(خصوصی رپورٹ)
پاکستان میں فارغ اوقات میں ٹی وی دیکھتے ہوئے اکثر آپ ایسے چینلز بھی دیکھ پاتے ہیں جو ملک میں موجود اقلیتی مذاہب یا اسلام ہی کے مختلف مکاتبِ فکر کے مخصوص عقائد کا کھلم کھلا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔پاکستانی قوانین کے مطابق ایسے تمام چینلز ‘غیر قانونی’ ہیں کیونکہ الیکٹرانک میڈیا کا نگران ادارہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) 24 گھنٹے مذہبی مواد پر مبنی نشریات کو چلانے کی اجازت نہیں دیتا اور اس زمرے میں کسی چینل کو لائسنس بھی نہیں دیا جاتا۔گذشتہ ہفتے پیمرا نے 72 ‘غیر قانونی’ سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کی نشاندہی کرتے ہوئے ان کی نشریات معطل کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں۔ ان میں ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ تعداد ایسے ہی چینلز کی ہے۔17 جنوری کو جاری کیے گئے نوٹس میں کہا گیا ہے کہ یہ تمام چینلز ‘غیر لائسنس یافتہ’ ہیں اور متعلقہ افسران کو ان کی نشریات روکنے کے لیے اقدامات کرنے کا کہا گیا ہے۔تاہم ایسے تمام چینلز کے منتظمین حکومتِ پاکستان کی اس پالیسی کو ‘بنیادی انسانی حقوق’ کی خلاف ورزی قرار دیتے ہیں۔
پالیسی ہے کیا؟اس بارے میں پیمرا قانون، جو کہ ادارے کی ویب سائٹ پر موجود ہے، کے مطابق سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کے لائسنس صرف سات مختلف کیٹگریز کے تحت دیے جاتے ہیں اور ان میں نیوز اور حالاتِ حاضرہ، تفریح، کھیل، تعلیم، زراعت، اور علاقائی زبانیں شامل ہیں۔پیمرا کے ایک عہدے دار کے مطابق ‘بشمول مذہب کسی اور کیٹگری کے تحت لائسنس نہیں دیا جاتا۔ مذہبی چینلز کو لائسنس نہ دینے کی پالیسی کی بنیادی وجہ اس حوالے سے ہمارے معاشرے میں پائی جانے والی حساسیت ہے۔ان کا کہنا تھا کہ مذہبی بنیادوں پر چلنے والے چینلز کو لائسنس دینا ٹی وی کے ذریعے مختلف مکاتبِ فکر اور مذاہب کو اپنے عقائد کا برملا اظہار کرنے کی اجازت دینے جیسا ہے اور یہ ہمارے معاشرے میں پہلے سے موجود شدید مذہبی تفریق کو مذید واضع کر دے گا اور فرقہ واریت کو ہوا دے گا جو کسی صورت قابلِ قبول نہیں ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں 56 پرائیوٹ کمپنیوں کو 89 سیٹلائٹ ٹی وی چینلز چلانے کے لائسنس دیے گئے ہیں جبکہ 34 غیر ملکی سیٹلائٹ ٹی وی چینلز کے پاس لینڈنگ رائٹس ہیں۔لائسنس جاری کرنے کی پالیسی کے حوالے سے ان کا مذید کہنا تھا کہ اس حوالے سے باقاعدہ اشتہار دیا جاتا ہے اور درخواستیں لی جاتی ہیں جبکہ سیٹلائٹ ٹی وی چینل کے لائسنس کی فیس 25 لاکھ روپے ہے۔
پابندی کے باوجود مذہبی چینلز کیسے چل پاتے ہیں؟ پابندی کے باوجود مذہبی چینلز کی آپ کے کیبل نیٹ ورک پر موجودگی بنیادی طور پر ‘عوامی اِصرار’ کا نتیجہ ہے۔پیمرا اہلکار کا کہنا ہے کہ ‘ان میں سے بیشتر چینلز کی نشریات بیرونِ ممالک سے چلتی ہیں۔ سیٹلائٹ پر ان کے لنک اور فریکوینسی موجود ہیں اور ان میں سے بیشتر کو چلانے کی کوئی پیشگی فیس نہیں ہے کیوں کہ یہ مفت ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ ایسے علاقے میں رہتے ہیں جہاں کسی مخصوص مکتبِ فکر کے لوگ اکثریت میں ہیں تو اس علاقے کا کیبل آپریٹر وہاں بسنے والے لوگوں کے اصرار پر ان کی پسند کا مذہبی چینل چلا دیتا ہے۔ ‘صارف کی تسلی بھی ہو گی اور وہ بھی مفت میں!’ مثال دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ سندھ کے بعض علاقوں میں جہاں ہندو مذہب کے ماننے والے اکثریت میں ہیں وہاں اس مذہب کی پرچار کرنے والے چینلز چلتے ہیں۔انھوں نے بتایا کہ پیمرا ایسے کیبل نیٹ ورکس کے خلاف کاروائی کرتا رہتا ہے جو اس غیر قانونی عمل کے مرتکب ہوتے ہیں۔ لگاتار خلاف ورزی پر کیبل نیٹ ورکس کے آلات بھی ضبط کیے جاتے ہیں اور جرمانے بھی کیے جاتے ہیں۔
بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی؟ہادی ٹی وی کے ترجمان انور نجفی ان کے چینل کی بندش کے احکامات کو صریحً ’ذیادتی‘ قرار دیتے ہیں۔یہ نا انصافی ہے 10 سال سے (لائسنس کے حصول کے لیے) ہماری درخواست پیمرا کے پاس ہے، ہماری تمام ریکوائرمنٹس پوری ہیں۔ لیکن ریاست کی ایک ‘ان ریٹن’ پالیسی ہے جس کے مطابق مذہبی چینلز کو لائسنس نہیں دیا جاتا۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے ہم اسکے خلاف کورٹ میں بھی گئے نہ ہماری پیمرا میں شنوائی ہوئی اور نہ ہی کورٹس میں۔ان کا کہنا تھا کہ انکی درخواست کو پیمرا نے مسترد نہیں کیا بلکہ لٹکا دیا ہے اور یہ عمل غیر قانونی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ‘ہمارے خیال میں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مذہبی چینلز کو لائسنس نہ دینا غیر قانونی ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح مذہبی آواز جو ہم آہنگی کو فروغ دے، علم کو فروغ دے اس کو لوگوں تک پہنچائے اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو یقیناً غلط آواز پہنچے گی۔ماہرِقانون یاسر لطیف ہمدانی کہتے ہیں کہ چینلز کو مذہبی ہونے کی وجہ سے نشریات سے روکنا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ ‘یہ آئین کی شق 19 اور 20 کے خلاف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ چینل کی نشریات یا لائسنس صرف اس بنیاد پر روکا جا سکتا ہے اگر اس کی نشریات سے امن و امان میں خلل کا اندیشہ ہو ۔اور اگر کسی مذہب یا مکتبِ فکر کے چینل کی نشریات چل رہی ہے جبکہ کسی کی روک دی گئی ہے تو یہ شق 25 کے خلاف ورزی بھی ہے جو امتیازی رویوں کے خلاف ہے۔یاد رہے کہ دو مذہبی چینلز عدالتوں سے حاصل کیے گئے حکمِ التوا کی بنیاد پر چل رہے ہیں اور اس بنا پر پیمرا ان کے خلاف کارروائی سے قاصر ہے۔یاسر ہمدانی کا مزید کہنا تھا کہ ‘اگر رجسٹریشن (لائسنس) کی اجازت نہ ملے تو اِس کے خلاف پٹیشن فائل کی جا سکتی ہے۔’
نیشنل کمیشن فار جسٹس اینڈ پیس کے پیٹر جیکب کا کہنا ہے کہ پیمرا کو اس کے لیے خصوصی اقدمات کرنے چاہیں کیونکہ اقلیتوں کی ٹی وی پر نمائندگی پہلے ہی بہت کم ہے اور ایسے اقدامات سے ان میں احساس محرومی بڑھتی ہے۔یہ بات درست ہے کہ حکومت نے قانون کے مطابق کاروائی کی ہے لیکن میرے نزدیک یہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ آزادی رائے اور آزادی مذہب کا خیال رکھے اور اس سے میرا مطلب یہ ہے کہ اگر چینلز قانون پہ عمل پیرا ہونے کو تیار ہیں تو انھیں وقت دیا جائے کہ وہ ایسا کر سکیں بجائے اس کے کہ چینلز کو صوابدیدی اختیار پر بند کردیا جائے۔(بشکریہ بی بی سی)