تحریر: شوکت علی مظفر۔۔
حیدر آباد میں اسٹیج ڈرامہ” لالہ جی عید مبارک” دیکھنے کا اتفاق ہوا جسے دیکھ کر اندازہ ہوا یہ ڈرامہ کم، تماشائیوں کے ساتھ ڈرامہ بازی زیادہ ہے۔ اسکرپٹ کمزور، اداکاری فضول، مس کاسٹنگ اور ڈائریکشن ناپید۔ اس میں شک نہیں کہ رؤف لالہ اچھا کامیڈین ہے لیکن خود ہیرو بننے کے چکر میں شہباز صنم کو اپنے با پ کا کردار دے کر اسے ضائع کردیا۔ یہی حال قادر قریشی، سپنا غزل کے ساتھ بھی کیا گیا البتہ کمال ادریس نے بے احتیاطی کی وجہ سے خود اپنے آپ کو نقصان پہنچایا۔ جونیئر آرٹسٹوں کو خوامخواہ بھرتی کرکے ان کے ساتھ بھی نا انصافی کی گئی۔ ان جونیئرز سے اچھا کام لیا جاسکتا تھا اگر لالہ جی ہیر و گیری کے چکر میں نہ پڑتے تو۔ ڈرامہ ہال میں بیٹھی خواتین کیلئے تو ناظرین سے التماس کی گئی کہ ان کا احترام کرنا ہے لیکن خود یہی اداکار غیر اخلاقی جملوں سے ان خواتین کو بھی شرمسار کرتے رہے۔ لالہ کو جس ڈائریکشن پر گرفت پردے کے پیچھے رکھنی چاہئے تھی وہ اسٹیج پر کرتے دکھائی دیئے کس کو کتنا بولنا ہے اسٹیج پر ہی روک ٹوک کرکے ساتھی اداکاروں کی غیر محسوس انداز میں عزت نفس کو مجروح کیا جاتا رہا۔رقص کے شوقین لوگوں کے ساتھ بھی ظلم ہوا کہ صرف دو گانے دکھا کر انہیں ٹرخا دیا گیا۔ مان لیا کہ ہندی اور انگریزی فلموں اور بولڈ ویب سیریز کے باعث لوگوں کی ذہنی سطح بلند ہوچکی ہے لیکن پھر بھی کچھ اخلاقیات کا پابند تو رہنا ہی پڑتا ہے۔ ماں کا ایک احترام ہے، باپ کا ایک وقار ہے لیکن جس دھڑلے سے باپ کو ذلیل اور ماں کو گندہ کیا جاتا رہا ، وہ قابل افسوس ہے۔ان باتوں کا مقصد تنقید برائے تنقید نہیں، بلکہ ایک تماشائی کے طور پر اپناحق اور ایک رائٹر کے طور پر اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ خرابیوں کی نشاندہی کی جائے۔ رؤ ف لالہ اسٹیج و تھیٹر کے سینئر اداکارو ں میں شمار ہوتے ہیں، عمر شریف کے بعد اسٹیج کی بحالی اورساکھ کا دارو مدار اِن پر اورشکیل صدیقی،سلیم آفریدی، ذاکر مستانہ و دیگر سینئر آرٹسٹوں منحصر ہے۔ شکوہ کیا جاتا ہے کہ فیملیز اب ڈرامہ ہالز کا رُخ نہیں کرتیں، تو اس کے سد باب کیلئے نہ کسی نے سوچا نہ کوشش کی۔ اپنی دیہاڑیوں کے چکر میں ڈرامہ کے نام پر انٹریوں کو بڑھاوا دیا گیا جس سے حقیقی رائٹر اور ڈائریکٹر غائب ہوگئے اور خود ساختہ رائٹر ڈائریکٹر نے بیڑہ غرق کردیا۔ تفریح کے نام پر ذہنی آلودگی کو پھیلایا گیا جس کا نقصان خود انہی کو اُٹھانا پڑ رہا ہے۔ایسے میں ہوش کے ناخن نہ لیے گئے تو تماشائی اتنا بے وقوف نہیں کہ پیسے دے کر اپنا وقت ضائع کرے۔ چونکہ اسٹیج ڈرامہ کی لاگت اب زیادہ تر اسپانسر سے ہی پوری کرلی جاتی ہے تو عوا م کو راغب کرنے کیلئے انتہائی سستے ٹکٹ رکھ کر حقیقی رائٹر اور ڈائریکٹر کی مدد سے تھیٹر کی بحالی ممکن ہے۔ دیہاڑیاں لگانے کی بجائے ریہرسل پر دھیان دینا ضروری ہے ، جس طرح یہ سینئر اداکار کسی پروڈیوسر کے معاوضہ کم کرنے کی بات پر فٹ سے کہتے ہیں کہ پیسہ نہیں تو کوئی اور کام کرلیں تو ان سے بھی عرض ہے کہ اگر اب محنت نہیں ہوتی، ریہرسل کیلئے وقت نہیں ہے تو پھر آپ لوگ بھی کوئی اور کام کرلیں تو اچھا رہے گا۔ باقی رہی ڈرامہ کی کامیابی کی بات تو اس لحاظ اسے ایک کامیاب ڈرامہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ ایاز میمن موتی والا اور یعقوب نور اور دیگر سرمایہ داروں سمیت بہت سے میڈیا کے لوگوں نے خصوصی شرکت کی اور آخر میں عامر ریمبو کا رؤف لالہ کو شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ اسی کی کامیڈی اور جاندار پرفارمنس کی وجہ سے کچھ ان کی عزت رہ گئی، ویلڈن عامر ریمبو!! (شوکت علی مظفر)