی ہے،میں پریشان تھا کہ بظاہر زمینی حقائق دیکھیں تو کہانی برعکس نظر آرہی ہے پھر حکومت کس بنا پر ایسے دعوے کر رہی ہے،یہ سوال لے کر معیشت کو سمجھنے والے کچھ دوستوں کے پاس پہنچا اور ان سے یہی بات پوچھی تو انہوں نے پہلے میری صحافت اور معلومات پر چار قل پڑھے پھر بتایا کہ بھائی جان مہنگائی کم نہیں ہوئی،ہوا کچھ یوں ہے کہ جو چیز پہلے سالانہ 40فیصد مہنگی ہو رہی تھی اب وہ 10فیصد کی رفتار سے مہنگی ہو رہی ہے،یعنی مہنگائی بدستور ہو رہی ہے مگر اس کی رفتار سست ہوئی ہے،میں نے کہا چلو کم از کم اتنا تو ہوا کہ مہنگائی کی رفتار کم ہوئی،مگر اس بد بخت نے میری اس خوش فہمی پر بھی پانی پھیر دیا یہ بتا کر کہ ایسااس لیئے ہو رہا ہے کہ لوگوں کی قوت خرید کم ہو گئی ہے یعنی اشیا خریدنے کے لئے لوگوں کے پاس پیسے ہی نہیں ہیں جس کی وجہ سے چیزوں کی بڑھتی قیمتوں میں سستی دیکھنے میں آرہی ہے جب کوئی چیز بکے گی ہی نہیں تو اس کی قیمت بھی نہیں بڑھے گی سپلائی اینڈڈیمانڈ کو سمجھتے ہو یا نہیں،دوستوں نے پوچھا تو میں نے ایوں اثبات میں سر ہلا دیا،دوستوں نے مزید بتایا کہ آنے والے بجٹ میں حکومت تنخواہ دار طبقے پر مزید ٹیکسز لگا کر ملکی معیشت کو “سنبھالنے “کی کوشش کرے گی،یہ سننے کے بعد مزید کچھ سننے کی مجھ میں سکت نہیں تھی میرا رواں رواں کانپ گیا یہ سوچ کر ہی کہ موجودہ حالات میں جب ہم جیسے تنخواہ دار مہینے کے دن گن گن کر گزارتے ہیں مہینے کی ابتدا میں تنخواہ آتے ہی بقول الطاف بھائی کے تنخواہ تھی ہو جاتی ہے ان پر مزید ٹیکسز لگانے کے بعد ہمارا حشر کیا ہونے والا ہے،ذہن میں سوال اٹھتا ہے ملک کی ابتر معاشی حالت کی بحالی میں یقینا سب کو قربانی دینی چاھیے لیکن یہ ساری قربانی غریب تنخواہ دار طبقے سے کیوں لی جارہی ہے اشرافیہ کیوں اپنے اخراجات کم کرنے پر تیار نہیں،کیوں وفاقی و صوبائی حکومتوں میں وزرا مشیران کی فوج ظفر موج اور انکی لا متناہی مراعات ہیں بجائے اپنے اخراجات پر قابو پانے کے حکومت نے 22فیصد اپنے خرچے بڑھا لیئے،بڑے بڑے کاروباریوں کے پاس کونسی گیدڑ سینگی ہے کہ وہ ہر بار ٹیکس کے نام پر لکا چھپی کھیل کر صاف بچ نکلتے ہیں اور کمند آکر تنخواہ دار طبقے پر ٹوٹتی ہے،غریب عوام کی ہر روز جھکتی کمر اب دھرتی سے جا لگی ہے،ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک میں اس وقت دس کروڑ سے زائد افراد ایسے ہیں جو ایک وقت کا کھانا کھانے کے بعد نہیں جانتے دوسرے وقت کا کہاں سے آئے گا  یعنی تقریبا آدھی آبادی خط غربت سے نیچے زندگی کو گھسیٹ رہی ہے،مگر حکومتی دعوے ہیں کہ دودھ شہد کی نہریں بہہ نکلی ہیں جن میں کھل کر ڈبکیاں لگاو،مجھے حکومتی دعوں کے تسلیم کرنے میں کوئی پریشانی ہے نہ اعتراض لیکن جب تک عام عوام کی زندگی میں بہتری نہیں آتی یہ دیو مالائی کہانیاں سنا کر حکومت اپنے آپ کو تو بہلا سکتی ہے مگراس طرح کے دعوے مہنگائی کے ستائے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں دکاندار سے ریڑھی بان تک سب جانتے ہیں حقیقت اس کے بر عکس ہے۔(محمد عرفان شیخ)۔۔۔

Facebook Comments

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں