تحریر:مناظرعلی
سنا ہے کہ جنوب مشرقی بادشاہ برمااورتھائی لینڈ وغیرہ میں سفیدہاتھی رکھتے تھے،یہ ہاتھی قیمت کے اعتبار سے تو بہت مہنگے تھے مگرعام ہاتھیوں کے مقابلے میں یہ نکمے شمار ہوتے تھے،بادشاہوں کے چونکہ اپنے ہی مزاج ہوتے تھے اور دل آجانے پر چاہے پوری سلطنت لٹ جائے انہیں فرق نہیں پڑتا تھا،،ایسے ہی سفید ہاتھی چاہے کسی خاص کام کےنہیں ہوتے تھے مگر خزانے پر بوجھ ضرور ہوا کرتے تھے۔۔جب ٹیلن نیوز بند ہوا ،معلومات جمع کیں تو ذرائع سے معلوم ہوا کہ یہاں بھی مسئلہ سفید ہاتھیوں نے ہی خراب کررکھا تھا،جیسے بہت سے اداروں میں سفید ہاتھی موجود ہوتےہیں ایسے ہی ٹیلن نیوز میں بھی سفید ہاتھیوں نے سیالکوٹ کے ایک بزنس مین کو گھیرا،اسے سبز باغ دکھائے اور حصہ بقدر جثہ لوٹ لوٹ کر اس کے خزانے خالی کردئیے۔
اگر آپ میڈیا انڈسٹری پر نظر دوڑائیں تو بہت سے سفید ہاتھی آپ کو نظر آئیں گے جو مختلف پارٹیوں کی تاڑ میں رہتے ہیں، جونہی کوئی پارٹی ان کے شکنجے میں آتی ہے یہ ایک جھنڈ کی صورت میں اسے سبز باغ دکھانے جمع ہو جاتے ہیں اور یوں سادہ لوح کاروباری پارٹی کی جمع پونجی داؤ پر لگادی جاتی ہے، چینل چل گیا تو ٹھیک،نہ چلا تو سفید ہاتھی اپنے کچھ دن چارہ کھا کر کسی نئے جنگل کی طرف نکل جاتے ہیں اور یہ کاروباری پارٹی ایک بڑا نقصان کرکے میڈیا سے توبہ کرلیتی ہے۔
ٹیلن نیوز کی بندش پرجانکاری رکھنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ادارے میں کون کون سفید ہاتھی تھا اور ان ہاتھیوں نے کس طرح یہ ساری گیم چلائی اور پھر اس کا اختتام ہوا،ٹیلن کیساتھ تو جو ہونا تھا وہ ہو گیا،مالک کے جو پیسے اس بھٹی میں جلنے تھے جل گئے مگر نقصان کس کا ہوا؟پہلا نقصان ان سفید ہاتھیوں نے مالک کا کیا کہ بحرحال پیسہ اس کی جیب سے ہی لگا،دوسرا اور میں سمجھتا ہوں سب سے زیادہ نقصان ورکرز کا ہوا کیوں کہ سفید ہاتھیوں کے مقابلے میں ان کی تنخواہیں مشکل سے اتنی ہی ہوتی ہیں کہ ان کی دال روٹی کے معاملات چلتے ہیں،ہنسی خوشی جب آپ اپنی ڈیوٹی کے امور انجام دے رہے ہوں اور ایک افسر آکر یہ کہہ دے کہ کام بند کردیں،آج اور ابھی سے ادارہ بند کیاجارہاہے تو پھر سوچیں برکتوں کے اس مہینے میں جب مہنگائی کا طوفان بھی عروج پر ہے،قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں اور اوپر سے عید سر پر ہے،نوکری نہ رہے تو پھر متوسط طبقے کے کسی فرد کو ایسی صورتحال کا سامنا ہوگا تواس کے گھر کی حالت کیا ہوگی؟اس کے دل پر کیا گزرے گی؟
ٹیلن کے ہی ایک ورکر سے بات ہوئی تو کہنے لگا ’’نوکری دا بندوبست کرو،برا حال اے،میری تے بیوی وی روئی جارہی اے کہ ہن کی کرئیے؟‘‘ ایک ورکر جب فارغ ہوتا ہے تو پھر اس کی ساری فیملی کو اس پریشانی سے گزرنا پڑتاہے،یہ ایک دردناک موقع ہے جب ایک بڑی تعداد میڈیا ورکر کی رمضان میں بیروزگار ہوئی ہے۔
ہاتھی ویسے تو انسانوں کی زبان نہیں سمجھ سکتے،نہ ہم ان ہاتھیوں کی زبان سمجھتے ہیں مگر پھر بھی سفید ہاتھیوں سے گزارش ہے کہ خدارا اپنی دیہاڑی کے چکر میں ورکرز کے روزگار سے مت کھیلا کریں،،اس کا حساب کتاب بہت سخت ہونا ہے اورضرور ہونا ہے اب نہیں تو مرنے کے بعد۔(مناظر علی)۔۔